یونان کشتی حادثہ: ’جس دن میرے بیٹے کو کشتی پر بٹھایا گیا وہ آٹھ دنوں کا بھوکا تھا‘
محمد شمریز کی والدہ صابر بیگم کو ایسا لگتا ہے کہ شاید اگر وہ پہلے چلے جاتے تو اس کشتی پر نہ ہوتے جس کو حادثہ پیش آیا
- مصنف, عمردراز ننگیانہ
- عہدہ, بی بی سی اردو، میرپور
باہر سے دیکھنے پر یہ کسی خوشحال شخص کا گھر معلوم ہوتا ہے۔ کافی کشادہ ہے اور جدید طرز پر بنا ہوا ہے لیکن اس پر رنگ و روغن ہونا باقی ہے اور صرف کچھ ہی کھڑکیاں دروازے لگے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کوئی پیسے جمع کر کے وقفے وقفے سے اس گھر کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ محمد شمریز کا گھر ہے۔ وہ اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ اسی میں رہتے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے کی عمر تین سال ہے اور چھوٹا صرف ڈیڑھ برس کا ہے۔ شمریز نے قریب ہی موجود اپنے آبائی گھر سے نکل کر کچھ ہی عرصہ قبل اس گھر کو بنانا شروع کیا تھا۔
لیکن وہ اس میں زیادہ دیر نہیں رہ پائے اور اب ان کی اہلیہ کنیز بی بی اور دو بچوں کو بھی معلوم نہیں کہ وہ اگلے سات ماہ بعد اس گھر میں رہ پائیں گے یا نہیں۔
یہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان لائن آف کنٹرول یعنی سرحد کے قریب واقع ایک گاوں بنڈلی ہے۔ پاکستان کے زیر انتطام کشمیر کے ضلع کوٹلی کے اس گاؤں سے محمد شمریز سات ماہ قبل رخت سفر باندھ کر گھر سے نکلے تھے۔ وہ یورپ جانا چاہتے تھے۔ آج سات ماہ بعد ان کی والدہ، اہلیہ اور دو کمسن بچے یہ جاننے کے لیے بے تاب ہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ پناہ گزینوں کی جس کشتی پر محمد شمریز یورپ جانے کے لیے سینکڑوں دوسرے لوگوں کے ساتھ لیبیا سے سوار ہوئے تھے اسے بحیرہ روم میں یونان کے پانیوں میں ڈوبے اب سات روز سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ اب تک جتنے لوگوں کو بچایا جا چکا ہے ان میں محمد شمریز کا نام نہیں آیا۔
شمریز کی اہلیہ کنیز بی بی کو یاد ہے سات ماہ قبل جب وہ دونوں اپنے چھوٹے بیٹے کو خون لگوانے کے لیے لے کر گئے تھے تو ’ایجنٹ‘ نے شمریز کو بتایا تھا کہ لیبیا کے لیے ان کا ٹکٹ آ گیا ہے۔ ان کے چھوٹے بیٹے کو ہیموفیلیا کی موروثی بیماری ہے۔ اسے ہر کچھ عرصے کے بعد خون کی ضرورت ہوتی ہے۔
’اس دن شمریز نے ایجنٹ کو بہت التجا کی کہ میری ٹکٹ ایک دو دن آگے کروا دے، ان کے بیٹے کو اس وقت ان کی ضرورت ہے لیکن انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، ورنہ آپ کی ٹکٹ ضائع ہو جائے گی۔ مجبوراً ان کو اسی دن نکلنا پڑا ورنہ جو پیسے لیے تھے وہ ضائع ہو جاتے۔‘
کنیز بی بی اس قرض کی طرف اشارہ کر رہی تھیں جو محمد شمریز نے انسانی سمگلر یا ’ایجنٹ‘ کو 22 لاکھ روپے کی ادائیگی کے لیے اٹھایا تھا۔ ان کی مشکل یہ تھی کہ بنڈلی میں ان کے قبیلے کا کوئی اور خاندان نہیں رہتا تھا اس لیے انھوں رشتہ داروں یا عزیز و اقارت سے قرض ملنے کی امید نہیں تھی۔
اس لیے قرض لینے کے لیے محمد شبریز کو اپنا وہ گھر گروی رکھنا پڑا جو انھوں نے کچھ ہی عرصہ قبل بنانا شروع کیا تھا۔ قرض لوٹانے کے لیے ان کے کو لگ بھگ 14 ماہ کا وقت ملا تھا۔ ان کا خیال ہو گا کہ یورپ جا کر وہ ایک سال میں یہ قرض اتار دیں گے اور ان کا گھر محفوظ ہو جائے گا۔ چودہ میں سے سات ماہ پہلے ہی گزر چکے ہیں۔
اپنے اور بچوں کے سر پر گھر کی چھت بچانے کا بوجھ اب کنیز بی بی کے کندھوں پر آن پڑا ہے لیکن ان کو نہیں معلوم کہ وہ یہ کیسے کریں گے۔ وہ کہتی ہیں انھوں نے اپنے شوہر کو سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی کہ وہ ’اس طریقے سے نہ جائیں یہ راستہ بہت خطرناک ہے۔‘
تو کس چیز نے شمریز کو گھر تک گروی رکھنے پر مجبور کیا؟
کنیز بی بی کہتی ہیں ان کے ’مالی حالات نے‘۔ شمریز جب چھوٹے تھے تو ان کے والد کی موت ہو گئی۔ ان کی والدہ نے اپنے دونوں بچوں کو بے گھر ہونے سے بچانے کے لیے ان کے تایا سے شادی کر لی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد ان کے تایا کو فالج ہو گیا اور وہ کام کاج کرنے کے قابل نہیں رہے۔
شمریز کی والدہ صابر بیگم نے خود کام کاج کر کے شمریز اور ان کے چھوٹے بھائی کو پالا۔ ان کے پاس ایک آبائی گھر موجود تھا جو اچھا بنا ہوا تھا۔ بڑے ہو کر شمریز نے کاروبار شروع کیا۔ وہ سنیار کا کام کرتے تھے جو اچھا چل رہا تھا۔ لیکن پھر ان کو بہت بڑا مالی نقصان ہوا۔
کنیز بی بی کہتی ہیں کہ ’شمریز کے ساتھ کام کرنے والا ان کا سونا لے کر بھاگ گیا۔ ایک جگہ انھوں نے کمیٹی ڈال رکھی تھی اس میں بھی ان کے ساتھ فراڈ ہو گیا۔ اب ان کے پاس پیسے بالکل نہیں تھے اور ہم تینوں کی ذمہ داری بھی ان پر تھی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ یہی وجہ تھی کہ شمریز کو اور کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔ انھوں نے انسانی سمگلروں کی مدد سے اٹلی جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے پڑوس ہی میں ایک گھر میں رہنے والے ایک ’ایجنٹ‘ سے رابطہ کیا۔ ایجنٹ نے 22 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔ ان کے معاملات طے پا گئے تو پیسوں کے لیے شمریز نے گھر گروی رکھنے کا فیصلہ کیا۔
کنیز بی بی کہتی ہیں کہ شمریز کو خود بھی یہ احساس تھا کہ یورپ جانے کا یہ غیر قانونی طریقہ کتنا خطرناک تھا اور اس میں کیا تکالیف تھیں لیکن ان کو کوئی اور راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ ان کو ایجنٹ نے بتایا تھا کہ وہ صرف 15 دن میں یورپ پہنچ جائیں گے۔ لیکن ان کو کشتی پر سوار ہونے تک سات مہینے لگ گئے۔ مگر ایسا کیوں ہوا؟
محمد شمریز کا حوصلہ اس لیے بھی بڑھ گیا کہ ان کے گاؤں سے ان کے کئی دوسرے دوست بھی جا رہے تھے۔ مقامی افراد کے مطابق بنڈلی کے لگ بھگ 28 مرد اس کشتی پر سوار تھے جس کو حادثہ پیش آیا۔
ان میں راجہ انور کے بیٹے عبدالجبار، بھائیوں کے بیٹے توقیر، ساجد یوسف، اویس طارق اور ساجد اسلم شامل تھے۔ اویس طارق کی عمر محض 19 برس تھی۔
راجہ انور کے گھر کے مالی حالات بہت خراب تھے، ان کے بیٹے عبدالجبار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے
’میرا بیٹا اب صرف یورپ ہی جانا چاہتا تھا‘
باقی بھائیوں کے مقابلے میں راجہ انور کے گھر کے مالی حالات بہت خراب تھے۔ ان کے بیٹے عبدالجبار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کی عمر 38 برس تھی۔ وہ ایک مقامی ہوٹل میں تندور پر روٹیاں لگاتے تھے۔ اس سے انھیں لگ بھگ 40 ہزار روپے مہینے کے مل جاتے تھے۔
گذشتہ کھ برسوں کے دوران وہ چند سالوں کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں بھی گزارے تھے لیکن وہ وہاں سے واپس آ گئے تھے۔
راجہ انور نے کہا کہ ’وہ کہتا تھا کہ وہاں کام کر کے مجھے 35 ہزار مہینے کے ملتے ہیں اور یہاں 40 ہزار مل جاتے ہیں تو میں وہاں کیوں رہوں۔‘
لیکن ان پیسوں میں عبدالجبار کا گزر مشکل ہو رہا تھا کیونکہ ان کی شادی ہو چکی تھی اور ان کے دو کمسن بچے بھی تھے۔
راجہ انور کہتے ہیں کہ عبدالجبار کے چچا نے اس سے کہا تھا کہ وہ اسے سعودی عرب بھجوا دیتے ہیں۔ ’لیکن اس نے کہا کہ میں بھی آپ کی طرح یورپ کیوں نہ جاؤں۔ آپ کی طرح بڑا گھر بناؤں گا اور میرے پاس بھی گاڑی ہو گی۔ اس نے کہا مجھے بھی یورپ بھجوائیں۔‘
عبدالجبار کے ساتھ باقی چار کزنز کیوں یورپ جانا چاہتے تھے؟
راجہ محمد انور نے بتایا کہ ان کے بھتیجوں میں سے ایک پہلے بھی غیر قانونی راستے سے دو مرتبہ یورپ جانے کی کوشش کر چکا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوا تھا۔ اس لیے انھوں نے اس مرتبہ لیبیا کے راستے ’گیم‘ کرنے کا ارادہ کیا۔
لیبیا سے کشتی پر سوار ہو کر بحر روم کو عبور کر کے یورپ کے ساحلوں پر پہنچنا پڑتا ہے اس لیے انسانی سمگلروں کی زبان میں اس سفر اور اس کے کرنے والے کو ’گیم‘ بلایا جاتا ہے۔
راجہ انور کہتے ہیں کہ اسی نے باقی تمام کزنز کو بھی تیار کیا کہ وہ بھی چلیں۔ ’اسی نے اپنے کسی جان پہچان والے کے ذریعے کسی ایجنٹ سے رابطہ کیا اور اسی نے پیسوں کی ادائیگیاں بھی کیں۔‘
ان پانچوں کزنز نے مل کر مجموعی طور پر ایجنٹ کو ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم ادا کی۔
’سب سے چھوٹا اویس طارق بھی ایف اے تک پڑھائی کرنے کے بعد فارغ تھا اور اس کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی اس لیے وہ بھی جانا چاہتا تھا۔ وہ بھی ان کے ساتھ ہو گیا۔‘
وہ پانچوں کزنز اکٹھے ہی اٹلی جانے کے لیے لیبیا کی ٹکٹیں لے کر اسلام آباد سے پہلے دبئی، مصر اور وہاں سے لیبیا پہنچے۔
لیبیا میں موجود انسانی سمگلر نے انھیں ایک مقام پر رکھا جہاں پہلے ہی سے بہت سے لوگ موجود تھے۔ ان سب کو کشتیوں کے ذریعے یورپ جانا تھا۔ گروپوں کی شکل میں ان کو کشتیوں پر بٹھایا جاتا تھا۔
’یہاں باہر جانے کی بات کرو تو ہر کوئی قرض دینے پر تیار ہوتا ہے‘
عبدالجبار کے حصے کے 22 لاکھ روپے ادا کرنے کے لیے ان کے والد راجہ انور کے پاس پیسے نہیں تھے۔ اس کے لیے انھیں اپنے بھائیوں اور عزیز و اقارب سے قرض لینا پڑا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں جب باہر جانے کی بات کرو تو آپ کے بہن بھائی، رشتہ دار بڑے آرام سے قرض دے دیتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ باہر جا رہے آرام سے واپس کر دے گا۔‘
راجہ انور نے قرض لے کر انسانی سمگلروں کو رقم ادا کی۔ پہلے کچھ روز عبدالجبار اور ان کے باقی چار کزنز کا خاندان والوں سے مسلسل رابطہ رہا اور وہ جلد ہی لیبیا میں اس جگہ پہنچ گئے جو ایجنٹ نے ان کو بتا رکھی تھی۔ یہاں سے ان کو گروپوں کی صورت میں آگے لے جایا جانا تھا۔
ایجنٹس یا انسانی سمگلروں اپنی زبان میں اسے ’زیرو لائن‘ یا ’فرنٹ‘ کہتے ہیں۔ اس جگہ اس گروپ کے لوگوں کو ایک کمرے میں رکھا جاتا ہے اور کشتی یا بحری جہاز کے آنے تک وہ وہیں رکتے ہیں۔ کشتی جلد بھی آ سکتی ہے اور اس کو کئی دن بھی لگ سکتے ہیں۔
عبدالجبار نے اسی جگہ سے گھر والوں کو ایک ویڈیو بھجوائی تھی جس کو دیکھ کر راجہ انور کو لگا کہ انھیں اپنے بیٹے کو واپس بلا لینا چاہیے۔
’وہ ایسے بھیڑ بکریوں کی طرح ایک دوسرے کے اوپر پڑے تھے‘
راجہ انور کہتے ہیں ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک کمرے میں گنجائش سے زیادہ لوگ لیٹے ہوئے تھے۔ ’وہ ایسے ایک دوسرے کے اوپر ٹانگیں رکھ کر لیٹے ہوئے تھے۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر میرا دل دہل گیا۔ اور میرے بیٹے نے بتایا کہ اس کو کھانے کے لیے بھی کئی دنوں سے کچھ نہیں دیا گیا تھا۔‘
راجہ انور کہتے ہیں انھوں نے ایجنٹ سے بات بھی کی کہ وہ ان کے بیٹے کو یا تو جلد آگے بھیج دیں یا واپس بھیج دیں۔ ’لیکن وہ واپس نہیں بھیجتے۔ وہ مارتے ہیں انھیں، کہتے ہیں آگے ہی جاؤ گے۔‘
اس سے اگلے روز ان کی کشتی آن پہنچی اور وہ اس پر سوار ہو گئے۔
راجہ انور کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے اور ان کے چاروں کزنز اس کشتی پر سوار ہو گئے جہاں سے انھوں نے پیغام بھجوایا کہ ان کا یورپ کی طرف سفر شروع ہو رہا ہے۔ دوسری طرف محمد شمریز کا بھی سات ماہ بعد انتظار ختم ہو گیا تھا وہ بھی ان پانچوں افراد کے ساتھ ہی کشتی پر سوار کیے گئے تھے۔
کنیز بی بی کو غم کے ساتھ ساتھ اس بات کا غصہ ہے کہ انھیں اب تک یہ بھی نہیں بتایا جا رہا کہ ان کے شوہر زندہ بھی ہیں یا نہیں
شمریز کو سات ماہ کیوں لیبیا میں ہی گزارنے پڑے؟
محمد شمریز کی اہلیہ کنیز بی بی کہتی ہیں کہ ان کے شوہر نے بتایا کہ پاکستان میں موجود ایجنٹس کے کہنے پر لیبیا میں موجود ایجنٹس ان کو مختلف بہانوں سے شدید ترین تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔
’وہ کہتے تھے کہ یہ بد تمیزی کرتا ہے، جب میری اپنے شوہر سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ صرف اثر و رسوخ والے لوگوں کو پہلے بھجوا رہے تھے۔‘
کنیز بی بی کہتی ہیں شمریز نے ان کو بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ میں 19 ’گیمیں‘ جا چکی تھیں لیکن ایجنٹس نے ان کو نہیں بھجوایا تھا۔
محمد شمریز کی والدہ صابر بیگم کہتی ہیں کہ ’وہ اس کو پہلے بھی تو بھجوا سکتے تھے۔‘
انھیں ایسا لگتا ہے کہ شاید اگر وہ پہلے چلے جاتے تو اس کشتی پر نہ ہوتے جس کو حادثہ پیش آیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کو بیٹے کے ’چلے جانے‘ کی جو تکلیف ہے اس میں سب سے زیادہ چبھنے والی چیز یہ ہے کہ اس کو شدید قسم کے جسمانی تشدد اور اذیت سے گزارا گیا۔
’جس دن اس کو انھوں نے کشتی پر بٹھایا ہے وہ آٹھ دنوں کا بھوکا تھا۔‘
محمد شمریز کی والدہ اس سے آگے کچھ نہیں بتا پائیں اور اپنا چہرہ ڈوپٹے میں چھپا کر رونے لگیں۔
کنیز بی بی کہتی ہیں کہ سمگلروں نے جب ان کے شوہر کے سر کے بال مونڈھ کر ان کے سر پر کٹ لگا دیے تب انھوں نے ان پر تشدد بند کیا۔
’جانے سے ایک ہفتہ پہلے انھوں نے مجھے کہا تھا کہ پاکستان والے ایجنٹ سے کہو کہ یا تو مجھے آگے بھجوا دیں یا واپس۔ لیکن انھوں نے کہا نہ ہم نے پیسے واپس کرنے ہیں اور نہ ہی واپس بھیجنا ہے۔‘
شمریز کی والدہ کہتی ہیں کہ ’ہمارا نہ بیٹا رہا، نہ گھر رہا‘
’میرے بچوں کی ذمہ دار کون لے گا‘
کنیز بی بی کوغم کے ساتھ ساتھ اس بات کا غصہ ہے کہ انھیں اب تک یہ بھی نہیں بتایا جا رہا کہ ان کے شوہر زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کو کہا جا رہا ہے کہ کشتی سمندر میں اتنی نیچے جا چکی ہے کہ اس تک پہنچنا آسان نہیں ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ انھیں صرف بہلایا جا رہا ہے۔
’ہمیں کچھ تو انصاف ملنا چاہیے۔ ان کے جانے کے بعد جس طرح میں نے اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ یہ وقت گزارا ہے یہ مجھے ہی معلوم ہے لیکن ایک عورت ہو کر میں مردوں کی طرح ان کے ساتھ کھڑی رہی ہوں۔‘
شمریز کی والدہ کہتی ہیں کہ ’ہماری بیٹا تو پھر بھی نہیں رہا۔ نہ بیٹا رہا، نہ گھر رہا۔‘
کنیز بی بی سمجھتی ہیں کہ ان کے مجرم وہ ایجنٹس ہیں جنھوں نے ان کے ساتھ غلط بیانی کی، پیسے بھی لے لیے اور ان کے شوہر کو منزل تک بھی نہیں پہنچایا۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کو گرفتار کیا جانا چاہیے اور سزا ملنی چاہیے۔ لیکن ان کو زیادہ امید نہیں ہے کہ ایسا ہو پائے گا۔
’کچھ دن یہ معاملہ چلے گا پھر سب کچھ روٹین کے مطابق ہو جائے گا۔ ان (ایجنٹس) کو ضمانتیں مل جائیں گی اور وہ جیل سے باہر آ جائیں گے۔‘
لیکن وہ کہتی ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کے اور ان جیسے درجنوں خاندانوں کے ساتھ بہت زیادتی ہو گی۔
’میرے دو چھوٹے بچے ہیں ان کا کون ذمہ دار ہے، جو ہم نے قرض لیا اس کا کون ذمہ دار ہے۔‘
Comments are closed.