- مصنف, پال مایرز، اولگا رابنسن، شایان سردارزادہ اور مائیک وینڈلنگ
- عہدہ, بی بی سی نیوز، بی بی سی ویریفائی
- ایک گھنٹہ قبل
بی بی سی کی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ روس میں قائم ویب سائٹس کا ایک نیٹ ورک امریکی اخبارات کا روپ دھار کر مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کا استعمال کرتے ہوئے جعلی خبریں شائع کر رہا ہے جن کا مقصد امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونا ہے۔اس آپریشن کے پیچھے موجود افراد میں سے ایک سابق امریکی پولیس افسر ہیں جو فلوریڈا سے ماسکو منتقل ہو گئے تھے۔ایک غیر معروف فرانسیسی ویب سائٹ پر کچھ روز قبل شائع ہونے والی ایک خبر میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یوکرین کی خاتونِ اول اولینا زیلنسکا نے جون میں ڈی ڈے کی تقریبات کے لیے پیرس کے دورے کے دوران مبینہ طور پر 48 لاکھ ڈالرز (ایک ارب 33 کروڑ روپے) کی ایک نایاب بگاٹی ٹوربلون سپورٹس کار خریدی۔اس خبر میں کہا گیا کہ اس لگژری کار کی خریداری کے لیے امریکی فوجی امداد کی رقم استعمال کی گئی۔
یہ بہت بڑی خبر ہو سکتی تھی اگر یہ سچ ہوتی مگر جلد ہی اس خبر کی ہر جانب سے تردید سامنے آ گئی۔ماہرین نے اس خبر کے ساتھ گاڑی کی حریداری کی آن لائن پوسٹ کی گئی رسید میں کئی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی۔ خبر میں راز افشاں کرنے والے جس شخص کا ذکر کیا گیا تھا ان کی صرف ایک ویڈیو سامنے آئی جو کہ شاید مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے تخلیق کی گئی تھی۔بگاٹی کمپنی نے بھی اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے ’جعلی خبر‘ قرار دیا جب کہ کمپنی کی پیرس میں موجود ڈیلرشپ نے اس خبر کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی بھی دھمکی دی۔لیکن اس سب کے باوجود یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور کئی بااثر افراد نے بھی اس خبر کو شیئر کیا۔روس نواز اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی کارکن جیکسن ہنکل نے اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اس خبر کا ایک لنک پوسٹ کیا جسے 65 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دیکھا۔کئی دوسرے ایکس اکاؤنٹس نے اس خبر کو مزید آگے بڑھایا اور سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ خبر کم از کم ایک کروڑ 20 لاکھ افراد تک پہنچی۔یہ ایک جعلی نیوز ویب سائٹ پر لگائی گئی جھوٹی خبر تھی جسے بڑے پیمانے پر آن لائن پر پھیلانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔اس کی ابتدا روس میں قائم ایک ڈس انفارمیشن آپریشن کی جانب سے ہوئی تھی جس کے بارے میں بی بی سی ویریفائی نے گذشتہ برس نشاندہی کی تھی۔ تب اِس آپریشن کا مقصد یوکرین کی حکومت کو کمزور بنانا تھا۔
جھوٹی خبریں کیسے پھیلائی جاتی ہیں؟
سنہ 2016 کی امریکی انتخابی مہم کے دوران ریاست حمایت یافتہ ڈس انفارمیشن مہمات اور پیسہ کمانے کی غرض سے پھیلائی جانے والی ’جعلی خبروں‘ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سے غلط معلومات فراہم کرنے والوں کو اپنے مواد کو پھیلانے اور اسے قابل اعتبار بنانے کے لیے زیادہ تخلیقی ہونا پڑ رہا ہے۔بی بی سی ویریفائی کی حالیہ تحقیقات میں پتا چلا ہے کہ ہزاروں جعلی خبریں تیار کرنے کے لیے مصنوع ذہانت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان خبروں کو بظاہر امریکی ناموں والی ویب سائٹس پر شائع کیا جاتا ہے۔ ہیوسٹن پوسٹ، شکاگو کریئر، بوسٹن ٹائمز، ڈی سی ویکلی نامی چند ویب سائٹس ہیں۔ان میں سے کچھ ویب سائٹس کو مستند دکھانے کے لیے پرانے اخبارات کے نام استعمال کیے جاتے ہیں جو سالوں پہلے بند ہو چکے ہیں۔،تصویر کا ذریعہChicago Chronicle
جھوٹ کو سچ کیسے بنایا جاتا ہے؟
ان جعلی کہانیوں کو قابلِ یقین بنانے کے لیے یوٹیوب ویڈیوز بنائی جاتی ہیں جن میں اکثر ایسے لوگوں کو دکھایا جاتا ہے جو ’راز افشاں‘ کر رہے ہوتے ہیں یا جو اپنے آپ کو بطور ’آزاد صحافی‘ شناخت کرواتے ہیں۔کچھ ویڈیوز میں اداکاروں کی آوازوں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ویڈیوز میں اے آئی سے تیار کردہ آوازیں استعمال کی جاتی ہیں۔کئی ویڈیوز ایک جیسے دکھنے والے پسِ منظر میں فلمائے جاتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان جعلی خبروں کو پھیلانے کے لیے مربوط کوششیں کی جاتی ہیں۔ان ویڈیوز کو وائرل کرنے کی غرض سے نہیں بنایا جاتا بلکہ ان کو بطور ’ذرائع‘ استعمال کیا جاتا ہے اور جعلی اخباری ویب سائٹس پر شائع ہونے والی خبروں میں ان ویڈیوز کا حوالہ دیا جاتا ہے۔،تصویر کا ذریعہYouTubeمثال کے طور پر، مبینہ طور پر ٹرمپ کی انتخابی مہم کو نشانہ بنانے والے یوکرینی انفارمیشن آپریشن کے بارے میں شائع کی گئی خبر میں ایک یوٹیوب ویڈیو کا حوالہ دیا گیا۔ اس ویڈیو میں کیئو کے ایک دفتر کے مناظر دِکھانے کی کوشش کی گئی جہاں دیواروں پر جعلی مہم کے پوسٹر نظر آ رہے تھے۔اس کے بعد ان خبروں کے لنکس ٹیلی گرام چینلز اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کیے جاتے ہیں۔بالآخر، یہ سنسنی خیز خبریں اکثر محب وطن روسیوں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے درمیان پہلے سے مقبول موضوعات کو دہراتے ہیں اور اس طرح یہ مغرب تک پہنچ جاتے ہیں۔ان میں سے کچھ خبریں تو کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ڈی سی ویکلی پر شائع ہونے والی ایک خبر جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یوکرینی حکام نے امریکی فوجی امداد سے کشتیاں خریدی ہیں اس حد تک پھیلی کی اسے امریکی کانگریس کے کئی اراکین نے بھی شیئر کیا جن میں سینیٹر جے ڈی ونس اور کانگریس کی رکن مارجری ٹیلر گرین بھی شامل ہیں۔جے ڈی ونس کا شمار ان مٹھی بھر سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنھیں ڈونلڈ ٹرمپ کے ممکنہ نائب صدر کے امیدواروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
سابق امریکی پولیس افسر کا کردار
اس آپریشن میں شامل کلیدی کرداروں میں سے ایک جون مارک ڈوگن ہیں۔ ڈوگن ایک سابق امریکی فوجی ہیں جنھوں نے 2000 کی دہائی میں بطور پولیس افسر مین اور فلوریڈا میں کام کیا ہے۔بعد ازاں ڈوگن نے ایک ویب سائٹ بنائی جس کا مقصد پالم بیچ سیرف کاؤنٹی کے مواد جمع کرنا تھا۔ڈوگن کی ویب سائٹ پر جھوٹی خبروں کے علاوہ مستند انفارمیشن بھی شائع کی جس میں پولیس افسران کے گھروں کے پتے شامل تھے۔سال 2016 میں ڈوگن کے گھر پر ایف بی آئی کا چھاپہ پڑا جس کے بعد وہ ماسکو منتقل ہو گئے۔اس کے بعد سے انھوں نے کتابیں لکھی ہیں، یوکرین کے مقبوضہ حصوں سے رپورٹنگ کی ہے اور روسی تھنک ٹینک پینلز، فوجی تقریبات اور روس کی وزارت دفاع کے زیر ملکیت ٹی وی سٹیشن پر شرکت کرتے رہے ہیں۔بی بی سی کے ساتھ ٹیکسٹ میسج پر بات کرتے ہوے ڈوگن کا کہنا تھا کہ اُن کا اِن ویب سائٹس سے کوئی تعلق نہیں۔ منگل کے روز انھوں نے بگاٹی سپورٹس کار سے متعلق خبر سے بھی لا علمی کا اظہار کیا ہے۔لیکن دوسرے مواقع پر انھوں نے جھوٹی خبریں پھیلانے کی اپنی مہارت کے بارے میں بات کی ہے۔ ایک موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ یہ سب امریکی انتظامیہ سے بدلہ لینے کے لیے کر رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہX (TWITTER)
’میرے لیے یہ سب ایک کھیل اور انتقام ہے‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے لیے یہ سب ایک کھیل اور انتقام ہے۔‘ ایک اور موقع پر ڈوگن کا کہنا تھا کہ ان کے یوٹیوب چینل کو ان کی یوکرین سے رپورٹنگ کے دوران غلط معلومات پھیلانے پر کئی ’سٹرائیک‘ پڑ چکے ہیں۔’اگر وہ اس کو ’مس انفارمیشن‘ کہتے ہیں تو چلیں اس کو صحیح سے کرتے ہیں۔‘ڈیجیٹل شواہد سابق پولیس افسر اور روس میں قائم ویب سائٹس کے درمیان تعلق کو ثابت کرتے ہیں۔بی بی سی اور ماہرین جن سے ہم نے مشورہ کیا وہ ڈوگن کی طرف سے چلائی جانے والی ویب سائٹس پر آئی پی ایڈریس اور دیگر ڈیجیٹل معلومات کو ان سے جوڑنے میں کامیب رہے ہیں۔ایک موقع پر ڈی سی ویکلی سائٹ پر نیویارک ٹائمز کے ایک تحریر کے جواب میں شائع ہونے والی خبر میں ڈوگن کا تذکرہ ہے۔ اس خبر کو ’ایک امریکی شہری اور ان سائٹس کے مالک‘ سے منسوب کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا: ’میں اس کا مالک ہوں، ایک امریکی شہری اور سابقہ فوجی جو امریکہ میں پیدا ہوا اور پلا بھرا۔‘مضمون کے آخر میں ڈوگن کے ای میل ایڈریس لکھا ہوا ہے۔پچھلی مرتبہ بی بی سی پر ڈوگن کے خلاف خبر چلنے کے بعد ایک جعلی بی بی سی کی ویب سائٹ منظرِ عام پر آئی۔ ڈیجیٹل شواہد کے مطابق یہ ویب سائٹ ڈوگن کے نیٹ ورک سے منسلک تھی۔یہ تو کافی حد تک واضح ہے کہ ڈوگن وہ واحد شخص نہیں جو اس سارے آپریشن کے پیچھے ہیں۔ تاہم اب تک اس بارے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کی فنڈنگ کون کر رہا ہے۔ڈیرن لِن وِل کلیمسن یونیورسٹی کی میڈیا فرانسک لیب کے شریک ڈائریکٹر ہیں اور اس نیٹ ورک پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق اس سارے معاملے میں ڈوگن کے کردار کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ڈیرن لِن وِل کہتے ہیں کہ ایسا عین ممکن ہے کہ اس پورے کھیل میں ڈوگن محض ایک پیادہ ہو جسے شاید اس لیے رکھا گیا ہو کیونکہ وہ امریکی ہے۔روسی سرکاری میڈیا اور تھنک ٹینک پر آنے کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ انھیں ’روسی حکومت کی جانب سے ایک روپیہ نہیں دیا گیا ہے۔‘
امریکی انتخابات نشانے پر
ڈوگن جس آپریشن میں شامل ہیں وہ اب یوکرین کے جنگ کی کہانیوں کے بجائے امریکی اور برطانوی سیاست پر متوجہ ہے۔ایف بی آئی کی جانب سے ٹرمپ کے ریزورٹ کی مبینہ وائر ٹیپ کی جھوٹی خبر اس نیٹ ورک کی طرف سے تیار کردہ ان پہلے مضامین میں سے ایک تھی جو مکمل طور پر امریکی سیاست کے بارے میں تھی اور اس میں یوکرین یا روس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔مائیکروسافٹ کے ڈیجیٹل تھریٹ اینالیسس سنٹر کی قیادت کرنے والے کلنٹ واٹس کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن کے تحت اکثر یوکرین اور مغرب کے مسائل کو جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔واٹس کا کہنا ہے کہ جتنی تیزی اور مہارت سے یہ خبریں پھیلائی جا رہی ہیں اس سے نومبر کے الیکشن میں مسئلے پیدا ہو سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہر جھوٹی خبر اتنی زیادہ نہیں پھیلتی لیکن اگر ہر ہفتے متعدد اس طرح کی خبریں شائع ہوتی ہیں تو اس کے جھوٹے بیانیے کو تقویت ملے گی۔واٹس کہتے ہیں کہ ’ان سب کا کافی اثر پڑ سکتا ہے اور اس نیٹ ورک کی جانب سے شیئر کی جانے والی خبریں کافی تیزی سے پھیلتی ہیں۔‘نینا جانکووِچ امریکن سن لائٹ پروجیکٹ کی سربراہ ہیں۔ یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم جو غلط معلومات کے پھیلاؤ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔’وہ وقت گیا جب روس روبلز میں اشتہارات خرید رہا تھا یا سینٹ پیٹرزبرگ میں بیٹھے ٹرول کام کرتے تھے۔‘جنکووِچ مختصرعرصے کے لیے قائم امریکی ڈس انفارمیشن گورننس بورڈ کی ڈائریکٹر رہ چکی ہیں۔ یہ بورڈ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کی تحت قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد غلط معلومات کے پھیلاؤ کو رکنا تھا۔وہ کہتی ہیں کہ ’اب بڑے پیمانے پر انفارمیشن لانڈرنگ دیکھنے میں آرہی ہے۔‘انفارمیشن لانڈرنگ سے مراد جعلی یا گمراہ کن خبروں کو ری سائیکل کر کے انھیں مین سٹریم میڈیا میں شامل کیا جائے تاکہ ان کے اصل ذرائع کو چھپایا جا سکے۔
اب آگے کیا ہو گا؟
،تصویر کا ذریعہYOUTUBE
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.