یونان کشتی حادثہ: ’ایک گھنٹے تک سمندر میں تیرتا رہا، افسوس کہ ساتھیوں کو ڈوبنے سے نہ بچا سکا‘

Haseeb

  • مصنف, خالد کرامت
  • عہدہ, نامہ نگار بی بی سی، یونان

’میں اس کشتی کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ اس میں تین منزلیں تھیں اور میں دوسری منزل کے آخر میں بیٹھا تھا۔ آخری روز دن کے کوئی دو سے تین بجے کا وقت تھا اور ہماری کشتی کا انجن خراب تھا، وہ چل نہیں رہی تھی۔ اس کے بعد تقریباً 4:30 بجے ایک بحری جہاز آیا جس نے ہماری مدد تو کی مگر وہ ریسکیو کرتے تو بہتر ہوتا۔ انھوں نے ہمیں پانی اور بسکٹ فراہم کیے اور چلے گئے۔‘

یہ روداد بی بی سی اردو کو یونان کے قریب سمندر میں ڈوبنے والی کشتی میں بچ جانے والے 20 برس کے حسیب الرحمان نے سنائی ہے۔ حسیب الرحمان کا تعلق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل کھوئی رٹہ سے ہے۔ وہ پاکستان میں مزدوری کرتے تھے مگر ان کے مطابق انھیں اس کی اجرت نہیں ملتی تھی جس کی وجہ سے انھوں نے اس انتہائی پُرخطر سفر کا آغاز کیا۔

یونان میں ڈوبنے والی کشتی پر کم از کم ساڑھے تین سو پاکستانی سوار تھے جن میں سے صرف 12 زندہ بچے۔ پاکستانی حکومت کے مطابق لاپتہ ہونے والے 281 شہریوں کے اہلخانہ نے اس سے رابطہ کیا ہے۔

رہائی کے بعد کشتی پر پیش آنے والے واقعات اور پاکستانی تارکینِ وطن سے روا رکھے گئے سلوک کے بارے میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے حسیب نے اپنے اس تکلیف دہ سفر کے بارے میں بتایا کہ ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی پر لیبیا سے اٹلی کے سفر کے دوران ’ہماری کشتی ہچکولے کھا رہی تھی مگر قریب ایک بحری جہاز پانی دے کر نکل گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بڑا جہاز تھا اور تقریباً ایک سے ڈیرھ کلومیٹر کے فاصلے پر شپ کھڑی ہو گئی اور وہاں سے انھوں نے ہمیں پانی دیا۔ وہ کچھ کو ملا کچھ کو نہ مل سکا۔‘

حسیب کے مطابق ’ہماری کشتی کبھی ایک جانب جا رہی تھی کبھی دوسری جانب، ہم نے آوازیں لگائیں کہ ’ہیلپ می ہیلپ می‘ مگر انھوں نے ’کچھ نہ سنا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ یہ مسافر ’دور سے اشارے کر رہے تھے کہ پانی اور بسکٹ لے لیں۔ کافی لڑکوں نے اور بھی الفاظ بولے لیکن شاید ان تک آواز نہیں گئی اور وہ ہمیں یہ کھانا دے کر چلے گئے۔‘

’ کافی لوگوں نے قمیضیں اتار کر بھی لہرائیں مگر وہ چلے گئے۔‘

Boat

،تصویر کا ذریعہHELLENIC COAST GUARD

’اپنے ساتھیوں کو بچا نہ سکا اور وہ ڈوب گئے‘

کشتی پر سفر کے دوران مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے حسیب نے کہا کہ وہاں ’چیخ و پکارشروع ہو گئی تھی۔ پاکستانی شہری بھی کہہ رہے تھے کہ جان بچائی جائے۔‘

حسیب کے مطابق پاکستانیوں کو یہ اجازت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنی مرضی کر سکیں، یا وہاں سے کھانا بھی لے سکیں۔

رات کے اندھیرے میں ’کشتی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی بھی جگہ موجود نہیں تھی۔‘

ان کے مطابق ’ہم نے لوگوں سے سنا کہ رسا ڈالا جا رہا ہے۔ ہماری کشتی کا انجن اس وقت بند تھا۔ کشتی اندھیرے میں چل رہی تھی اس کے سائیڈ پر کوئی روشنی نہیں تھی۔‘

حسیب کے مطابق کافی دیر بعد بتایا گیا کہ ریسکیو کرنے کے لیے ایک جہاز آیا ہے۔

حسیب کا کہنا ہے کہ ’میں پیچھے تھا تو مجھے وہ نظر نہیں آیا۔ یہ نہیں پتہ کہ انھوں نے رسہ ڈالا یا نہیں ڈالا مگر کم سے کم دس منٹ تک کشتی چلتی رہی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ڈوبنے سے قبل کشتی کو کوئی مدد میسر نہ تھی۔ ’کوئی ساڑھے سات بجے ایک اور بحری جہاز آیا۔۔۔ انھوں نے رسی وغیرہ بھی ہماری جانب پھینکی۔۔۔ وہ بھی بسکٹ اور پانی دے کر چلے گئے۔‘

حسیب نے بتایا کہ ’ہم اس کشتی کے بالکل ساتھ لگ گئے تھے۔ پھر اللہ کا ایک معجزہ ہوا اور ہماری کشتی کا انجن اس وقت سٹارٹ ہو گیا اگر یہ سٹارٹ نہ ہوتا تو کسی کو پتہ بھی نہ چلتا کہ وہاں کوئی کشتی بھی آئی تھی۔‘

’شام ساڑھے سات بجے کے بعد وہاں کچھ آوازیں گونجنے لگیں کہ اٹلی کا شپ آ رہا ہے آپ کو ریسیو کرنے۔ شاید یہ ہمیں امید دلانے کے لیے تھا کہ لوگ شور نہ کریں۔‘

حسیب نے بتایا کہ مصر کے کچھ شہری عربی میں یہ بات کر رہے تھے کہ ’ہمیں چار دن سے کھانے پینے کے لیے کچھ بھی نہ ملا۔ پھر ہم لوگوں نے شور کیا کہ اگر کشتی اٹلی نہیں جا سکتی تو کسی اور ملک کے کنارے لگا دیں۔‘

بات اس نہج پر پہنچ گئی کہ انھوں نے مطالبہ کیا کہ بے شک اسے لیبیا یا یونان لے جا کر سب کی جان بچائیں۔

حسیب کے مطابق ’ہم نے سنا ہے کہ اس میں سات سو سے ساڑھے سات سو لوگ تھے، جو کشتی ڈولنے سے کبھی ایک جانب جا رہے تھے کبھی دوسری جانب۔ جب سب کا وزن ایک جانب گیا تو کشتی الٹ گئی اور پھر بھگڈر مچ گئی۔‘

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’کچھ دو تین لوگ ایسے تھے جو نیچے سے اوپر آئے انہی میں سے ایک بزرگ بھی تھے جو پانچ منٹ پہلے ہی اوپر آئے اس طرح ان کی جان بچ گئی۔‘

حسیب نے بتایا کہ ’جب میں سمندر میں گرا تو ایک چیخ و پکار سنائی۔ حسیب کا کہنا ہے کہ ’میرے ساتھ آنے والے کچھ عزیز بھی تھے ان میں ارشد شریف اور ندیم ترین وہ بھی میرے ساتھ تھے اور میرے سر کا سایہ تھے۔ وہ بھی اسی کشتی میں تھے مگر میں ان کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ وہ ڈوب گئے۔‘

حسیب کا کہنا ہے کہ ’ارشد شریف اتنے اچھے تھے کہ ہمیں کھانے کو کچھ نہ ملتا لیکن اگر ان کو کھانے کے لیے کچھ بھی ملتا، چاہے ایک نوالہ ہو وہ ہمیں دیتے۔ میں بہت افسردہ ہوں مگر کیا کر سکتے ہیں اللہ کی مرضی۔‘

حسیب نے بتایا کہ ’کشتی پر میں دس سے پندرہ منٹ بیٹھا پھر وہ بھی پانی میں نیچے چلی گئی۔ میں نے سب لوگوں کو آوازیں دیں۔ ارشد، ندیم، ناصر سب کو آوازیں دیں مگر میں ان کے لیے کچھ بھی نہ کر سکا۔‘

’وہاں بہت اندھیرا تھا جو بحری جہاز ریسکیو کرنے کے لیے آیا تھا وہ بھی ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر دور چلا گیا تھا۔‘

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’اللہ کا معجزہ ہے جو میں بچ گیا ہوں۔‘

Haseeb

،تصویر کا ذریعہHaseebur Rehman

’میں نے چار دن سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا‘

حسیب کا کہنا ہے کہ ’میں نے جینز کی پینٹ پہنی ہوئی تھی تقریباً ایک گھنٹہ میں سمندر میں تیرتا رہا ہوں۔ پھر اس بحری جہاز کے پاس پہنچا جو مدد کے لیے آیا تھا۔ میں نے وہاں ان کو آوازیں دیں کہ ’مائی فرینڈ ہیلپ می‘ تو انھوں نے ایک ٹیوب نما رسا اور ایک سیفٹی جال میرے طرف اچھال دیا تو میں اس پر چلتا ہوا شپ پر پہنچ گیا۔‘

حسیب کے مطابق وہ جہازغالباً یونان کی نیوی یا فوج کی کشتی تھی، میں ان کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ہمیں بچایا اور نئی زندگی دی۔‘

’انھوں نے مجھے کمبل اور پانی دیا۔ وہ جو کھانا اپنے لیے لائے تھے وہ انھوں نے ہمیں دے دیا۔‘

رات کے دو تین بجے میں اس جہاز پر سوار ہوا۔ پھر ان کا ریسکیو ہیلی کاپٹر آیا، اس کے بعد ان کا ایک اور شپ بھی آیا لوگوں کو بچانے کے لیے (اور پھر) 15 سے 16 لوگوں کو انھوں نے فوری ہسپتال پہنچایا۔

ہیلی کاپٹر اوپر سے روشنی کر رہا تھا اور وہ نیچے ریسکیو کر رہے تھے۔

حسیب کا کہنا ہے کہ ’رات ہم نے اس شپ پر گزاری جو سمندرمیں چلتا رہا۔ صبح چھ یا سات بجے ایک اور شپ آیا، جس پر ہم بیٹھ گئے، دن گیارہ یا بارہ بجے ہم کلاماتا میں پہنچے۔ اس وقت ہمیں درست وقت کا اندازہ نہیں تھا اور یہ میں دن کی گرمی کے حساب سے اندازہ بتا رہا ہوں۔‘

ان کے مطابق ’اس کے بعد انھوں نے ہمیں ایمرجنسی میں رکھا۔ جنھیں صحت کے مسائل تھے ان کو ہسپتال لے گئے اور ہمیں چار دن بعد وہاں کھانا نصیب ہوا۔ یونان کی حکومت ان کی امدادی ٹیمیں ان کے ڈاکٹرز سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘

حسیب اور دیگر تارکین وطن کراچی سے لیبیا کیسے گئے؟

یونان کشتی حادثے میں زندہ بچنے والے پاکستانی تارکین وطن نے کہا ہے کہ انھیں انسانی سمگلروں اور ان کے ایجنٹوں نے بحیرۂ روم تک پہنچایا تھا۔

حسیب کا کہنا ہے کہ وہ کراچی سے 20 مارچ کو دبئی کے لیے روانہ ہوئے۔ پھر دبئی میں 16، 17 گھنٹے انتظار کیا اور اگلے دن مصر کی فلائٹ لی جو ساڑھے چار گھنٹے کی تھی۔

’غالباً رات آٹھ بجے ہم لیبیا کے بن غازی ایئرپورٹ کے لیے نکلے۔‘

حسیب کا کہنا ہے کہ ’میں کراچی سے دبئی آیا تھا، دبئی سے مصر اور مصر سے لیبیا گیا۔ لیبیا کے بن غازی ایئرپورٹ پر وہی لوگ آتے ہیں، جنھیں اٹلی کا سفر کرنا ہوتا ہے۔ میں نے ایجنٹ سے بات نہیں کی تھی، میری طرف سے 22 لاکھ روپے ارشد شریف نے ادا کیے تھے، سارا انتظام انھوں نے ہی کیا تھا۔‘

کراچی ایئرپورٹ پر بھی کوئی ایجنٹ تھا یا نہیں اس سوال کے جواب پر حسیب نے کہا کہ ’ادھر نہیں پتا چلتا کہ کون ایجنٹ ہے، بس یہی بتایا جاتا ہے کہ فلاں ٹرمینل پر چلے جائیں۔ میں خود اپنا پاسپورٹ لے کر گیا۔ جب میں کراچی ایئرپورٹ پر گیا تو میں وہاں اکیلا نہیں تھا۔ کوئی 20 لوگ اور بھی تھے۔‘

حسیب نے بتایا کہ ’میں جب وہاں جا کر بیٹھا تو وہاں (انتظار میں) بیٹھے لوگوں نے کہا کہ ’آپ بھی لیبیا جانا چاہتے ہیں؟ تو میں نے ہاں میں جواب دیا۔‘

’انھوں نے اور میرے ساتھ آنے والے لڑکوں نے بتایا کہ فلاں کاؤنٹر پر آپ کا پاسپورٹ جمع ہو گا، تو بس ایسے کرتے کرتے ہم سفر کے لیے تیار ہو گئے اور دبئی گئے۔‘

ان کے مطابق کراچی اور دوسرے مقامات سے بن غازی پہنچ کر سب ادھر ادھر چلے جاتے ہیں۔

boat

،تصویر کا ذریعہHaseebur Rehamn

،تصویر کا کیپشن

ارشد شریف بائیں جانب، عبدالکریم دائیں جانب

یہ بھی پڑھیے

ْپاکستانی شہری یونان میں

،تصویر کا ذریعہPAKISTAN EMBASSY GREECE

انھوں نے بتایا کہ ’بن غازی پر پہنچ کر ائیرپورٹ پر وہ لوگ خود ہمیں لینے آتے ہیں، ان کے پاس ہمارے پاسپورٹ کی کاپی اور تصویریں ہوتی ہیں۔‘

حسیب کے مطابق ’وہ ایک جگہ ہمیں لے گئے جہاں ہمارا سامان آنا تھا اور پاسپورٹ لیے۔ ہم سے ہمارے پاسپورٹ لے کر ردی کی طرح کاؤنٹر پر ڈال دیے۔ ہم اپنی رہائش گاہ پر چلے گئے اور دو سے تین دن بعد ہمیں پاسپورٹ ملے۔‘

حسیب کا کہنا ہے کہ لیبیا کا جو بھی علاقہ ہو وہاں وہ کھانا فراہم نہیں کر سکتے تھے۔ ’یہ سارا سفر رات کا ہوتا ہے کبھی کار کبھی ویگو ڈالے کبھی ٹرک میں۔‘

’عید والے دن بھی میرا گھر والوں سے رابطہ نہ ہو سکا۔ گھر والے بھی پریشان ہو گئے اور رونا دھونا شروع کر دیا۔ حسیب کے مطابق ’یہ لوگ فون پہلے لے لیتے ہیں تاکہ بھوک پیاس کا ہم اپنے گھر نہ بتا سکیں اور شور شرابا نہ ہو۔‘

ان کے مطابق اس کے بعد یہ ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہتے ہیں۔ پھر انھوں نے نو جون کو اٹلی کے لیے سفر شروع کروایا۔ ہمیں کنٹینر میں بٹھا کر سمندر کے کنارے لایا گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وہاں اترتے ہی کہا جاتا ہے کہ چلو، کبھی ہم بھاگتے کبھی چلتے ہیں۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ آگے رہے اور اس کا نمبر پہلے آئے۔

حسیب کے مطابق ’صبح کے تقریباً چار بجے ہمیں کنٹینر سے نکالا گیا تھا۔ بڑی کشتی پر سپیڈ بوٹ کے ذریعے چڑھا جاتا ہے۔ کسی کو بازو سے پکڑ کر کسی کو کپڑوں سے کھینچ کر اوپر کرتے ہیں۔ جیسے مرغیوں والی گاڑی ہوتی ہے اسی طرح لوگوں کو کھینچ کر نکالا جاتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جب ہم لیبیا سے بیٹھے تو نشستوں پر ہمیں لیبیا کے لوگ جہاں بٹھاتے ہیں وہاں بیٹھنا ہوتا ہے، جس کو آگے بٹھا دیا وہ پیچھے نہیں آ سکتا اور پیچھے والا آگے نہیں جا سکتا۔‘

’کشتی شروع میں دو دن صحیح رہی پھر کبھی گھنٹہ خراب کبھی پانچ گھنٹے پھر ایک پوری رات خراب رہی تو انھیں لگا کہ بس اب آخری دن ہے۔‘

آخری دن کشتی دن میں 12 سے ایک بجے بند ہوئی پھر چار یا ساڑھے چار بجے چلی۔ ’پھر سات بجے ساڑھے سات بجے بند ہو گئی اور ادھر سے ادھر ڈولتی رہی کبھی ادھر کبھی ادھر۔‘

حسیب نے اپیل کی ہے کہ ’جو لوگ لیبیا میں ہیں، ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پاکستان واپس چلے جائیں۔‘

Haseebur Rehman

،تصویر کا ذریعہHaseebur Rehman

حسیب کشمیر چھوڑ کر جانے پر مجبور کیوں ہوئے؟

حسیب نے بتایا کہ وہ بائیک مکینک کا کام کرتے تھے،جس کی انھیں اجرت نہیں ملتی تھی اور لائن آف کنٹرول کے پاس بھی کشمیر میں حالات اچھے نہیں ہوتے تھے ’تو ہم چاہتے ہیں کہ کہیں باہر ملک میں جا کر سیٹل ہو جائیں اور اپنی فیملی کو بھی وہاں بلا لیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں اوورسیز پاکستانیوں نے بھی ہماری بہت مدد کی ہے جو ہمارے لیے یہاں ملنے آئے۔ ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان سمیت چار لوگوں نے کیمپ میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ فی الحال یونان میں ہی رہنا چاہتے ہیں کیونکہ ’کشمیر میں بھی حالات اتنے اچھے نہیں کہ ہم واپس جائیں۔‘

مگر ’ایک پاکستانی جنھوں نے پاکستان واپس جانے کا فیصلہ کیا تھا، وہ اپنے والدین کے اصرار پر اس کیمپ سے واپس چلے گئے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ