’یورپ یا موت‘: غیرقانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کے خواہشمند نوجوان جو اپنی زندگیاں بے رحم سمندر کے حوالے کر دیتے ہیں

ship

یونانی ساحل پر ایک کشتی ڈوبنے سے سینکڑوں افراد کی موت کے بعد بحیرہ روم میں پہلی امدادی کارروائیوں میں سے ایک میں چند پناہ گزینوں کو بچایا گیا تاہم سمندر کی بےرحم موجوں سے بچائے گئے ان افراد کا کہنا ہے کہ کوئی بھی چیز انھیں یورپ پہنچنے کی کوشش سے نہیں روک سکتی۔

ان افراد نے بی بی سی کے ایلائس کڈی سے بات کی ہے جو اس ریسکیو بحری جہاز پر موجود تھے جو سمندر میں مصیبت میں پھنسے تارکین وطن کی مدد کے لیے سمندر میں گشت کرتا ہے۔

جب یہ سرخ اور سفید رنگ کے پینٹ والا ریسکیو بحری جہاز بحیرہ روم کے ایک وسیع و عریض حصے میں سفر کر رہا تھا تو اچانک اس کے سامنے ایک گہرے نیلے رنگ کی چھوٹی کشتی نمودار ہوئی جس پر دور سے بظاہر سر ہی سر دکھائی دے رہے تھے، یعنی اس پر بہت زیادہ افراد سوار تھے۔

ریسکیو بحری جہاز پر سوار ’ایس او ایس میڈیٹرانی‘ نامی فلاحی تنظیم کے امدادی کارکن ہیلمٹ اور لائف جیکٹس پہنے سپیڈ بوٹس میں جائے وقوعہ کی طرف تیزی سے پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ تیزی سے پناہ گزینوں کو ایک ایک کر کے ان سپیڈ بوٹس میں منتقل کرتے ہیں اور پھر اُن کی گنتی کرتے ہیں۔

بچائے گئے نوجوانوں کی اکثریت کا تعلق افریقی ملک گیمبیا سے ہے اور وہ اب تک 15 گھنٹے سمندر میں بے یار و مددگار گزار چکے تھے اور طرابلس کے قریب لیبیا کے قصبے کاسٹیلورڈے سے 54 ناٹیکل میل کے فاصلے پر موجود تھے۔ بچائے گئے افراد کے چہروں سے پریشانی عیاں تھی۔

ان میں سے کچھ افراد نے مجھے بتایا کہ امدادی کارکنوں کے پہنچنے سے کچھ دیر پہلے کھچا کھچ بھری ہوئی ان کی کشتی میں سوار افراد کے درمیان لڑائی شروع ہو چکی تھی۔

لڑائی اس بات پر ہوئے تھی کیونکہ اُن میں سے کچھ افراد ایسے تھے جو تمام تر مشکلات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھنا چاہتے تھے جبکہ کچھ افراد زندگیوں کو لاحق خطرات کے ڈر سے انھیں سفر ختم کرنے کی درخواست کر رہے تھے۔

اس ہنگامہ آرائی کے دوران ایک پناہ گزین کا فون سمندر میں گر گیا۔

ship

ایک پناہ گزین نے انگلش فٹبال کلب مانچیسٹر سٹی کی ہلکی نیلے رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی، باقیوں نے اپنے ہاتھوں میں آئی فون تھام رکھے تھے۔ بہت کم لوگوں کے پاس کھانا اور پانی موجود تھا۔ ان میں سے اکثر افراد تیرنا نہیں جانتے تھے، ان کے پاس زندگی بچانے کے لیے گاڑی کے ٹائروں میں استعمال ہونے والی ٹیوبز موجود تھیں جو ایک طرح کی لائف جیکٹ کا کام دیتی ہیں۔

افق پر لیبیا کے کوسٹ گارڈز کے بحری جہاز کے نمودار ہونے پر پناہ گزینوں کے چہروں پر خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد کو اس سے قبل لیبیا کی کوسٹ گارڈ نے واپس لیبیا پہنچا دیا تھا۔ ان کوسٹ گارڈز کو یورپی یونین نے بحری جہاز، تربیت اور فنڈنگ فراہم کرتی ہے۔

ریسکیو سپیڈ بوٹ میں موجود چند پناہ گزینوں کے چہروں پر مسکراہٹ ہے اور ان میں سے ایک اپنا فون نکال کر سیلفی لیتا ہے۔

ان میں سے ایک نے مجھے بعد میں بتایا کہ انھوں نے جب ریسکیو اہلکار کا ہاتھ پکڑا تو انھوں نے سوچا کہ ’اب میں یورپ میں داخل ہو چکا ہوں۔‘

اس گروپ کو فوری طور پر ایس او ایس میڈیٹرانی کے بحری جہاز ’اوشن وائکنگ‘ پر پہنچا دیا گیا جہاں ان کا طبی معائنہ ہوا ہے۔ انھیں وہاں نئے کپڑے اور بیگز دیے گئے جن میں دانت صاف کرنے والے برش موجود تھے۔

اس فلاحی ادارے کی جانب سے اٹلی کے حکام کو خبردار کیا گیا جنھوں نے فوری طور پر جنوبی شہر باری کی بندرگاہ پر بحری جہاز کو لنگر انداز کرنے کی درخواست کر دی گئی تھی اور اسے بلا تاخیر یہاں پہنچنے کے بارے میں کہہ دیا گیا تھا۔

ship

یہ اس نئے قانون کے تحت کیا جاتا ہے جس میں حکام کو ریسکیو بحری جہازوں کو فوری طور پر لنگر انداز ہونے کا کہا جاتا ہے اور وہ اس دوارن مزید پناہ گزینوں کو ڈھونڈا نہیں جاتا۔ تاہم یہاں پہنچنے تک تین روز لگے۔

جب ہمارے سفر کا آغاز ہوا تو ہماری ملاقات کچھ پناہ گزینوں سے ہوئی جو اس بحری جہاز پر لگائے گئے طبی کیمپس میں موجود تھے۔ ان میں سے اکثر انگریزی میں بات کرتے ہیں اور ان کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

ان تارکین وطن نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ ان خطرات سے لاعلم نہیں تھے جن کا انھیں یورپ کے سفر کے دوران سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ یورپ پہنچنے کی ان کی پہلی کوشش نہیں تھی، اُن میں چند افراد ایسے بھی تھے جو پہلے یورپ پہنچنے کی خواہش میں مرنے سے بال بال بچ چکے تھے مگر انھوں نے دوبارہ یورپ جانے کے لیے اسی پرخطر سفر کا چناؤ کیا۔

ایک 17 سالہ پناہ گزین کا کہنا ہے کہ ’میں سات مرتبہ کوشش کر چکا ہوں۔‘

میں نے جتنے بھی پناہ گزینوں سے بات کی انھوں نے بتایا کہ ان کا کوئی نہ کوئی دوست اس سفر کے دوران ہلاک ہو چکا ہے۔

ان میں سے کچھ افراد یونان کشتی حادثے کی خبر کے بارے میں سوشل میڈیا پر پڑھ چکے ہیں۔ اس حادثے کو اب تک پناہ گزین کشتی حادثوں کی تاریخ کے سب سے ہلاکت خیز حادثوں میں سے ایک کہا جا رہا ہے جس میں مختلف اندازوں کے مطابق 750 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کشتی کے سوار بھی لیبیا ہی سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

ایک پناہ گزین نے اس حادثے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے نے انھیں بالکل بھی مایوس نہیں کیا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ان پناہ گزینوں کی بھی یہی سوچ ہو گی جو ان کی ہے۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ’یہی سوچ ہوتی ہے کہ یا تو یورپ پہنچو یا سمندر میں مر جاؤ۔ صرف دو آپشن ہوتے ہیں۔‘

خیال رہے کہ ریسکیو بحری جہاز کو اس ربڑ والی کشتی کے بارے میں سمندر میں مشکلات کا شکار پناہ گزینوں کے لیے بنائی گئی ایمرجنسی ہیلپ الارم فون اور یورپی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس سے ملی تھی۔

اس کشتی میں سوار افراد میں سے 80 فیصد سے زیادہ نابالغ لڑکے ہیں جن کی عمریں 18 سال سے کم ہیں اور ان کے ساتھ ان کے خاندان کے لوگ موجود نہیں تھے۔

ان میں سے اکثر لڑکوں نے اپنا سفر مہینوں پہلے شروع کیا تھا، جب وہ اپنے گھر والوں کو پیسے کما کر بھیجنے کی امید لے کر گھر سے نکلے تھے۔

ship

ان میں سے اکثر افراد کا کہنا ہے کہ انھوں نے والدین یا دونوں میں سے کوئی بھی ایک کھو چکے تھے اور اپنے خاندانوں میں سب سے بڑے بیٹے کی حیثیت سے ان کو لگتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو کی مالی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔

مرکزی بحر روم پناہ گزینوں کا وہ راستہ ہے جو انھیں یورپی یونین میں شامل ممالک تک پہنچاتا ہے۔ فرنٹیکس کا کہنا ہے کہ رواں سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران سنہ 2022 کے مقابلے میں غیر قانونی نقل و حرکت دگنی ہو گئی ہے اور اب تک تقریباً 50 ہزار 318 افراد یہ کوشش کر چکے ہیں۔ سنہ 2017 کے بعد سے ریکارڈ کیا گیا سب سے بڑا نمبر ہے۔

کشتی پر سوار ہونے کے بعد قدرے محفوظ محسوس کرتے ہوئے لڑکوں نے میرے ساتھ بات کرنا شروع کی۔

انھوں نے سمگلرز کے مختلف نیٹ ورکس کے ذریعے لیبیا جانے کی کوشش کی اور افریقہ کی شمال مغربی خطے سے ہوتے ہوئے یہاں آنے کی کوشش کی تھی۔

ship

جب انھیں وہ کپڑے واپس کیے گئے جس میں وہ سفر کر رہے تھے تو ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ انھوں نے کپڑوں کے انبار میں سے اپنے کپڑے ڈھونڈے اور پھر انھیں صابن والے پانی کی بالٹی میں ڈال کر دھونے لگے اور پھر انھیں تاروں پر ڈال کر سکھاتے رہے۔ یہ کپڑے ان افراد کا واحد ذاتی سامان ہے کیونکہ انھوں نے سب کچھ لیبیا میں چھوڑ دیا تھا۔

وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ لیبیا میں وہ سمگلرز کی جانب سے چلائے جانے والے کمپاؤنڈز میں رہتے تھے اور پھر وہاں رقم جمع کر کے وہ پہنچ گئے۔ ان کے مطابق اس سفر پر ان کے 570 پاؤنڈ لگیں گے۔

سوما کے سوتیلے والد نے انھیں کچھ نقد رقم بھیجی اور ایک اور لڑکے کا کہنا ہے کہ اس کے خاندان نے سفر کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے لیے قرض لیا تھا۔

ایک پناہ گزین کا کہنا تھا کہ ’اس سفر کے لیے میں نے کوئی رقم نہیں دی۔۔۔ اس لیے میں بہت خوش قسمت ہوں۔ میں اس شخص کے ساتھ کام کر رہا تھا، میں ان کی اس حوالے سے معاونت کر رہا تھا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ