یونان کشتی حادثہ: ’ایجنٹ نے کہا تھا وہ بیٹے کو پرتگال لے جائے گا‘
’میں ایک بڑے بحری جہاز پر سوار ہو رہا ہوں۔ اب میں پہنچ کر رابطہ کروں گا۔‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے نعمان عباس نے یہ آڈیو پیغام اپنے گھر والوں کو اس وقت دیا تھا جب وہ پاکستان سے ایک بحری جہاز پر روانہ ہو رہے تھے۔
یہ آڈیو پیغام نعمان عباس کے والد محمد رضوان نے بی بی سی کو سنوایا جن کا کہنا ہے کہ ایجنٹ نے نعمان کو بتایا تھا کہ یہ بحری جہاز پرتگال جا رہا ہے۔
یونان میں ڈوبنے والی کشتی پر کم از کم ساڑھے تین سو پاکستانی سوار تھے جن میں سے صرف 12 زندہ بچے۔
حکومت کے مطابق لاپتہ ہونے والے 281 شہریوں کے اہلخانہ نے حکومت سے رابطہ کیا ہے۔ نعمان عباس بھی ان پاکستانیوں میں سے ایک تھے جو اب تک لاپتہ ہیں۔
نعمان کے والد نے بتایا کہ ’ہمیں ایجنٹ نے کہا تھا کہ وہ بحری جہاز پر پرتگال جائے گا لیکن وہ اسے لیبیا لے گیا۔‘
’تین چار مہینے اس کو ادھر ہی بٹھائے رکھا۔ ہمارا اس سے رابطہ رہا۔ وہ کافی تکلیف میں رہا۔ کبھی کھانا ملا، کبھی نہیں ملا۔‘
نعمان عباس کے والد محمد رضوان
پھر وہ دن آیا جب نعمان عباس لیبیا سے ایک اوربحری جہاز میں روانہ ہوئے۔ یہ وہی بدقسمت بحری جہاز تھا جو یونان کے ساحل کے قریب ڈوب گیا۔
نعمان کے والد کے مطابق 12 دن سے ان کا نعمان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
’ہم سب گھر والے بہت پریشان ہیں۔ اللہ کرے جلد سے جلد اس کا پتہ چل جائے کہ وہ کدھر ہے، کیا کر رہا ہے۔ ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل رہا۔‘
بی بی سی کے خالد کرامت نے یونان میں زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں سے نعمان کے بارے میں پتہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔
یونان کے ساحل پر کشتی کے حادثے میں جہاں چند خوش قسمت پاکستانی نوجوانوں کی زندگیاں بچ گئیں، وہیں سینکڑوں دیگر تارکین وطن کا سفر کشتی الٹنے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔
یونان میں تارکین وطن کی کشتی کو پیش آنے والا حادثہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے اور بدقسمتی سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ آخری واقعہ بھی نہیں ہو گا۔
سنہ 2014 سے اب تک بین الاقوامی ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق کشتیاں ڈوبنے کے واقعات میں 21 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
رواں برس 13 مارچ کو ہی ایسے ایک واقعے میں 28 پاکستانیوں سمیت 79 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں پاکستان کی نیشنل فٹ بال ٹیم کی سابق کھلاڑی شاہدہ رضا بھی شامل تھیں۔
2022 میں 2406، 2021 میں 1553 اور 2020 میں ایک ہزار افراد ایسے ہی واقعات میں ہلاک ہوئے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ سفر کے خطرات کو جانتے بوجھتے بھی ہر سال سینکڑوں پاکستانی اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں؟
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا یورپ تک پہنچنے والے تارکین وطن کے وہ خواب پورے ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
یورپ تک رسائی کی کوشش طویل عرصے سے جاری ہے لیکن اب یورپی ممالک نے اپنے قوانین کو سخت کرنا شروع کر دیا ہے۔
یورپی ممالک نے ایسی کوششوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے جن کی مدد سے غیر قانونی تارکین وطن کو آنے سے روکا جا سکے۔
ایسے میں یورپ تک پہنچ جانے والے تارکین وطن ان سہولیت سے محروم رہتے ہیں جو یورپی ممالک کے عام شہریوں کو دستیاب ہوتی ہیں۔
ان میں سے ایسے افراد جو بڑے شہروں میں موجود ہوتے ہیں، انھیں پولیس گرفتار کر لیتی ہے اور کافی ڈی پورٹ کر دیے جاتے ہیں۔
زیادہ تر تارکین وطن کے مطابق یورپی حکام کا رویہ ان کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا، کاغذات اور بینک اکاوئنٹ تک کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔
ملاکسا کیمپ، جہاں کشتی حادثے میں بچنے والے تارکین وطن کو رکھا گیا
ان حالات میں بہت سے تارکین وطن انتہائی کم اجرت پر کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے خواب ادھورے ہی رہ جاتے ہیں۔ ایک گمنام زندگی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور وہ اپنے ملک واپس لوٹنا بھی چاہیں تو یہ آسان نہیں ہوتا۔
یونان میں کشتی کے حادثے میں بچ جانے والوں کو ایتھنز کے قریب ہی مالا کاسا کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ ان کی رجسٹریشن کے بعد ان کو اپنے مقامی عزیزوں کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ایسے افراد جن کے یونان میں کوئی جاننے والے نہیں ہیں، ان کو ایک اور کیمپ میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
تاہم ایک پاکستانی ایسے بھی تھے جو ملک واپس لوٹنا چاہتے تھے۔
ڈاکومینٹری فلم میکر سید محمد حسن زیدی کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو تمام خطرات کا علم ہوتا ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے حالات میں بھوکے مرنے سے بہتر ہے کہ وہ ایک خطرہ مول کے کر اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔‘
ان کا ماننا ہے کہ حالیہ واقعے کے بعد بھی پاکستان سے یورپ جانے کے خواہش مند اس طریقے کو اپنانا نہیں چھوڑیں گے۔
Comments are closed.