یونان میں کشتی کے حادثے میں لاپتہ پاکستانی شہریوں کی تعداد 83 ہوگئی، لاپتہ افراد میں گجرات اور گوجرانوالہ کے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
ضلع کوٹلی آزاد کشمیر کے ایک ہی گھر کے 4 نوجوانوں سمیت 21 افراد بھی اب تک لاپتہ ہیں، گجرات میں کشتی حادثے کے شکار معاذ صدیق کے اہلخانہ نے نوجوان کےایصال ثواب کیلئے دُعا کروادی۔
30 سالہ معاذ صدیق یکم مئی کو گھر سے نکلا اور ایجنٹ اسے براستہ دوبئی لیبیا لے کرگیا تھا، لیکن معاذ کی یورپ جانے کی خواہش سمندر میں ہی غرق ہوگئی۔
گجرات کےرہائشی معاذ کا یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے اپنے پیارے کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے دعائے مغفرت کروائی، جس میں علاقہ کےلوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
ان کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ حکومت ایجنٹ مافیا کو لگام ڈالے اور ملک میں روزگار کے موقع پیدا کرے تاکہ ماؤں کے بچے جان ہتھیلی پر رکھ کر یوں گھروں سے نہ جائیں۔
اہلخانہ نے مزید کہا کہ ہمارے علاقے کے 20 کے قریب نوجوان اس حادثے کا شکار ہو چکے اگر حکومت اور ایف آئی اے ایجنٹ مافیا کے خلاف پہلے اقدامات اٹھا لیتی تو شاید یہ قیمتی جانیں بچ جاتیں۔
یونان کشتی حادثے پر ایف آئی اے نے گجرات تھانے میں 3 اور گوجرانوالہ میں ایک مقدمہ درج کیا ہے۔ ایک مقدمہ حادثے میں زندہ بچ جانے والے گجرات کے رہائشی عظمت کے بھائی نے درج کروایا ہے۔
ایف آئی اے کے مقدمات میں 12 انسانی اسمگلرز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے، جن میں آصف سنیارہ، ساجد وڑائچ، ریاست، رانا نقاش اور عظمت علی اور احسن شیراز کے نام شامل ہیں۔
5 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کر لیا گیاہے، جبکہ گوجرانوالہ کے علاقہ کڑیال کلاں میں واقع اسمگلر ندیم کے گھر پر تالے لگے ہوئے ہیں، لاپتہ افراد کے اہلخانہ کاکہنا ہے کہ ندیم اب تک 100 سے زائد افراد کو انھی راستوں سے یورپ بھجوا چکا ہے۔
ضلع کوٹلی میں ضلعی انتظامیہ کےمطابق 21 نوجوان لاپتہ ہیں جبکہ مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد 40 سے زائد ہے، جن میں ایک ہی خاندان کے 4 نوجوان بھی شامل ہیں۔
بوٹ میں ذلت آمیز رویے کا انکشاف
برطانوی میڈیا نے یونان میں حادثے کا شکار ہونے والی تارکین وطن کی کشتی میں چار سو پاکستانیوں کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کردیا جبکہ بچ جانے والوں نے پاکستانی شہریوں کیساتھ بوٹ میں ذلت آمیز رویے کا انکشاف کیا ہے۔
برطانوی میڈیا کی رپورٹ میں بچ جانے والے مسافر نے بتایا کہ کشتی ڈوبنے سے پہلے ہی پانی نہ ملنے کی وجہ سے اس میں موجود 6 لوگ مرچکے تھے۔ ڈوبنے سے تین روز پہلے ہی انجن فیل ہوگیا تھا، بچ جانے والوں میں کوئی بھی خاتون یا بچہ شامل نہیں ہے۔
یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے حادثے سے متعلق مسافروں نے کوسٹ گارڈز سے گفتگو کی ہے، جس میں کہا گیا کہ پاکستانی مسافروں کو کشتی کے نچلے حصے میں جانے پر مجبور کیا گیا، دوسری قومیت والوں کو کشتی کے اوپری حصے میں جانے کی اجازت تھی۔
مسافروں نے کہا کہ کشتی کے اوپری حصے کے مسافروں کے بچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، کشتی کے نچلے حصے سے پاکستانی اوپر آنا چاہتے تو ان سے بدسلوکی کی جاتی، خواتین اور بچوں کو بظاہر مردوں کی موجودگی کے سبب بند جگہ پر رکھا گیا تھا۔
Comments are closed.