بگاٹی کار، خاتونِ اول کی شاہ خرچیاں اور شاہ چارلس کی حویلی، وہ جھوٹی خبریں جو امریکی انتخابات کو نشانہ بنانے کے لیے گھڑی گئیں،تصویر کا ذریعہX
،تصویر کا کیپشنجان مارک ڈوگن ایک سابق امریکی پولیس اہلکار جو اب ماسکو سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے چلنے والی جعلی نیوز سائٹس کا نیٹ ورک چلاتے ہیں

  • مصنف, پال مایرز، اولگا رابنسن، شایان سردارزادہ اور مائیک وینڈلنگ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، بی بی سی ویریفائی
  • ایک گھنٹہ قبل

بی بی سی کی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ روس میں قائم ویب سائٹس کا ایک نیٹ ورک امریکی اخبارات کا روپ دھار کر مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کا استعمال کرتے ہوئے جعلی خبریں شائع کر رہا ہے جن کا مقصد امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونا ہے۔اس آپریشن کے پیچھے موجود افراد میں سے ایک سابق امریکی پولیس افسر ہیں جو فلوریڈا سے ماسکو منتقل ہو گئے تھے۔ایک غیر معروف فرانسیسی ویب سائٹ پر کچھ روز قبل شائع ہونے والی ایک خبر میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یوکرین کی خاتونِ اول اولینا زیلنسکا نے جون میں ڈی ڈے کی تقریبات کے لیے پیرس کے دورے کے دوران مبینہ طور پر 48 لاکھ ڈالرز (ایک ارب 33 کروڑ روپے) کی ایک نایاب بگاٹی ٹوربلون سپورٹس کار خریدی۔اس خبر میں کہا گیا کہ اس لگژری کار کی خریداری کے لیے امریکی فوجی امداد کی رقم استعمال کی گئی۔

یہ بہت بڑی خبر ہو سکتی تھی اگر یہ سچ ہوتی مگر جلد ہی اس خبر کی ہر جانب سے تردید سامنے آ گئی۔ماہرین نے اس خبر کے ساتھ گاڑی کی حریداری کی آن لائن پوسٹ کی گئی رسید میں کئی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی۔ خبر میں راز افشاں کرنے والے جس شخص کا ذکر کیا گیا تھا ان کی صرف ایک ویڈیو سامنے آئی جو کہ شاید مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے تخلیق کی گئی تھی۔بگاٹی کمپنی نے بھی اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے ’جعلی خبر‘ قرار دیا جب کہ کمپنی کی پیرس میں موجود ڈیلرشپ نے اس خبر کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی بھی دھمکی دی۔لیکن اس سب کے باوجود یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور کئی بااثر افراد نے بھی اس خبر کو شیئر کیا۔روس نواز اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی کارکن جیکسن ہنکل نے اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اس خبر کا ایک لنک پوسٹ کیا جسے 65 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دیکھا۔کئی دوسرے ایکس اکاؤنٹس نے اس خبر کو مزید آگے بڑھایا اور سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ خبر کم از کم ایک کروڑ 20 لاکھ افراد تک پہنچی۔یہ ایک جعلی نیوز ویب سائٹ پر لگائی گئی جھوٹی خبر تھی جسے بڑے پیمانے پر آن لائن پر پھیلانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔اس کی ابتدا روس میں قائم ایک ڈس انفارمیشن آپریشن کی جانب سے ہوئی تھی جس کے بارے میں بی بی سی ویریفائی نے گذشتہ برس نشاندہی کی تھی۔ تب اِس آپریشن کا مقصد یوکرین کی حکومت کو کمزور بنانا تھا۔

،تصویر کا کیپشنآن لائن پوسٹ کی جانے والی رسید میں کئی غلطیاں تھی
چھ ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی بی بی سی کی حالیہ تحقیقات جس میں درجنوں ویب سائٹس پر شائع ہونے والے سینکڑوں مضامین کی جانچ پڑتال کی گئی سے پتہ چلا کہ اس آپریشن کا اب ایک نیا ہدف امریکی ووٹرز ہیں۔بی بی سی کی جانب سے درجنوں جعلی خبروں کے تجزیے کے دوران سامنے آیا کہ ان جھوٹی خبروں کا مقصد امریکی ووٹروں کو متاثر کرنا اور نومبر کے انتخابات سے قبل عدم اعتماد کا بیج بونا ہے۔ان میں اکثر خبریں کچھ خاص اثر نہیں ڈال پائیں لیکن ان میں سے کچھ کو بااثر افراد بشمول امریکی کانگریس کے اراکین نے بھی شیئر کیا ہے۔یوکرینی خاتونِ اول کی بگاٹی گاڑی خریدنے کی خبر اس پورے آپریشن کے کئی بنیادی اہداف کو کافی حد تک کامیابی سے حاصل کرتی ہے جس میں یوکرینی بدعنوانی اور امریکی امداد کا بے جا استعمال شامل ہے۔ایک اور جعلی خبر جو اس سال کے اوائل میں بہت وائرل ہوئی تھی اس کا ہدف براہ راست امریکی سیاست تھی۔یہ دی ہیوسٹن پوسٹ نامی ایک ویب سائٹ پر شائع کی گئی تھی۔ دی ہیوسٹن پوسٹ امریکی ناموں والی درجنوں نیوز ویب سائٹوں میں سے ایک ہے جو درحقیقت ماسکو سے چلائی جاتی ہیں۔ اس خبر میں الزام لگایا کہ ایف بی آئی نے غیر قانونی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلوریڈا میں واقع ریزورٹ کو وائر ٹیپ کیا۔اس خبر میں ٹرمپ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کو دہرایا گیا کہ امریکی قانونی نظام کو ان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور ان کی انتخابی مہم کو ناکام بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ سابق صدر کے مخالفین انھیں کمزور کرنے کے لیے گھٹیا چالیں استعمال کر رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے خود ایف بی آئی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان کی جاسوسی کر رہی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کارروائی امریکی انتخابی مہم کے دوران غلط معلومات پھیلانے کے لیے ماسکو سے چلائی جانے والی کوششوں کا محض ایک حصہ ہے۔اگرچہ اس بات کے ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں کہ یہ جعلی نیوز ویب سائٹیں روسی ریاست کی سر پرستی میں چلائی جا رہی ہیں۔ تاہم محققین کا کہنا ہے کہ جتنی مہارت اور وسیع پیمانے پر یہ مہم چلائی جا رہی ہے وہ روس کی جانب سے مغرب میں غلط معلومات پھیلانے کی سابقہ کوششوں سے میل کھاتی ہے۔کرس کریبس یو ایس سائبر سکیورٹی اور انفراسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر طور پر 2020 کے صدارتی انتخابات کی سالمیت کو یقینی بنانے کے ذمہ دار تھے۔ان کا کہنا ہے کہ روس بھی دوسروں کی طرح امریکہ کے 2024 کے انتخابات میں مداخلت کی کوششیں کرے گا۔کریبس کہتے ہیں کہ ابھی سے ہی سوشل میڈیا اور دیگر جگہوں پر روس کی جانب سے امریکی سیاست کے متنازع نکات کو بڑھاوا دینے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔بی بی سی نے روسی وزارت خارجہ اور روس کے امریکی اور برطانیہ میں موجود سفارتخانوں سے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ہم نے تبصرہ کے لیے ہنکل سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی۔

جھوٹی خبریں کیسے پھیلائی جاتی ہیں؟

سنہ 2016 کی امریکی انتخابی مہم کے دوران ریاست حمایت یافتہ ڈس انفارمیشن مہمات اور پیسہ کمانے کی غرض سے پھیلائی جانے والی ’جعلی خبروں‘ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سے غلط معلومات فراہم کرنے والوں کو اپنے مواد کو پھیلانے اور اسے قابل اعتبار بنانے کے لیے زیادہ تخلیقی ہونا پڑ رہا ہے۔بی بی سی ویریفائی کی حالیہ تحقیقات میں پتا چلا ہے کہ ہزاروں جعلی خبریں تیار کرنے کے لیے مصنوع ذہانت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان خبروں کو بظاہر امریکی ناموں والی ویب سائٹس پر شائع کیا جاتا ہے۔ ہیوسٹن پوسٹ، شکاگو کریئر، بوسٹن ٹائمز، ڈی سی ویکلی نامی چند ویب سائٹس ہیں۔ان میں سے کچھ ویب سائٹس کو مستند دکھانے کے لیے پرانے اخبارات کے نام استعمال کیے جاتے ہیں جو سالوں پہلے بند ہو چکے ہیں۔،تصویر کا ذریعہChicago Chronicle

،تصویر کا کیپشناوپر دی گئی تصویر اصلی شکاگو کرونیکل کی ہے جس نے 19ویں صدی کے آخر میں اپنا عروج دیکھا نیچے دی گئی تصویر جعلی نیوز سائٹ کا لوگو ہے جو پچھلے چند مہینوں میں آن لائن پر نمودار ہوئی ہے
ان ویب سائٹس پر شائع کی جانے والی زیادہ تر کہانیاں سراسر جعلی نہیں ہیں بلکہ وہ دوسری سائٹوں پر موجود حقیقی خبروں پر مبنی ہوتی ہیں جن کو بظاہر مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر کے ذریعے دوبارہ لکھا جاتا ہے۔کچھ خبروں میں مصنوعی ذہانت کے سوفٹ ویئر کو دی جانے والی ہدایات نظر آتی ہیں جیسے: ’براہ کرم اس مضمون کو قدامت پسندانہ موقف اختیار کرتے ہوئے دوبارہ لکھیں۔‘
،تصویر کا کیپشنمصنوعی ذہانت کے پروگرام کو دی گئی ہدایات کی ایک مثال جو جعلی خبروں کی سائٹس میں سے ایک پر غلطی سے رہ گئی تھی
ان خبروں کو سینکڑوں جعلی صحافیوں سے منسوب کیا جاتا ہے جن کے لیے اکثر انٹرنیٹ سے لی گئی تصاویر کو بطور پروفائل تصویر استعمال کیا جاتا ہے۔ڈی سی ویکلی نامی ایسی ہی ایک جعلی خبروں کی ویب سائٹ پر متعدد خبروں کے ساتھ مشہور مصنف جوڈی بٹالین کی تصویر لگِی ہوئی ہے اور ان کا نام ’جیسکا ڈیولن‘ لکھا ہوا ہے۔بٹالین نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس ویب سائٹ پر اپنی تصویر دیکھ کر الجھن کا شکار ہو گئیں۔ ’میں اب تک واقعی یہ نہیں سمجھ سکی کہ اس ویب سائٹ پر میری تصویر کیا کر رہی تھی۔‘بٹالین کے خیال میں شاید ان کی تصویر کو ان کی لنکڈ ان پروفائل سے اٹھایا گیا ہے۔’میرا اس ویب سائٹ سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اس چیز نے مجھے اس متعلق مزید باشعور بنا دیا کہ کوئی بھی آپ کی آن لائن موجود تصویر استعمال کر سکتا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہJudy Batalion
،تصویر کا کیپشنڈی سی ویکلی نامی ایسی ہی ایک جعلی خبروں کی ویب سائٹ پر متعدد خبروں کے ساتھ مشہور مصنف جوڈی بٹالین کی تصویر لگِی ہوئی ہے اور ان کا نام ’جیسکا ڈیولن‘ لکھا ہوا ہے
ہر ہفتے ہزاروں کے تعداد میں خبروں کی اشاعت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے تیار کردہ مواد پوسٹ کرنے کا عمل خودکار ہے۔اس سے کئی افراد کو یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ویب سائٹس سیاست اور سماجی مسائل کے بارے میں مستند ذرائع ہیں۔تاہم، ان تمام مواد کا اصل مقصد ایسی جعلی خبروں کی تشہیر ہے جن کا ہدف امریکی سامعین ہیں۔ان خبروں میں اکثر امریکی اور یوکرینی سیاسی مسائل کا ملاپ دکھائی دیتا ہے۔مثال کے طور پر ایک خبر میں نے دعویٰ کیا گیا کہ یوکرینی پروپیگنڈہ تنظیم کی ایک کارکن کو یہ جان کر پریشانی ہوئی کہ انھیں ڈونلڈ ٹرمپ کو نیچا دکھانے اور صدر بائیڈن کو تقویت دینے کا کام سونپا گیا تھا۔ایک اور رپورٹ میں یوکرین کی خاتون اول کا نیویارک میں شاپنگ ٹرپ گھڑا گیا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے زیورات کی دکان پر عملے کے خلاف نسل پرستانہ رویہ روا رکھا۔بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ دونوں جھوٹی خبروں کو پھیلانے کے لیے جعلی دستاویزات اور جعلی یوٹیوب ویڈیوز استعمال کی گئیں تھی۔کلیمنٹ برائنز سائبرسکیوریٹی کمپنی ریکارڈڈ فیوچر کے سینئر تھریٹ انٹیلی جنس تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ جعلی خبریں بہت مقبول ہوتی ہیں اور سوشل میڈیا پر بہت شیئر کی جاتی ہیں۔ان کی کمپنی کے مطابق اس آپریشن کے تحت مئی میں صرف تین دنوں کے دوران 120 ویب سائٹس کو رجسٹر کیا گیا تھا۔ وہ اس آپریشن کو کاپی کوپ (CopyCop) کا نام دیتے ہیں اور یہ نیٹ ورک روس سے چلائے جانے والے متعدد ڈس انفارمیشن آپریشنز میں سے ایک ہے۔مائیکروسافٹ، کلیمسن یونیورسٹی، اور نیوز گارڈ جیسی تنطیموں سے تعلق رکھنے والے ماہرین ان نیٹ ورکس کا سراغ لگا رہے ہیں۔نیوز گارڈ غلط معلومات پھیلانے والی ویب سائٹس کو ٹریک کرتی ہے۔ ان کے مطابق اس آپریشن سے کم از کم 170 ویب سائٹس منسلک ہیں۔نیوز گارڈز کے اے آئی اور غیر ملکی اثر و رسوخ کے ایڈیٹر میککینزی سدیگھی کہتے ہیں کہ ابتدائی طور پر یہ ایک چھوٹا سا آپریشن لگا۔’جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ایسا لگنے لگا اس کا حجم اور پہنچ بھی نمایاں طور پر بڑھتی دکھائی دی۔ روس میں لوگ باقاعدگی سے ان بیانیوں کا حوالہ دیتے اور ان کو فروغ دیتے ہیں۔ اس کام کے لیے سرکاری ٹی وی، کریملن حکام اور دیگر اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کا استعمال کیا جاتا۔وہ کہتی ہیں کہ ’اس نیٹ ورک سے تقریباً ہر دو ہفتے میں ایک نیا بیانیہ شروع کیا جاتا ہے۔‘

جھوٹ کو سچ کیسے بنایا جاتا ہے؟

ان جعلی کہانیوں کو قابلِ یقین بنانے کے لیے یوٹیوب ویڈیوز بنائی جاتی ہیں جن میں اکثر ایسے لوگوں کو دکھایا جاتا ہے جو ’راز افشاں‘ کر رہے ہوتے ہیں یا جو اپنے آپ کو بطور ’آزاد صحافی‘ شناخت کرواتے ہیں۔کچھ ویڈیوز میں اداکاروں کی آوازوں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ویڈیوز میں اے آئی سے تیار کردہ آوازیں استعمال کی جاتی ہیں۔کئی ویڈیوز ایک جیسے دکھنے والے پسِ منظر میں فلمائے جاتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان جعلی خبروں کو پھیلانے کے لیے مربوط کوششیں کی جاتی ہیں۔ان ویڈیوز کو وائرل کرنے کی غرض سے نہیں بنایا جاتا بلکہ ان کو بطور ’ذرائع‘ استعمال کیا جاتا ہے اور جعلی اخباری ویب سائٹس پر شائع ہونے والی خبروں میں ان ویڈیوز کا حوالہ دیا جاتا ہے۔،تصویر کا ذریعہYouTubeمثال کے طور پر، مبینہ طور پر ٹرمپ کی انتخابی مہم کو نشانہ بنانے والے یوکرینی انفارمیشن آپریشن کے بارے میں شائع کی گئی خبر میں ایک یوٹیوب ویڈیو کا حوالہ دیا گیا۔ اس ویڈیو میں کیئو کے ایک دفتر کے مناظر دِکھانے کی کوشش کی گئی جہاں دیواروں پر جعلی مہم کے پوسٹر نظر آ رہے تھے۔اس کے بعد ان خبروں کے لنکس ٹیلی گرام چینلز اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کیے جاتے ہیں۔بالآخر، یہ سنسنی خیز خبریں اکثر محب وطن روسیوں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے درمیان پہلے سے مقبول موضوعات کو دہراتے ہیں اور اس طرح یہ مغرب تک پہنچ جاتے ہیں۔ان میں سے کچھ خبریں تو کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ڈی سی ویکلی پر شائع ہونے والی ایک خبر جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یوکرینی حکام نے امریکی فوجی امداد سے کشتیاں خریدی ہیں اس حد تک پھیلی کی اسے امریکی کانگریس کے کئی اراکین نے بھی شیئر کیا جن میں سینیٹر جے ڈی ونس اور کانگریس کی رکن مارجری ٹیلر گرین بھی شامل ہیں۔جے ڈی ونس کا شمار ان مٹھی بھر سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنھیں ڈونلڈ ٹرمپ کے ممکنہ نائب صدر کے امیدواروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

سابق امریکی پولیس افسر کا کردار

اس آپریشن میں شامل کلیدی کرداروں میں سے ایک جون مارک ڈوگن ہیں۔ ڈوگن ایک سابق امریکی فوجی ہیں جنھوں نے 2000 کی دہائی میں بطور پولیس افسر مین اور فلوریڈا میں کام کیا ہے۔بعد ازاں ڈوگن نے ایک ویب سائٹ بنائی جس کا مقصد پالم بیچ سیرف کاؤنٹی کے مواد جمع کرنا تھا۔ڈوگن کی ویب سائٹ پر جھوٹی خبروں کے علاوہ مستند انفارمیشن بھی شائع کی جس میں پولیس افسران کے گھروں کے پتے شامل تھے۔سال 2016 میں ڈوگن کے گھر پر ایف بی آئی کا چھاپہ پڑا جس کے بعد وہ ماسکو منتقل ہو گئے۔اس کے بعد سے انھوں نے کتابیں لکھی ہیں، یوکرین کے مقبوضہ حصوں سے رپورٹنگ کی ہے اور روسی تھنک ٹینک پینلز، فوجی تقریبات اور روس کی وزارت دفاع کے زیر ملکیت ٹی وی سٹیشن پر شرکت کرتے رہے ہیں۔بی بی سی کے ساتھ ٹیکسٹ میسج پر بات کرتے ہوے ڈوگن کا کہنا تھا کہ اُن کا اِن ویب سائٹس سے کوئی تعلق نہیں۔ منگل کے روز انھوں نے بگاٹی سپورٹس کار سے متعلق خبر سے بھی لا علمی کا اظہار کیا ہے۔لیکن دوسرے مواقع پر انھوں نے جھوٹی خبریں پھیلانے کی اپنی مہارت کے بارے میں بات کی ہے۔ ایک موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ یہ سب امریکی انتظامیہ سے بدلہ لینے کے لیے کر رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہX (TWITTER)

،تصویر کا کیپشنڈوگن اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پر یوکرین کے اپنے دوروں کے بارے میں شیئر کرتے آئے ہیں

’میرے لیے یہ سب ایک کھیل اور انتقام ہے‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے لیے یہ سب ایک کھیل اور انتقام ہے۔‘ ایک اور موقع پر ڈوگن کا کہنا تھا کہ ان کے یوٹیوب چینل کو ان کی یوکرین سے رپورٹنگ کے دوران غلط معلومات پھیلانے پر کئی ’سٹرائیک‘ پڑ چکے ہیں۔’اگر وہ اس کو ’مس انفارمیشن‘ کہتے ہیں تو چلیں اس کو صحیح سے کرتے ہیں۔‘ڈیجیٹل شواہد سابق پولیس افسر اور روس میں قائم ویب سائٹس کے درمیان تعلق کو ثابت کرتے ہیں۔بی بی سی اور ماہرین جن سے ہم نے مشورہ کیا وہ ڈوگن کی طرف سے چلائی جانے والی ویب سائٹس پر آئی پی ایڈریس اور دیگر ڈیجیٹل معلومات کو ان سے جوڑنے میں کامیب رہے ہیں۔ایک موقع پر ڈی سی ویکلی سائٹ پر نیویارک ٹائمز کے ایک تحریر کے جواب میں شائع ہونے والی خبر میں ڈوگن کا تذکرہ ہے۔ اس خبر کو ’ایک امریکی شہری اور ان سائٹس کے مالک‘ سے منسوب کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا: ’میں اس کا مالک ہوں، ایک امریکی شہری اور سابقہ فوجی جو امریکہ میں پیدا ہوا اور پلا بھرا۔‘مضمون کے آخر میں ڈوگن کے ای میل ایڈریس لکھا ہوا ہے۔پچھلی مرتبہ بی بی سی پر ڈوگن کے خلاف خبر چلنے کے بعد ایک جعلی بی بی سی کی ویب سائٹ منظرِ عام پر آئی۔ ڈیجیٹل شواہد کے مطابق یہ ویب سائٹ ڈوگن کے نیٹ ورک سے منسلک تھی۔یہ تو کافی حد تک واضح ہے کہ ڈوگن وہ واحد شخص نہیں جو اس سارے آپریشن کے پیچھے ہیں۔ تاہم اب تک اس بارے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کی فنڈنگ کون کر رہا ہے۔ڈیرن لِن وِل کلیمسن یونیورسٹی کی میڈیا فرانسک لیب کے شریک ڈائریکٹر ہیں اور اس نیٹ ورک پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق اس سارے معاملے میں ڈوگن کے کردار کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ڈیرن لِن وِل کہتے ہیں کہ ایسا عین ممکن ہے کہ اس پورے کھیل میں ڈوگن محض ایک پیادہ ہو جسے شاید اس لیے رکھا گیا ہو کیونکہ وہ امریکی ہے۔روسی سرکاری میڈیا اور تھنک ٹینک پر آنے کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ انھیں ’روسی حکومت کی جانب سے ایک روپیہ نہیں دیا گیا ہے۔‘

امریکی انتخابات نشانے پر

ڈوگن جس آپریشن میں شامل ہیں وہ اب یوکرین کے جنگ کی کہانیوں کے بجائے امریکی اور برطانوی سیاست پر متوجہ ہے۔ایف بی آئی کی جانب سے ٹرمپ کے ریزورٹ کی مبینہ وائر ٹیپ کی جھوٹی خبر اس نیٹ ورک کی طرف سے تیار کردہ ان پہلے مضامین میں سے ایک تھی جو مکمل طور پر امریکی سیاست کے بارے میں تھی اور اس میں یوکرین یا روس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔مائیکروسافٹ کے ڈیجیٹل تھریٹ اینالیسس سنٹر کی قیادت کرنے والے کلنٹ واٹس کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن کے تحت اکثر یوکرین اور مغرب کے مسائل کو جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔واٹس کا کہنا ہے کہ جتنی تیزی اور مہارت سے یہ خبریں پھیلائی جا رہی ہیں اس سے نومبر کے الیکشن میں مسئلے پیدا ہو سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہر جھوٹی خبر اتنی زیادہ نہیں پھیلتی لیکن اگر ہر ہفتے متعدد اس طرح کی خبریں شائع ہوتی ہیں تو اس کے جھوٹے بیانیے کو تقویت ملے گی۔واٹس کہتے ہیں کہ ’ان سب کا کافی اثر پڑ سکتا ہے اور اس نیٹ ورک کی جانب سے شیئر کی جانے والی خبریں کافی تیزی سے پھیلتی ہیں۔‘نینا جانکووِچ امریکن سن لائٹ پروجیکٹ کی سربراہ ہیں۔ یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم جو غلط معلومات کے پھیلاؤ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔’وہ وقت گیا جب روس روبلز میں اشتہارات خرید رہا تھا یا سینٹ پیٹرزبرگ میں بیٹھے ٹرول کام کرتے تھے۔‘جنکووِچ مختصرعرصے کے لیے قائم امریکی ڈس انفارمیشن گورننس بورڈ کی ڈائریکٹر رہ چکی ہیں۔ یہ بورڈ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کی تحت قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد غلط معلومات کے پھیلاؤ کو رکنا تھا۔وہ کہتی ہیں کہ ’اب بڑے پیمانے پر انفارمیشن لانڈرنگ دیکھنے میں آرہی ہے۔‘انفارمیشن لانڈرنگ سے مراد جعلی یا گمراہ کن خبروں کو ری سائیکل کر کے انھیں مین سٹریم میڈیا میں شامل کیا جائے تاکہ ان کے اصل ذرائع کو چھپایا جا سکے۔

اب آگے کیا ہو گا؟

،تصویر کا ذریعہYOUTUBE

،تصویر کا کیپشنیوٹیوب پر اپلوڈ کی گئی ایک ویڈیو میں دعویٰ کیگیا تھا کہ یوکرینی صدر زیلنسکی نے کنگ چارلس دو کروڑ پاؤنڈز میں ایک حویلی خریدی تھی
مائیکرو سافٹ کے محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جمعرات کے عام انتخابات اور پیرس اولمپکس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ آپریشن اب برطانیہ کی سیاست کے بارے میں کہانیاں پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ایسی ہی ایک جھوٹی خبر لندن کریئر نامی ویب سائٹ پر شائع ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کنگ چارلس سے ایک حویلی سستے داموں خریدی ہے۔اب اس خبر کو ایکس (ٹوئٹر) پر لاکھوں افراد پڑھ چکے ہیں اور ایک روسی سفارتخانے کے اکاؤنٹ نے اس خبر کو بھی شیئر کیا ہے۔تاہم بی بی سی ویریفائی کی جانب سے نشاندہی کیے جانے کے بعد یوٹیوب نے وہ ویڈیو ہٹا دی ہے جسے اس جھوٹی کہانی کے ماخذ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔جب ڈوگن سے پوچھا گیا کہ آیا ان کی سرگرمیوں پر بڑھتی ہوئی توجہ کے بعد ان کی جھوٹی کہانیوں کے پھیلاؤ میں کمی آئے گی تو انھوں اس سے بھی بڑے منصوبوں کی طرف اشارہ کر دیا۔’فکر نہ کرو، کھیل تو اب بڑھے گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}