یوٹیوب سٹار جنھیں قتل کرنے پر والد کو صرف تین ماہ قید کی سزا ہوئی
نوجوان، متحرک اور شوخ و چنچل یوٹیوبر طیبہ العلی اپنی زندگی کے بارے میں بنائی گئی تفریحی ویڈیوز کی وجہ سے مشہور تھیں۔
انھوں نے 2017 میں 17 سال کی عمر میں اپنے آبائی ملک عراق سے ترکی منتقل ہونے کے بعد اپنے یوٹیوب چینل کا آغاز کیا، جہاں انھوں نے اپنی آزادی، اپنے منگیتر، میک اپ اور دیگر چیزوں کے بارے میں بات کی۔
اپنی ویڈیوز میں طیبہ خوش نظر آتی تھیں اور اپنے کانٹینٹ کے باعث انھوں نے ہزاروں یوٹیوب صارفین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
رواں سال جنوری میں وہ اپنے اہلخانہ سے ملنے کے لیے ترکی سے عراق واپس گئیں جہاں اُن کے والد نے انھیں قتل کر دیا۔ تاہم اس قتل کو ’پہلے سے سوچی سمجھی‘ منصوبہ بندی نہیں سمجھا گیا تھا اور عدالت نے ان کے والد کو فقط چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔
طیبہ کی موت کے بعد عراق بھر میں نام نہاد ’غیرت کے نام پر قتل‘ سے متعلق قوانین کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے، جن میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ ایک ایسے ملک میں خواتین کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے جہاں قدامت پسند رویوں کا غلبہ ہے۔
’نیند میں گلا گھونٹ دیا گیا‘
طیبہ کے چینل پر 20,000 سے زیادہ فالوورز تھے اور ان کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد یہ تعداد مزید بڑھ گئی۔
اپنی زندگی میں روزانہ ویڈیوز پوسٹ کرتی تھیں اور ترکی میں اپنے نئے طرز زندگی سے لطف اندوز ہوتی نظر آئی تھیں۔
نومبر 2021 میں اپنی پہلی ویڈیو میں، طیبہ نے کہا کہ وہ اپنی تعلیم کے لیے وہاں گئی ہیں، لیکن بعدازاں انھوں نے وہیں رہنے کا انتخاب کیا کیونکہ اپنے ملک عراق کی نسبت وہ ترکی میں زندگی سے لطف اندوز ہوئی تھیں۔
اطلاعات کے مطابق ان کے والد طیب علی اپنی بیٹی کے ترکی منتقل ہونے کے فیصلے سے متفق نہیں تھے اور وہ اس بات پر بھی غصے میں تھے کہ ان کی بیٹی اپنے شامی نژاد منگیتر کے ساتھ استنبول میں کیوں رہتی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ طیبہ جنوری میں جب اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے عراق لوٹیں تو وہ ایک خاندانی تنازع میں ملوث ہو گئیں۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ان کے والد طیب علی نے 31 جنوری کو انھیں نیند میں گلا گھونٹ کر قتل کر دیا تھا۔ بعد میں انھوں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
جہاں طیبہ کو قتل کیا گیا تھا وہاں کی مقامی حکومت کے ایک رکن نے بتایا کہ طیبہ کے والد کو اپریل میں مختصر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
طیبہ کے قتل کے بعد عراق میں سینکڑوں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں اور ’غیرت کے نام پر قتل‘ سے متعلق قانون سازی کے خلاف احتجاج کیا۔
ہوم آفس کے تجزیے کے مطابق عراقی پینل کوڈ اشتعال انگیزی کی بنیاد پر یا اگر ملزم کا ’غیرت کے معاملے‘ پر قتل ’نیک نیتی‘ پر مبنی ہو تو جرائم میں نرم سزاؤں کی اجازت دیتا ہے۔
عراق کی وزارت داخلہ کے ترجمان جنرل سعد مان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’طیبہ العلی کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا تھا۔ قانون کے نقطہ نظر سے، یہ ایک مجرمانہ حادثہ ہے، اور دوسرے نقطہ نظر سے، یہ غیرت کے نام پر قتل کا ایک حادثہ ہے۔‘
جنرل مان نے کہا کہ عراق میں قیام کے دوران طیبہ اور ان کے والد کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی۔
انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ ان کے قتل سے ایک دن پہلے پولیس نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس قتل پر حکام کے ردعمل کے بارے میں پوچھے جانے پر جنرل مان نے کہا ’سکیورٹی فورسز نے پیشہ ورانہ مہارت کے اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ اس معاملے سے نمٹا اور قانون کا اطلاق کیا۔ انھوں نے ابتدائی اور عدالتی تحقیقات شروع کیں، تمام شواہد اکٹھے کیے اور سزا سنانے کے لیے فائل عدلیہ کو بھیج دی۔‘
’خواتین سے نفرت‘
طیبہ کے قتل اور اس کے والد کو دی جانے والی نرم سزا نے عراقی خواتین اور دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے کارکنوں میں غم و غصے کو جنم دیا کہ عراقی قانون کے تحت خواتین اور لڑکیوں کے لیے گھریلو تشدد سے تحفظ کی کمی ہے۔
مثال کے طور پر، عراق کے تعزیرات کے آرٹیکل 41 میں مخصوص حدود کے اندر ان کے اختیار کے تحت ’بیوی کو اس کے شوہر کی طرف سے سزا‘ اور ’والدین کی طرف سے بچوں کی تربیت کے لیے سختی قانونی حق سمجھا جاتا ہے۔
دریں اثنا آرٹیکل 409 میں کہا گیا ہے ’اگر کوئی شخص جو اپنی بیوی یا اپنی گرل فرینڈ کو اس کے عاشق کے ساتھ بستر پر پاتا ہے اور اسے فوری طور پر قتل کر دیتا ہے یا ان میں سے کسی ایک کو قتل کر دیتا ہے، یا ان میں سے کسی پر حملہ کرتا ہے جس کے باعث کوئی مر جائے یا مستقل طور پر معذور ہو جائے، تو اسے تین سال تک کی قید کی سزا دی جائے گی۔‘
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن ڈاکٹر لیلا حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان ہلاکتوں کی جڑیں اکثر خواتین سے نفرت اور خواتین کے جسم اور رویے کو کنٹرول کرنے کی خواہش پر مبنی ہوتی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’غیرت کے نام پر قتل کی اصطلاح کا استعمال متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی موت کے خود ذمہ دار ہیں کہ انھوں نے کچھ غلط یا شرمناک کام کر کے اسے اپنے اوپر مسلط کیا ہے۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال پانچ ہزار خواتین اور لڑکیوں کو ان کے اہلخانہ غیرت کے نام پر قتل کرتے ہیں۔
طیبہ کی موت کے بعد عراق میں خواتین اور سوشل میڈیا پر احتجاج کر رہی ہیں
’یہ بند ہونا چاہیے‘
طیبہ کی ہلاکت کے پانچ دن بعد عراقی سکیورٹی فورسز نے 20 کارکنوں کو بغداد میں سپریم جوڈیشل کونسل کے باہر مظاہرہ کرنے سے روک دیا۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’خواتین کا قتل بند کرو‘ اور ’آرٹیکل 409 ختم کرو‘ جیسے نعرے درج تھے۔
ایک عراقی کارکن اور انسانی حقوق کے محافظ روا خلف نے کہا ’عراقی قانون کو بین الاقوامی کنوینشنوں کے ساتھ بہتر اور ہم آہنگ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ طیبہ کے والد کو دی گئی سزا ’غیر منصفانہ‘ ہے اور وہ اس طرح کے کیسز کو ’خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی شقوں اور قوانین‘ کے ثبوت کے طور پر دیکھتی ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے عراقی وکیل حنان عبدالخالق نے کہا ’انھیں اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بند ہونا چاہیے. عورتوں کو قتل کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔‘
’گلا گھونٹنا، چاقو گھونپنا۔۔۔ یہ آسان ہو گیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ قانون آرٹیکل 409 کو روک دے گا، اسے منسوخ کر دے گا۔‘
سوشل میڈیا پر دیگر خواتین کارکنوں نے بھی لکھا کہ طیبہ کا قتل کوئی واحد واقعہ نہیں تھا اور بہت سے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے واقعات ہیں جنھیں رپورٹ نہیں کیا گیا۔ اس قتل نے ملک اور اس سے باہر خواتین کے تحفظ کے لیے سخت قوانین کے بارے میں بات چیت کو جنم دیا ہے۔
عراقی پارلیمنٹ میں کردستان کی پیٹریاٹک یونین کے سربراہ الا طالبانی نے کہا ’ہمارے معاشروں میں خواتین قانونی رکاوٹوں اور حکومتی اقدامات کی عدم موجودگی کی وجہ سے پسماندہ رسم و رواج کے ہاتھوں یرغمال ہیں، قوانین فی الحال گھریلو تشدد کے جرائم کے حجم سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔‘
انھوں نے ساتھی ارکانِ پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ انسداد گھریلو تشدد قانون کا مسوّدہ منظور کریں، جو واضح طور پر خاندان کے افراد کو قتل اور شدید جسمانی نقصان سمیت تشدد کی کارروائیوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
عراق میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ طیبہ کا ’گھناؤنا قتل‘ اس تشدد اور ناانصافی کی افسوسناک یاد دہانی ہے جو آج بھی عراق میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف موجود ہے۔
بیان میں عراقی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے قوانین اور پالیسیوں کی حمایت کرے، ایسے جرائم میں ملوث تمام مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔
بہت سے لوگوں کے لیے، طیبہ کی کہانی نے ایسے فرسودہ قوانین کو اجاگر کیا ہے جو دنیا بھر میں خواتین کو نقصان اور صنفی بنیاد پر تشدد سے بچانے میں ناکام رہے ہیں۔
لیکن دوسروں کے لیے طیبہ ایک اور ایسی مثال ہیں جسے اکثر چھپایا جاتا ہے اور ان سے پہلےایسے ہزاروں لوگ ہیں نھوں نے اپنی کہانی کبھی نہیں بتائی ۔
Comments are closed.