اس دن کی بنیاد کیسے پڑی؟
،تصویر کا ذریعہThinkstockسنہ 1886 میں امریکہ میں ٹریڈ یونینز نے برطانوی سماجی مصلح رابرٹ اوون کے پیغام کی بنیاد پر دن میں آٹھ گھنٹے کے اوقاتِ کار کا مطالبہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ہڑتالیں شروع کیں۔
رابرٹ اوون نے آٹھ گھنٹے کام کرنے کا خیال دن کو تین حصوں میں تقسیم کرنے یعنی ’آٹھ گھنٹے محنت، آٹھ گھنٹے تفریح، آٹھ گھنٹے آرام‘ کے نعرے کے ساتھ وضع کیا تھا جبکہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کارخانوں میں کام کے اوقات یا چھٹی کا دن مقرر کیے بغیر سخت محنت مزدوری کرنا معمول تھا۔اس سلسلے میں سب سے بڑی ہڑتال یکم مئی کو شکاگو میں کی گئی اور ایک اندازے کے مطابق اس دن احتجاج کے لیے وہاں 40 ہزار کارکن جمع ہوئے۔ اس وقت شکاگو امریکی صنعت کا مرکز اور یونین آرگنائزیشن کا مرکز تھا۔اس احتجاج کو کاروباری اور سیاسی حلقوں کی طرف سے پسندیدگی سے نہیں دیکھا گیا لیکن آنے والے دنوں میں اس میں اوقاتِ کار سے تنگ ہزاروں غیر مطمئن کارکنوں کے علاوہ ’انارکسٹس‘ بھی شامل ہو گئے۔ یہ ’انارکسٹ‘ وہ لوگ تھے جو قوانین کے نفاذ اور حکمرانی کے ارد گرد تشکیل پانے والے معاشرے کے مخالف تھے۔کشیدگی عروج پر پہنچ گئی اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔پولیس کی سختی سے مشتعل مزدور رہنماؤں اور ہڑتال کرنے والے مظاہرین نے چار مئی کو شکاگو کے مشہور ہے مارکیٹ سکوائر پر مظاہروں کا اہتمام کیا۔ اس دن ایک نامعلوم حملہ آور نے پولیس اہلکاروں پر بم پھینک دیا اور دھماکے اور اس کے بعد ہونے والی فائرنگ کی وجہ سے سات پولیس اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ہے مارکیٹ قتل عام کے نام سے مشہور ہونے والے اس واقعے کے بعد، آٹھ انارکسٹس پر قتل کا الزام عائد کیا گیا اور ان میں سے کچھ کو موت کی سزا سنائی گئی حالانکہ ان کا جرم کبھی بھی صحیح طور پر ثابت نہیں ہوا تھا۔1889 میں 20 ممالک کی سوشلسٹ اور مزدور جماعتوں اور ٹریڈ یونینز کے نمائندوں کے اجلاس میں یکم مئی کو ان واقعات کی یاد میں یومِ مزدور منانے کا فیصلہ کیا گیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
مزید ممالک یہ دن منانے لگے
شکاگو میں ہونے والی جھڑپوں نے آنے والے برسوں میں بائیں بازو کی بہت سی جماعتوں کے لیے تحریک کا کام کیا۔بی بی سی سربیا کی نتاشا اندجیلکووچ کے مطابق جنوبی یورپ میں، یوم مئی کو سب سے پہلے منانے والے سلووینین اور کروٹس تھے جو اس وقت آسٹرو ہنگری سلطنت کا حصہ تھے۔کام کے مشکل حالات، کم اجرت اور طویل اوقات نے جلد ہی سربیا میں کارکنوں کو 1893 میں یوم مئی کی ریلی کا اہتمام کرنے پر اکسایا۔پہلی عالمی جنگ کے بعد، صنعتی ترقی میں تیزی کے نتیجے میں روس میں کمیونسٹ انقلاب کے زیر اثر، محنت کشوں نے دنیا بھر میں بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ جرمنی میں نازی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد 1933 میں یوم مزدور کو سرکاری تعطیل ہونے لگی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جرمنی نے اس دن چھٹی دینے کا فیصلہ تو کیا لیکن آزاد یونینوں کو ختم کر دیا جس کا نتیجہ جرمن مزدور تحریک کے عملی طور پر خاتمے کی شکل میں نکلا اور پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی جرمنی میں ایسی ٹریڈ یونینز دوبارہ بن سکیں۔دوسری عالمی جنگ میں اتحادی ممالک کی فتح کے بعد، عالمی نقشہ بدلا اور سیاسی اور اقتصادی تقسیم مزید نمایاں ہوئی۔کیوبا، اس وقت کے سوویت یونین اور چین جیسے سوشلسٹ ممالک میں کئی دہائیوں سے یومِ مزدور منایا جا رہا ہے۔ اس دن عام طور پر بڑی بڑی پریڈز ہوتی ہیں جیسا کہ ماسکو کے ریڈ سکوائر پر منعقد ہونے والی پریڈ، جس میں پارٹی اور ریاستی عہدیدار شریک ہوتے رہے ہیں۔کمیونسٹ رہنماؤں کا خیال تھا کہ یومِ مزدور پر تعطیل اور جشن یورپ اور امریکہ میں محنت کش طبقے کو سرمایہ داری نظام کے خلاف جدوجہد میں متحد ہونے کی ترغیب دے گا۔سوشلسٹ وفاقی جمہوریہ یوگوسلاویہ میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی، جہاں 1945 میں یکم مئی کو سرکاری طور پر تعطیل کا اعلان کیا گیا اور اسے جلسے جلوسوں کے ساتھ منایا گیا تھا۔ایشیا میں جن ممالک میں یوم مزدو یکم مئی کو منایا جاتا ہے ان میں پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔متحدہ ہندوستان میں یوم مزدور منانے کا آغاز یکم مئی 1923 کو مزدور کسان پارٹی نے مدراس میں کیا تھا جبکہ حکومت پاکستان نے یکم مئی 1972کو پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر سرکاری سطح پر یکم مئی کو محنت کشوں کا دن قرار دیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
غربت میں اضافہ
دنیا بھر میں مزدور یونینز اور کارکنان یوم مئی پر مزدوروں اور کارکنوں کے لیے بہتر حالات کا مطالبہ کرنے کے لیے جلسے، جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں۔دنیا میں بےروزگاری اور غریب کارکنوں کی تعداد میں متوقع اضافے کے پیش نظر مزدوروں کے حقوق اہم ہیں۔بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے اپنی 2024 کی پیشن گوئی میں کہا ہے کہ کم بیروزگاری اور روزگار میں مثبت نمو کے باوجود، جی 20 ممالک کی اکثریت میں بنیادی اجرتوں میں کمی واقع ہوئی کیونکہ اجرتوں میں اضافہ گذشتہ سال مہنگائی کی رفتار کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا۔آئی ایل او کا کہنا ہے کہ 2023 میں انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والے ایسے کارکنوں کی تعداد میں عالمی سطح پر 10 لاکھ کا اضافہ ہوا، جو فی کس سوا دو ڈالر روزانہ سے بھی کم کماتے ہیں۔اور نستباً کم غربت میں رہنے والے ایسے کارکنوں کی تعداد میں بھی تقریباً 84 لاکھ کا اضافہ ہوا جن کی روزانہ فی کس آمند 3.65 ڈالر سے کم تھی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.