یورپ کا خطرناک سفر: ’میرے چار بیٹے سفر پر روانہ ہوئے تھے مگر صرف ایک زندہ گھر لوٹا‘
- مصنف, جوئل گنٹر
- عہدہ, فاس بوئے، سینیگال
اداما اور موسی سر کو صحیح سے یاد نہیں ہے کہ انھوں نے سمندر میں کتنے دن گزارے تھے۔
دونوں بھائی مغربی افریقہ کے ساحل سے دور ایک روایتی سینیگالی ماہی گیروں کی کشتی جسے پیروگ کہا جاتا ہے، میں سمندر میں بہتے جا رہے تھے۔ وہ ان 39 مسافروں میں سے دو تھے جو کئی دنوں سے غذائی قلت کا شکار اور موت کے بہت قریب تھے۔
21 سالہ اداما نے بتایا کہ سمندر میں بے سروسامانی کے عالم میں جب ایک دن دور سے انھیں مچھلی پکڑنے والا جہاز دکھائی دیا تو وہ خوراک کی قلت کی وجہ سے اتنے کمزور پڑ چکے تھے کہ وہ صرف اسے دور سے گزرتا دیکھ ہی سکتے تھے۔
اس وقت ان کے 17 سالہ بھائی موسیٰ نے تیرنے کے لیے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ وہ یقیناً ڈوب جاتے اگر جہاز کا عملہ انھیں نہ دیکھتا اور انھیں پانی سے بحفاظت نہ نکالتا۔
جب وہ تارکین وطن کی اس چھوٹی سی کشتی پیروگ کے قریب آئے تو انھوں نے اداما اور دیگر زندہ بچ جانے والوں کے ساتھ سات لاشوں کو بھی پایا۔ یہ کشتی پانچ ہفتے قبل 101 افراد کو لے کر سینیگال کے ساحل سے سفر پر روانہ ہوئی تھی۔
زندہ بچ جانے والے افراد دنیا کے سب سے خطرناک تارکین وطن کے سمندری راستوں میں سے ایک پر سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔
شمالی بحر اوقیانوس کی سمندری گزرگاہ سینیگال سے کینیری جزائر تک، جو ایک ہسپانوی جزیرہ نما ہے سمندر کے راستے تقریباً 1,000 میل دور ہے۔
وہ 10 جولائی کو سینیگال کے ساحلی گاؤں فاس بوئے سے روانہ ہوئے تھے۔ اداما اور موسی گاؤں میں ماہی گیروں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں لڑکوں نے مل کر مچھلی پکڑنا سیکھا تھا اور مل کر پیروگ بنانے پر کام کیا تھا۔
لیکن سینیگال کے بہت سے نوجوانوں کی طرح انھیں بھی یورپ جانے کی خواہش یہاں تک کھینچ لائی تھی۔
اداما کہتے ہیں کہ ’ہر کوئی کشتیوں پر جانا چاہتا ہے، یہ وہ چیز ہے جو آپ کو کرنی ہے۔‘
وہ بحفاظت سینیگال میں واپس آ کر اپنے آبائی گھر کے سایہ دار صحن میں بیٹھے تھے لیکن پہلے کی نسبت بہت دبلے ہو چکے تھے۔ انھوں نے کہا کہ سفر شام کے وقت شروع ہوا تھا۔ وہ اور موسیٰ، ان کے دو کزنز، پیپ اور امسوتو، جن کی عمریں 40 اور 20 سال تھیں ساحل سے تھوڑا دور پیروگ میں اس وقت شامل ہوئے تھے جب وہ رات کو روانہ ہوئی تھی۔
بحیرۂ روم کے برعکس، شمالی بحر اوقیانوس کے سمندری راستے پر سمندری محافظوں کا کوئی گشت نہیں ہے۔ کوئی بھی گمشدہ یا پریشان کن کشتیوں کو متحرک انداز میں تلاش نہیں کرتا ہے۔ کسی کی نظر میں آئے بغیر غائب ہو جانا یا نکل جانا آسان ہے۔ اگر آپ کینریز یا کیپ وردے کے ساحل کو چھوڑ جائیں تو آپ بحر اوقیانوس میں جا کر غائب ہو سکتے ہیں۔
اداما بتاتے ہیں کہ پہلے تین دنوں تک پیروگ کشتی جو ایک موٹر سے چلتی تھی، سمندر کی تیز ہواؤں اور طاقتور لہروں سے لڑتی رہی۔ لیکن چوتھے دن ہوا تھم گئی اور کشتی آگے بڑھنے لگی۔ اس وقت مسافروں نے سوچا کہ اب ان کے صرف چند دن ہی سمندر میں گزریں گے۔
جب چھٹا دن بھی گزر گیا اور دور دور تک خشکی کا کہیں نام نشان تک نظر نہیں آیا تو کشتی پر بحث شروع ہو گئی کہ آگے بڑھا جائے یا واپس جایا جائے۔
اداما کہتے ہیں کہ ’کشتی کے کپتان نے فیصلہ سنایا کہ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ ہمارے پاس کافی خوراک اور پانی موجود ہے اور اب سمندری ہوا بھی تھم چکی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس کے بعد مسافر پراعتماد ہو گئے اور انھوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھانا شروع کر دیا اور انھوں نے عبادت کے لیے ہاتھ دھونے کے لیے پینے کے پانی کا استعمال کیا۔
چھٹے دن کے قریب کشتی پر کھانا اور پانی ختم ہونا شروع ہو گیا۔ جہاز میں چار بچے سوار تھے اور کچھ بوڑھے لوگوں نے اپنا کھانا اپنے بچوں کو دے دیا۔ اور چند نے کچھ لوگوں کے مرنے کے بعد ذخیرہ اندوزی شروع کر دی تھی۔
اداما کو کشتی پر پہلی ہلاکت کی تاریخ صحیح سے یاد نہیں تھی، لیکن انھوں نے کہا کہ یہ پہلا ہفتہ گزرنے کے فورا بعد تھی۔ یہ ایک ماہی گیر کپتان کی موت تھی جو پانی پر رہتا تھا لیکن جوان نہیں تھا۔ اگلے شخص کی موت میں مزید چھ دن لگے تھے۔ پھر آئے روز اموات ہوتی رہیں۔
اداما نے بتایا کہ ’پہلے، ہم نے ہر مرنے والے کے لیے دعا کی اور ان کی لاش کو سمندر میں بہا دیا۔ پھر بعد میں ہم نے لاشوں کو پانی میں پھینک دیا کیونکہ ہم میں دعا کرنے کی بھی طاقت نہیں تھی۔ ہمیں صرف لاشوں سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔‘
وہاں پیچھے فاس بوئے کے گاؤں میں یہ خبر پھیل رہی تھی کہ کشتی نہیں پہنچی۔ اداما کی والدہ سوکھنا کا کہنا تھا کہ ’ہم سب جانتے تھے کہ کشتی کے ذریعے سپین جانے میں پانچ یا چھ دن لگیں گے۔ جب ایک ہفتہ بغیر کسی خبر کے گزر گیا تو میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ میں پریشانی سے بیمار ہو گئی۔‘
پیروگ میں موجود تقریباً سبھی افراد فاس بوئے یا آس پاس کے علاقے سے تھے۔ اور گاؤں میں ہر کوئی کشتی میں سوار افراد میں سے کسی نہ کسی کو جانتا تھا۔ خاندانوں نے مقامی حکام اور مائیگریشن این جی اوز کو خبردار کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی خیریت کے لیے بھاگ دوڑ کرنا شروع کر دی۔ حتیٰ کہ ایک مقامی این جی او کے سربراہ نے ایک انتباہی ٹویٹ کی کہ کشتی روانہ ہونے کے دو ہفتے بعد بھی لاپتا ہے لیکن ان کی انتباہ پر توجہ نہیں دی گئی اور کشتی مزید تین ہفتے تک کھلے سمندر میں بہتی رہی۔
اس پیروگ پر ایک ہی خاندان کے چار نوجوان پھنسے تھے لیکن وہ کمزور سے کمزور ہوتے جا رہے تھے۔ اداما نے بتایا کہ ان کے سب سے بڑے کزن پیپ، کی موت سب سے پہلے ہوئی تھی۔ ’اس کی ہلاکت سے قبل اس نے کہا تھا کہ ‘اگر موت آنی ہی ہے تو میری خواہش ہے کہ میں مر جاؤں اور تم تینوں زندہ رہو۔‘
پھر اداما کا چھوٹا کزن امسوتو غائب ہو گیا۔ ایک صبح وہ بیدار ہوئے تو امسوتو سمندر میں جا چکا تھا۔
اداما اور موسیٰ سمندر کے پانی کے گھونٹ پیتے اور سورج کے نیچے جلتے رہے۔ ہر رات وہ کینری جزائر کی روشنیوں کی تلاش کرتے تھے لیکن وہ روشنی کبھی نظر نہیں آتی تھی۔
فاس بوئے میں کوئی بھی یہ خطرہ مول لینے کے لیے تارکین وطن کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا۔ عالمی بینک کے مطابق ملک کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ غربت میں رہتا ہے۔ نوجوانوں کو اپنے ملک میں روزگار کے بہت کم مواقع میسر ہیں۔ سینیگال کے صدر کا حوالہ دیتے ہوئے 23 سالہ ماہی گیر کپتان اسانے نیانگ نے کہا کہ ’میکی سال نے سمندر بیچ دیا۔‘”
فاس بوئے کے ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے غیر ملکی ٹرالروں کو بہت زیادہ لائسنس دیے ہیں، جو ملک کے سمندر سے زیادہ مچھلیاں پکڑتے ہیں اور ان کے لیے شکار کو ختم کر دیتے ہیں۔
نیانگ ساحل سمندر پر ایک پیروگ کے سائے میں بیٹھے ایک جنریٹر کور بنا رہے تھے جسے وہ فروخت کر کے اپنی روزی روٹی کما سکیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہمارے پاس کوئی اور متبادل ہوتا تو ہم یہاں ٹھہر جاتے لیکن ہم یہاں بیٹھ کر کچھ نہیں کر سکتے۔ ’ہم اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
یہاں کے نوجوانوں پر کشتیوں کے ذریعے یورپ جانے اور بہتر روزگار کے مواقع تلاش کرنے کے لیے سماجی دباؤ ہے اور جو لوگ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں یا کبھی کوشش نہیں کرتے انھیں تضحیک سے دیکھا جاتا ہے۔
سمندری راستے سے سپین جانے کی خواہش اتنی عام ہے کہ سینیگال کی مقامی زبان وولف میں ایک محاورہ بن گیا ہے ’بارسلونا یا موت‘
انسانی سمگلرز جو لکڑی سے بنی کشتیاں استعمال کرتے ہیں وہ اس خطرناک سفر کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ وہ اکثر ناقص بنائی جاتی ہیں۔ ان کے پاس نیویگیشن ٹیکنالوجی کا فقدان ہے اور ان کا پیٹرول ختم ہونے اور راستے سے بھٹک جانے کا امکان رہتا ہے۔ اور اس کے باوجود سپین پہنچنے کے لیے سمندری راستے استعمال کرنے والے تارکین وطن کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق جنوری 2020 سے اب تک تقریباً 68,000 افراد مغربی افریقہ سے کشتیوں کے ذریعے کامیابی سے کینری جزائر پہنچ چکے ہیں اور تقریباً 2,700 ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ لیکن ممکنہ طور پر ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اس راستے پر جان لیوا حادثات کے ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
آئی او ایم کی ایک ترجمان صفا مسہلی نے کہا کہ ’ہم انھیں نظر نہ آنے والے جہازوں کے ملبے کہتے ہیں۔ایک کشتی ساحل پر پہنچتی ہیں جس میں کوئی سوار نہیں ہوتا ہے، یا ایک لاش ساحل پر آتی ہے جس کا تعلق کسی معروف کشتی حادثے سے نہیں ہوتا ہے۔‘
اس کشتی حادثے میں ہلاک ہونے والے پیپ سار کے والد جو خود بھی تمام عمر ایک ماہی گیر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ ’اس مسئلے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فاس بوئے کو چھوڑنے والے لوگ، خاص طور پر ماہی گیر، اپنے یورپ پہنچنے کی امکانات پر بہت زیادہ پراعتماد تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ماہی گیر سوچتے ہیں کہ اگر وہ مصیبت میں پھنس گئے تو وہ سمنر میں تیر سکتے ہیں لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ تم ہمیشہ کے لیے تیر نہیں سکتے۔ سمندر تمہیں نہیں تھامے گا۔‘
اور یہاں فاس بوئے میں اب بھی ایک نوجوان ماہی گیر کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہے۔
ساحل پر موجود ایک ماہی گیر نیانگ نے کہا کہ ’میں اب بھی کشتی کے ذریعے جانے کے بارے میں سوچ رہا ہوں، یہ سانحات ہمیں کوشش کرنے سے روک نہیں سکتے۔‘
ادھر اداما بتاتے ہیں کہ ہمارے سفر کے دوران تقریباً ایک ماہ بعد ایک بڑا جہاز سمندر میں نظر آیا اور 20 سے زیادہ لوگوں نے تیر کر اس کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ وہ بہت دور تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس کشتی پر زندہ بچ جانے والے افراد بمشکل ہی ہلنے کے قابل تھے۔ پھر 14 اگست کو ان کے فاس بوئے سے روانہ ہونے کے ٹھیک پانچ ہفتے بعد انھوں نے ایک ہسپانوی ماہی گیروں کی کشتی کو دیکھا اور سوچا کہ یہ انھیں بچا لے گی۔
ہسپانوی عملے نے انھیں جہاز پر منتقل کرنے میں ان کی مدد کی اور انھوں نے ساتوں لاشوں کو پلاسٹک بیگز میں ڈال دیا۔ اداما اور موسیٰ م جہاز کے عرشے پر ایک ساتھ لیٹ گئے۔
وہ پیروگ حادثے میں زندہ بچ گئے تھے۔ لیکن موسیٰ بہت کمزور ہو گیا تھا۔ وہ ان 63 افراد میں سے آخری تھا جس کی اس بحری سفر پر موت ہوئی تھی۔
اداما کہتے ہیں کہ ’وہ وہیں میری آنکھوں کے سامنے جہاز کے عرشے پر مر گیا تھا۔‘
زندہ بچ جانے والوں کو کیپ وردے لے جایا گیا اور چھ دن تک ان کا طبی علاج کا گیا۔ اس سے پہلے کہ اکثریت کو واپس ڈاکار لے جایا جائے۔ جو لوگ چل سکتے تھے انھیں طبی نسخے دیے گئے اور فاس بوائے کو واپس بھیج دیا گیا۔
جب مرنے والوں کی تعداد کی خبر گاؤں میں پھیلی تو فاس بوئے میں پرتشدد مظاہروں کا ایک مختصر سلسلہ شروع ہوا جس نے پولیس کو وہاں آنے پر مجبور کیا۔ ان مظاہروں میں گاؤں کے کچھ افراد جن میں اداما اور موسیٰ کے خاندان کا ایک فرد بھی شامل ہے کو گرفتار کر لیا گیا۔
زندہ بچ جانے والوں کے اہل خانہ نے بتایا کہ انھیں متجسس رہائشیوں اور مرنے والوں کے رشتہ داروں نے ان کے گھروں میں ہراساں کیا۔ چنانچہ ایک دن ان کے گھر پہنچنے کے بعد ان سب کو فاس بوئے سے کہیں اور صحت یاب ہونے کے لیے بھیج دیا گیا۔
اداما اور ان کی والدہ سوکھنا قریبی رشتہ داروں کے پاس رہنے کے لیے چلے گئے۔ وہ اپنے دن آرام کرنے، دعائیں مانگنے اور اداما سے اس کے تلخ تجربے کے بارے میں پوچھنے سے گریز کر رہے تھے۔
اس خاندان نے تین بیٹے کھوئے تھے اور ایک واپس آیا تھا۔ فاس بوئے نے 101 کو سمندر میں جاتے ہوئے اور 37 کو گھر واپس آتے دیکھا تھا۔
پیپ کے والد عبدو کریم خاموشی سے ایک ہاتھ میں تسبیح کے موتیوں کو گنتے ہوئے کہا کہ ’یہ حادثے صرف جگہ بدلتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایک زندگی بھی بہت ہے، اور یہ 60 سے زیادہ ہے۔ یہ ایک ہی گاؤں کے لیے بہت زیادہ ہے۔‘
Comments are closed.