یونانی کوسٹ گارڈز پر تارکینِ وطن کو بحیرہِ روم میں پھینکنے کا الزام: ’انھوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارتے سُنا مگر مدد نہیں کی‘
- مصنف, لوسیل اسمتھ اور بین سٹیل
- عہدہ, بی بی سی ٹی وی کرنٹ افیئرز
- ایک گھنٹہ قبل
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈز تین سال کے عرصے میں بحیرۂ روم میں درجنوں تارکین وطن کی ہلاکت کا سبب بن چکے ہیں، جن میں سے نو افراد کو جان بوجھ کر پانی میں پھینک دیا گیا تھا۔بی بی سی کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ نو افراد ان 40 سے زائد افراد میں شامل تھے جو مبینہ طور پر یونان کی سمندری حدود سے بے دخل کیے جانے یا یونانی جزیروں پر پہنچنے کے بعد سمندر کی جانب واپس دھکیل دیے جانے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے۔یونانی کوسٹ گارڈ نے بی بی سی کی تحقیقات کے دوران اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں کے تمام الزامات مسترد کرتے ہیں۔ہم نے یونانی کوسٹ گارڈ کے ایک سابق سینیئر افسر کو وہ فوٹیج دکھائی کہ جس میں ایک یونانی کوسٹ گارڈ 12 افراد کو کشتی میں لاد کر ایک ڈنکی پر چھوڑ آتے ہیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد جب وہ جانے کے لیے اپنی کرسی سے اٹھے تو اُن کے گریبان پر لگا مائیک ابھی چل رہا تھا، جس پر اُن کے یہ جُملے ریکارڈ ہوئے اور واضح طور پر سُنے گئے کہ یہ ’واضح طور پر غیر قانونی‘ اور ’بین الاقوامی قوانین کے تحت سنگین جُرم‘ ہے۔واضح رہے کہ ڈنکی لکڑی یا ربڑ سے بنی ایک چھوٹی کشتی کو کہتے ہیں۔ یونانی حکومت پر طویل عرصے سے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ جبری طور پر تارکینِ وطن کو مُلک میں داخل ہونے سے روکتے ہوئے انھیں ترکی کی جانب دھکیل دیتے ہیں، جہاں کی سرحد وہ پہلے ہی پار کر چکے ہوتے ہیں، جو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔لیکن یہ پہلا موقع ہے جب بی بی سی نے ان واقعات کی تعداد کا تخمینہ لگایا ہے جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈ کی کارروائیوں کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔ہم نے مئی 2020 سے مئی 2023 کے درمیان پیش اںے والے 15 واقعات کا تجزیہ کیا جن کے نتیجے میں 43 لوگوں کی موت ہوئی۔ ابتدائی ذرائع بنیادی طور پر مقامی میڈیا، این جی اوز اور ترک کوسٹ گارڈ تھے۔اس طرح کے بیانات کی تصدیق کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ایسے بیانات دینے والے گواہ اکثر غائب ہو جاتے ہیں، یا پھر بولنے سے ڈرتے ہیں۔ تاہم ہم چار معاملات میں عینی شاہدین سے بات کرکے بیانات کی تصدیق کرنے میں کامیاب رہے۔ہماری تحقیق جو بی بی سی کی ایک نئی دستاویزی فلم، ’ڈیڈ کالم: کلنگ ان دی میڈ؟‘ میں شامل ہے نے ایک واضح نمونہ تجویز کیا۔
- یونان کشتی حادثہ: پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا وہ گاؤں جہاں ’ہر گھر میں کہرام ہے مگر پیاروں کے زندہ بچنے کی امید بھی‘16 جون 2023
- اٹلی کے قریب کشتی حادثہ: دو پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق، بچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد 17 ہو گئی 28 فروری 2023
- اٹلی کشتی حادثہ: خلاباز بننے کی خواہشمند افغان لڑکی جو سمندر کی نذر ہو گئی 8 مار چ 2023
صومالیہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ مارچ 2021 میں انھیں یونانی فوج نے جزیرے چیوس پہنچنے پر پکڑ لیا تھا جس کے بعد انھیں یونانی کوسٹ گارڈ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ کوسٹ گارڈ نے انھیں پانی میں دھکیلنے سے پہلے ان کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے کرکے باندھ دیے تھے۔’انھوں نے مجھے سمندر کے بیچ میں ہاتھ باندھ کر پھینک دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ڈوب کر مر جاؤں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنی پیٹھ کے بل تیر کر زندہ رہنے میں کامیاب رہے، کیونکہ اس دوران وہ اپنا ایک ہاتھ آزاد کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن سمندر کی لہروں میں اُن کے گروپ میں شامل تین افراد ہلاک ہو گئے۔‘ستمبر 2022 میں یونان کے جزیرے رہوڈز کے قریب 85 تارکین وطن کو لے جانے والی ایک کشتی اس وقت مشکلات کا شکار ہو گئی تھی جب اس کی موٹر خراب ہو گئی۔شام سے تعلق رکھنے والے محمد نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے مدد کے لیے یونانی کوسٹ گارڈ کو فون کیا جنھوں نے ان سب کو ایک ہی کشتی پر لاد کر ترکی کے پانیوں میں واپس دھکیل دیا اور انھیں بس لائف جیکٹس کے سہارے چھوڑ دیا گیا۔ محمد کا کہنا ہے کہ انھیں اور ان کی فیملی کو جو کشتی دی گئی تھی، اس کا والو ٹھیک سے بند نہیں تھا۔ (والو وہ مقام کے جہاں سے ربڑ کی کشتی میں ہوا بھری جاتی ہے)وہ کہتے ہیں کہ ’فوراً ہی ہماری کشتی میں پانی بھرنا شروع ہو گیا اور ہم پانی میں ڈوبنا شروع ہو گئے، وہ یہ سب دیکھ رہے تھے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔۔۔ انھوں نے ہم سب کے چیخنے کی آواز سنی اور پھر بھی وہ ہمیں اُس گہرے سمندر میں چھوڑ کر چلے گئے۔‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’مرنے والا پہلا بچہ میرے کزن کا بیٹا تھا۔۔۔ اس کے بعد بس ایک ایک کر سب ڈوبنے لگے۔ ایک کے بعد ایک بچہ پانی میں گُم ہو گیا اور پھر میرا کزن خود گہرے نیلے پانی میں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ صبح تک سات یا آٹھ بچے مر چکے تھے۔‘’میرے بچے صبح ترک کوسٹ گارڈ کے آنے سے کچھ دیر پہلے تک زندہ تھے۔‘یونانی قانون کے مطابق پناہ کے متلاشی تمام تارکین وطن متعدد جزیروں پر قائم خصوصی رجسٹریشن مراکز میں اپنا دعویٰ درج کرا سکتے ہیں۔لیکن ہم نے کنسولیڈیٹڈ ریسکیو گروپ کی مدد سے جن تارکینِ وطن کے انٹرویوز کیے اُن کا کہنا تھا کہ انھیں ان مراکز تک پہنچنے سے پہلے ہی پکڑ لیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد بظاہر خفیہ طور پر کام کر رہے ہوں گے کیونکہ ان میں سے اکثر بغیر وردی کے اور نقاب پوش ہوتے تھے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ یورپ میں پناہ کے متلاشی ہزاروں افراد کو غیر قانونی طور پر یونان سے ترکی واپس بھیج کر انھیں بین الاقوامی اور یورپی یونین کے قانون میں دیے گئے پناہ حاصل کرنے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ ۔آسٹریا کے سرگرم کارکن فیاض ملا نے ہمیں بتایا کہ انھیں گذشتہ سال فروری میں یونان کے جزیرے لیسبوس میں اس طرح کی خفیہ کارروائیوں کا خود ہی پتہ چل گیا تھا۔خفیہ اطلاع ملنے کے بعد مبینہ طور پر جبری واپسی کے مقام کی طرف گاڑی چلاتے ہوئے انھیں ہوڈی پہنے ایک شخص نے روکا جس کے بارے میں بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ پولیس کے لیے کام کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے بعد پولیس نے ان کے ڈیش کیم سے روکے جانے کی فوٹیج کو حذف کرنے کی کوشش کی اور ان پر ایک پولیس افسر کی مزاحمت کرنے کا الزام عائد کیا۔لیکن بلآخر اس متعلق مزید کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔،تصویر کا ذریعہFayad Mulla
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.