بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین، روس بحران میں اسلامی ممالک کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟

یوکرین، روس بحران میں اسلامی ممالک کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یوکرین کی لگ بھگ ساڑھے چار کروڑ آبادی کا فقط ایک سے دو فیصد مسلمان ہیں۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت مسیحی ہے۔

روس نے جمعرات کی صبح مشرقی یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا ہے اور روس کے اس اقدام پر مغربی ممالک ناراض ہیں اور اب تک کئی پابندیوں کا اعلان کر چکے ہیں۔

جاپان اور آسٹریلیا بھی ’روسی جارحیت‘ کے خلاف مغربی ممالک کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ بہت سے دیگر ممالک اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے متوازن بیانات دے رہے ہیں۔

آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ یوکرین کے تنازع میں بڑے اسلامی ممالک یا مسلم اکثریتی ممالک اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔

پاکستان

عمران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان دنیا کا واحد ایٹمی طاقت کا حامل اسلامی ملک ہے۔ سرد جنگ کے دوران پاکستان امریکی کیمپ میں تھا لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جمعرات کی صبح جب روسی صدر پوتن نے اپنی افواج کو یوکرین پر حملے کا حکم دیا اس وقت پاکستانی وزیر اعظم عمران خان روس ہی میں موجود تھے۔

عمران خان پہلے سے طے شدہ دو روزہ دورہ پر روس میں موجود ہیں تاہم ان کے دورے کے موقع پر روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی اپنی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق عمران خان آج (جمعرات) صدر پوتن سے ملاقات کریں گے۔

سوشل میڈیا پر کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے دورے کے لیے ’غلط وقت‘ کا انتخاب کیا ہے۔ چند سیاسی اور خارجہ امور کے تجزیہ کاروں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس دورے کے لیے منتخب کردہ وقت عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دے سکتا ہے کہ یوکرین بحران میں پاکستان امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک کے اتحاد کے ساتھ نہیں، بلکہ روس کے ساتھ کھڑا ہے۔

پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے عمران خان کے دورے کے وقت سے متعلق ان تمام تر قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہاں، عالمی تناؤ ہے لیکن ہمارا دورہ دو طرفہ ہے اور یہ دورہ چین جیسا ہے۔ ہمارے دورے میں معاشی مسائل شامل ہیں۔ ہم کسی ایک کیمپ میں نہیں ہیں۔‘

سعودی عرب

पुतिन

،تصویر کا ذریعہGetty Images

23 فروری کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سعودی عرب نے روس کی مذمت کیے بغیر اس معاملے کے سفارتی حل کی بات کی تھی۔ سعودی عرب نے دونوں فریقوں سے فوجی کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی۔

یوکرین کے بحران کی وجہ سے گیس کی قیمت گذشتہ سات برسوں میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ روس اور سعودی عرب کے درمیان تجارتی شراکت داری حالیہ برسوں میں ڈرامائی طور پر بڑھی ہے۔ روس اور سعودی عرب دونوں دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک ہیں اور اس حوالے سے برآمدی فیصلوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات بھی اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ اس کا اشارہ اس ماہ بھی دیا گیا، جب امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب پر تیل کی پیداوار بڑھانے پر زور دیا۔ اگر سعودی عرب یہ کام کرتا تو اس سے نہ صرف مہنگائی اور گیس کی قیمتیں کم کرنے میں مدد ملتی بلکہ اس سے روس کا فائدہ بھی کنٹرول ہوتا۔ تاہم سعودی عرب نے اس کی تردید کی۔

کہا جاتا ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی بڑھتی ہوئی طاقت کا نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ سعودی عرب اور روس کے تعلقات مزید گہرے ہوئے ہیں۔ سنہ 2015 کے موسم گرما میں پوٹن اور ولی عہد کے درمیان پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے دونوں رہنماؤں کی کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جب بائیڈن امریکہ کے صدر بنے تو انھوں نے کہا تھا کہ وہ صرف اپنے ہم منصبوں سے ملیں گے۔ ولی عہد سعودی عرب کے وزیر دفاع ہیں اور ان سے صرف امریکی وزیر دفاع ہی ملاقات کریں گے۔

دی انٹرسیپٹ کی ایک رپورٹ میں، بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے سینیئر فیلو بروس ریڈل کہتے ہیں کہ ’پیوٹن اور سعودی عرب کے ولی عہد میں بہت کچھ مشترک ہے جیسا کہ اپنے مخالفین کو گھر کے اندر یا باہر برداشت نہ کرنا۔ دونوں پڑوسی ممالک پر حملے کرتے ہیں اور تیل کی قیمت کو ہر ممکن حد تک بلند رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سعودی ولی عہد کے لیے بہترین موقع یوکرین پر حملے کے بعد ہو گا۔ کیونکہ تیل کی قیمت ساتویں آسمان تک پہنچ جائیں گی۔‘

بہت سے لوگ سعودی عرب کے بارے میں یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ اسے یوکرین پر بولنے کا حق نہیں ہے کیونکہ یمن میں وہ حوثی باغیوں کے خلاف گذشتہ کئی برسوں سے فوجی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ بدھ کو انڈیا کے معروف نغمہ نگار جاوید اختر نے ٹویٹ کیا تھا کہ یمن میں سعودی عرب کی بمباری پر مغربی افواج خاموش کیوں ہیں؟

ترکی

اردوغان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ترکی آئینی طور پر اسلامی ملک نہیں ہے لیکن اس کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔

ترکی نیٹو کا رکن بھی ہے۔ نیٹو کا رکن ہونے کے ناطے وہ یوکرین پر روسی حملے کی تائید نہیں کر سکتا لیکن ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان جب امریکہ سے ناراض ہوتے ہیں تو پوتن کے پاس ہی جاتے ہیں۔ روس سے S-400 میزائل سسٹم لینے پر امریکا نے ترکی پر پابندیاں بھی عائد کر کی تھیں۔ بائیڈن کی آمد کے بعد سے ترکی کے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہی چل رہے ہیں۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے بدھ کے روز روسی صدر ولادیمیر پوتن سے فون پر بات کی تھی۔ ترکی کے صدر کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اس گفتگو کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔

اس گفتگو میں روس، یوکرین کشیدگی پر بھی بات چیت کی گئی۔ صدر اردوغان نے کہا کہ انھوں نے ہمیشہ روسی صدر پوتن کے ساتھ بات چیت کو اہمیت دی ہے جس کے بہت سے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں اور وہ بات چیت جاری رکھیں گے۔

ترکی نے زور دیا کہ وہ ایسے اقدامات کی حمایت نہیں کرتے جو یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اس کا موقف اصولوں پر مبنی ہے۔ اردوغان نے منسک معاہدے کے تحت مسئلے کو حل کرنے پر اصرار کیا۔

موجودہ صورتحال کو پیچیدہ قرار دیتے ہوئے اردوغان نے کہا کہ فوجی تنازع سے کسی کو فائدہ نہیں ہو گا، اس لیے ترکی سفارتی ذرائع سے حل تلاش کرنے کے حق میں ہے۔ اردوغان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی نیٹو میں بھی اپنا مثبت کردار ادا کرتا رہے گا۔ ترک صدر نے روسی صدر پوتن کو اعلیٰ سطحی تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی ہے۔

ایران

ईरान और रूस

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایران ایک شیعہ مسلم اکثریتی ملک ہے۔ ایران کے امریکہ کے ساتھ تعلقات سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے خراب ہیں۔ مگر دوسری جانب ایران کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

یوکرین کے بحران کے بارے میں، ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے منگل کے روز کہا کہ ’اسلامی جمہوریہ ایران ہر طرف سے صبر کی توقع رکھتا ہے۔ تناؤ بڑھانے والے کسی بھی قسم کے قدم سے گریز کرنا چاہیے۔ تمام فریقین اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے حل کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے امریکہ نے نیٹو کی مداخلت اور اشتعال انگیزیوں سے خطے کی صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔‘

تاہم روس کے ساتھ ایران کے تعلقات تاریخی طور پر خوشگوار نہیں رہے ہیں۔ سنہ 1943 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران اتحادی رہنماؤں سٹالن، چرچل اور فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے تہران میں ملاقات کی تھی۔ اس وقت ایران پر روس اور برطانیہ کا قبضہ تھا۔ تہران کانفرنس میں ہی اتحادیوں نے نارمنڈی پر دوسرے محاذ پر حملہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ 1941 میں روس اور برطانیہ نے غیر جانبدار ایران پر حملہ کیا تاکہ تیل کی سپلائی میں خلل نہ پڑے اور روسی سپلائی جاری رہے۔

متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے یوکرین کے مسئلے کو سفارتی بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی اپیل کی ہے۔

متحدہ عرب امارات نے یہ نہیں کہا ہے کہ روس نے یوکرین کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی سرکاری خبر رساں ایجنسی WAM کے مطابق روس اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے بدھ کو فون پر بات کی اور اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کی بات یوکرین کے بحران کے دوران ہوئی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.