یونان کشتی حادثہ:281 لاپتہ پاکستانیوں کے اہلخانہ کا حکومت سے رابطہ، رانا ثنا اللہ

boat

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یونان کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والے انہام شفاعت کی والدہ شہناز بی بی (دائیں) اور آکاش گلزار کی والدہ تسلیم بی بی (بائیں)۔ ان کا تعلق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایک گاؤں سے ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ یونان کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والے 281 پاکستانیوں کے اہلخانہ نے حکومت سے رابطہ کر لیا ہے۔

جمعے کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ کشتی میں تقریباً 350 پاکستانی موجود تھے، اور اب تک صرف 12 پاکستانیوں کی زندہ بچنے کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یونان انتظامیہ کو اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں سے 82 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن کے ڈی این اے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں اور فرانزک لیبارٹری اور نادرا کی مدد سے ان کی شناخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وفاقی وزیر قانون کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمیں جتنی زیادہ ہلاکتوں کا خدشہ ہے وہ آج تک کسی بھی حادثے یا دہشتگردی کے واقعے سے زیادہ ہے۔‘

خیال رہے کہ لیبیا سے اٹلی جانے کی خواہش مند ان تقریباً 700 افراد کی کشتی 14 جون کو یونان کے علاقے پائلوس سے قریب 50 میل دور ڈوب گئی تھی جس کے بعد سے ان کی تلاش کا کام جاری ہے۔

اس حادثے میں زندہ بچنے والے 12 پاکستانیوں کو ملاکاسا میں قائم کیمپ میں رکھا گیا تھا جن میں سے کچھ کو بدھ کو رہا کر دیا گیا۔

rana

،تصویر کا ذریعہPTV Parliament

،تصویر کا کیپشن

وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ یونان کشتی حادثے پر قومی اسمبلی کو اعتماد لیتے ہوئے۔

وفاقی وزیر قانون کے مطابق پاکستان میں حکومت سے 281 خاندانوں نے رابطہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بچے اس حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں۔

’اس حوالے سے ایک ڈیسک قائم کر دیا گیا ہے اور ان کے ڈی این اے حاصل کر لیے گئے ہیں۔ اب تک 193 ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے ہیں۔‘

رانا ثنا اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سلسلے میں ایک اعلٰی سطحی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو تین شعبوں میں کام کر رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے اور اس حوالے سے جو قانون موجود ہے تو اس میں ترمیم کی جائے تاکہ مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ان میں جتنے بھی لوگ گئے ہیں وہ تمام مصر، لیبیا اور متحدہ عرب امارات تک قانونی طریقے سے گئے ہیں، وہاں سے جاتے ہوئے یہ غیر قانونی راستے اپناتے ہیں۔ ان لڑکوں کے پاس کوئی نوکری یا کاروبار نہیں تھا، اس کے باوجود ان ممالک کی جانب سے انھیں ویزے جاری کیے گئے، اور یہ گروپ کی شکل میں وہاں گئے۔ ان ممالک سے بھی ہم یہ مدعا اٹھائیں گے۔‘

پاکستان میں انسانی سمگلروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟

خیال رہے کہ اس حادثے کے بعد پاکستان میں بھی جہاں تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں وہیں انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن بھی جاری ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے گذشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ انسانی سمگلنگ جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث ایجنٹس کے خلاف فوری کارروائی کر کے انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔

دوسری جانب ترجمان ایف آئی اے کے مطابق اب تک یونان میں پیش آنے والے کشتی کے حادثے میں تین انکوائریاں جاری ہیں جبکہ گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، منڈی بہاؤالدین، شیخوپورہ اور کوئٹہ سے انسانی سمگلنگ میں ملوث دو درجن سے زائد افراد کی گرفتاریاں عمل میں آ چکی ہیں جن میں مقدمات میں نامزد ملزمان بھی شامل ہیں۔

ایف آئی اے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں انسانی سمگلروں کے نیٹ ورک میں شامل ایجنٹوں نے ’نوجوانوں کو باہر بھجوانے کے عوض ان سے 24، 24 لاکھ تک وصول کیے گئے۔‘

ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے مخدوم قیصر بشیر نے صحافی احتشام شامی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری ترجیح انسانی سمگلروں کے نیٹ ورک کو توڑنا اور تمام بڑے اور چھوٹے ایجنٹوں کو گرفتار کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سب ایجنٹ مختلف دیہات میں جاکر نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں اور انھیں مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر اپنی چکنی چپڑی باتوں میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔

’اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان سب ایجنٹس کا کردار بھی کم نہیں ہوتا، ان کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے ایف آئی اے لاہور، گجرات، گجرانوالہ، اسلام آباد اور راولپنڈی میں ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جبکہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر انسانی سمگلرز کی جانب سے غیر قانونی طریقوں سے سرحد پار کروانے کی پیشکشوں والے مواد پر بھی سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔

گذشتہ روز پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے میرپور کے کمشنر چوہدری شوکت کا کہنا تھا کہ ’انسانی سمگلنگ میں ملوث مرکزی ایجنٹ کی معاونت کرنے والے‘ نو مقامی افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ ایف آئی اے نے مذکورہ ایجنٹ کو کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

صحافی محمد زبیر خان کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی یونان کشتی حادثے کا پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے میں 26 افراد کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ دیگر نامعلوم ملزمان شامل ہیں۔

واضح رہے کہ لیبیا سے کشتی پر سوار ہو کر بحر روم کو عبور کر کے یورپ کے ساحلوں پر پہنچنا پڑتا ہے اس لیے انسانی سمگلروں کی زبان میں اس سفر اور اس کے کرنے والے کو ’گیم‘ بلایا جاتا ہے۔

پاکستانی نوجوان یورپ کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

یونان کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والوں میں راجہ انور کے بیٹے عبدالجبار بھی شامل تھے اور گذشتہ کھ برسوں کے دوران وہ چند سالوں کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں بھی گزارے تھے لیکن وہ وہاں سے واپس آ گئے تھے۔

راجہ انور نے کہا کہ ’وہ کہتا تھا کہ وہاں کام کر کے مجھے 35 ہزار مہینے کے ملتے ہیں اور یہاں 40 ہزار مل جاتے ہیں تو میں وہاں کیوں رہوں۔‘

لیکن ان پیسوں میں عبدالجبار کا گزر مشکل ہو رہا تھا کیونکہ ان کی شادی ہو چکی تھی اور ان کے دو کمسن بچے بھی تھے۔

راجہ انور کہتے ہیں کہ عبدالجبار کے چچا نے اس سے کہا تھا کہ وہ اسے سعودی عرب بھجوا دیتے ہیں۔ ’لیکن اس نے کہا کہ میں بھی آپ کی طرح یورپ کیوں نہ جاؤں۔ آپ کی طرح بڑا گھر بناؤں گا اور میرے پاس بھی گاڑی ہو گی۔ اس نے کہا مجھے بھی یورپ بھجوائیں۔‘

راجہ محمد انور نے بتایا کہ ان کے بھتیجوں میں سے ایک پہلے بھی غیر قانونی راستے سے دو مرتبہ یورپ جانے کی کوشش کر چکا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوا تھا۔ اس لیے انھوں نے اس مرتبہ لیبیا کے راستے ’گیم‘ کرنے کا ارادہ کیا۔

لیبیا میں موجود انسانی سمگلر نے انھیں ایک مقام پر رکھا جہاں پہلے ہی سے بہت سے لوگ موجود تھے۔ ان سب کو کشتیوں کے ذریعے یورپ جانا تھا۔ گروپوں کی شکل میں ان کو کشتیوں پر بٹھایا جاتا تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ