یورپ کا جان لیوا سفر:’گھر والوں کو پیغامات بھیجے کہ ہمیں معاف کر دیں کیونکہ ہمیں نہیں لگتا تھا کہ ہم زندہ بچیں گے‘

شامی پناہ گزین عبدالرحمان
،تصویر کا کیپشن

شامی پناہ گزین عبدالرحمان

  • مصنف, اوکسانا اینٹونیکو اور لینا شیخونی
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس

’جب میں جنگل کے ان تاریک دنوں کو یاد کرتا ہوں تو میں گھبرا جاتا ہوں۔‘

عبدالرحمن قیوان کا تعلق شام سے ہے ور انھوں نے زوم کال کے ذریعے بی بی سی سے بات کی۔

یہ چند ماہ پہلے یعنی دسمبر کے ایک سرد دن کی بات ہے۔ وہ بھاری برفباری میں گر گئے اور بیہوش ہوگئے۔ ان کے بچنے کی کوئي امید نہیں تھی۔

عبدالرحمن کہتے ہیں ’میں سفر مزید جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ میری زخمی ٹانگ مزید برداشت نہیں کر سکتی تھی۔‘

وہ بیلاروس کو یورپی یونین کے رکن ملک لیٹویا سے الگ کرنے والے جنگل میں ہفتوں سے پيدل چل رہے تھے۔ دونوں طرف کے سرحدی محافظ انھیں مشرقی یورپ کے دونوں ملکوں کے درمیان آگے پیچھے دھکیلتے رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یورپ پہنچنا ’موت کا سفر‘ تھا لیکن یہ وہ سفر تھا جو انھوں نے شام کی جنگ سے فرار ہونے کے لیے اختیار کیا تھا۔

جنگ کے دوران ٹانگ میں آنے والی چوٹ کی وجہ سے ان کی نقل و حرکت محدود تھی اور ایسے میں عبدالرحمن کو یورپ جانے کے لیے نسبتاً آسان راستے کی ضرورت تھی۔

غیر مصدقہ فیس بک اکاؤنٹس سے عربی زبان میں بہت ساری پوسٹس روس کے ویزوں کی تشہیر کرتی ہیں اور بیلاروس کے راستے سمگلرز کے ذریعے یورپ پہنچانے کی سہولت فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔

ان کے کچھ دوست پہلے ہی ایسا سفر کر چکے ہیں۔ انھوں نے عبدالرحمان کو بتایا کہ یہ ان کے لیے بہترین آپشن ہے لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ سنگین ثابت ہوئی۔

تارکین وطن

،تصویر کا کیپشن

تارکین وطن صفر سے کم درجۂ حرارت میں سونے پر مجبور

دو سرحدوں کی کہانی

نومبر میں بیلاروس سے یورپی یونین کے رکن ملک پولینڈ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کی تین ناکام کوششوں کے بعد، عبدالرحمن اور کئی دیگر افراد نے پھر یورپی یونین میں شامل لیٹویا پہنچنے کی کوشش کی۔

وہ جنگلوں میں 30 انچ برف میں کئی کلومیٹر پیدل چلتے رہے، کھانے پینے کی چیزیں بھی بہت کم تھیں۔

عبدالرحمن کہتے ہیں ’ہم سردی سے کانپ رہے تھے۔ جب ہم چلتے تھے تو ہم تھوڑا سا گرم ہو جاتے تھے۔ لیکن جب ہم بیٹھتے تھے تو ہمیں اپنے کپڑے برف سے بھیگے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔‘

جب ان کے پاس پانی ختم ہو گیا، تو انھوں نے پانی کے لیے برف کے گولوں کو پیاس بجھانے کی کوشش کی۔

وہ مزید کہتے ہیں ’ہم بالکل ناامید ہو چکے تھے۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے گھر والوں کو پیغامات بھیجے کہ وہ ہمیں معاف کر دیں کیونکہ ہمیں نہیں لگتا تھا کہ ہم زندہ بچیں گے۔‘

عبدالرحمان کے ساتھ سفر میں کچھ عرصے تک رہنے والے ایک اور شامی عصام ہیں۔

ان دونوں نے ہفتوں جنگل میں گزارے۔ جیسے ہی وہ لیٹویا کی حدود میں داخل ہوتے، سرحدی محافظ انھیں واپس بیلاروس کی طرف دھکیل دیتے، اور اسی طرح جب وہ بیلاروس کی طرف جاتے تو انھیں لیٹویا کی طرف دھکیل دیا جاتا۔

عصام نے کہا ’ہم [لیٹوین افسران] کو کہتے رہے: ’بیلاروس کے سرحدی محافظ ہمیں مِنسک واپس جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں، اور آپ ہمیں لیٹویا میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں، آپ ہی بتائیں آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟‘

لیٹویا میں سرحدی محافظوں نے انھیں حراست میں لے لیا اور ایک خیمے میں رکھا جس کے بارے میں عصام اور عبدالرحمٰن دونوں نے بتایا کہ وہ بہت ’گندہ‘ اور ’بھیڑ‘ والا تھا۔ عبدالرحمان کا اندازہ ہے کہ یہ جگہ ان کے مرکزی دفتر سے چند گھنٹوں کے فاصلے پر بیلاروس کی سرحد کی طرف واقع تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ سرحد پار سے واپس لے جانے سے پہلے لوگ خیمے میں چند گھنٹوں سے لے کر دو دن یا مہینوں تک بھی گزار سکتے ہیں۔

عصام کہتے ہیں کہ ’اس میں بیت الخلا تھا، نہ پانی یا کچھ اور۔ ہمیں بغیر اجازت خیمے سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔‘ انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو ’ذلت آمیز‘ قرار دیا۔

تارکین وطن

،تصویر کا کیپشن

جنگلوں سے گزرتے تارکین وطن

تشدد کے الزامات

عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ لیٹویا کے خیمے میں افسروں نے ان کی زخمی ٹانگ پر ڈنڈوں سے مارا۔ اس کے بعد انھیں سرحد پار واپس دھکیل دیا گیا۔ پار کرنے کی تیسری کوشش کے دوران وہ بیہوش ہوگئے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب وہ ہوش میں آئے تو خیمے میں موجود سپاہیوں نے انھیں ’الٹا لٹکا دیا‘ اور ان کی زخمی ٹانگ پر چھ سگریٹ سلگائے‘۔

عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ انھیں تقریباً دو ہفتے تک خیمے میں رکھا گیا۔ جنوری کے اوائل میں جب ان کی صحت بگڑ گئی تو بالآخر انھیں لیٹویا کے قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔

عصام کا بھی الزام ہے کہ انھیں سرحدی اہلکاروں نے مارا پیٹا۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے لیٹویا کے فوجیوں کو ایک 16 سالہ لڑکے اور ایک نوجوان خاتون کو پیٹتے ہوئے دیکھا جنھوں نے ان سے ملک میں داخل ہونے کی درخواست کی۔

عصام نے کہا ’جب میں نے ان کو ٹوکا اور ان سے پوچھا کہ وہ [عورت کو] کیوں مار رہے ہیں، تو انھوں نے مجھے بھی مارا پیٹا۔ ایک گارڈ نے مجھے لات ماری۔‘

ہائبرڈ جنگ؟

یورپی یونین میں تارکین وطن کا مسئلہ برسوں سے بحث کا موضوع رہا ہے۔

یورپی یونین اور بیلاروس کے درمیان سرحد تازہ ترین قضیہ ہے۔

یورپی یونین کے ممالک منسک اور اس کے اتحادی روس پر تارکین وطن کو ’ہائبرڈ وارفیئر‘ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

لیٹویا تارکین وطن کو ‘جنگ کا ہتھیار’ سمجھتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انھیں سرحد کے پار واپس دھکیل دیا جانا چاہیے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے اگست 2021 سے اب تک تارکین وطن کی بیلاروس سے غیر قانونی طور پر آنے کی 10,524 کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔

لیٹویا کی وزارت داخلہ نے بی بی سی کو ایک بیان میں کہا کہ ’لیٹویا اور یورپی یونین کی بیرونی سرحد کی حفاظت ہمارا بنیادی فرض ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والوں کو قبول کرنے کی ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔‘

وزارت داخلہ ملک میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی کی تردید کرتی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ان لوگوں کو انسانی امداد، بشمول ضروری طبی امداد، فراہم کی جاتی ہے جنھیں غیر قانونی طور پر ریاستی سرحد عبور کرنے سے روکا جاتا ہے۔‘

ایوا

،تصویر کا ذریعہLETA

،تصویر کا کیپشن

ایوا

رضاکاروں کے خلاف فوجداری مقدمہ

اگرچہ لیٹویا میں بہت سے لوگ حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہیں جس کو وہ ’غیر قانونی تارکین وطن‘ کے طور پر بیلاروس کی جانب واپس دھکیلنا کہتے ہیں، لیکن کچھ اسے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایوا راوبیشکو ان میں سے ایک ہیں۔ وہ مشرق وسطیٰ سے آنے والے تارکین وطن کی مدد کرتی رہی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کی مدد کرتی ہیں جو لیٹویا اور بیلاروس کی سرحد کے درمیان پھنس جاتے ہیں۔

جب عصام اور ان کا گروپ مایوس ہو چلا تھا تو انھوں نے مدد کے لیے رضاکاروں سے رابطہ کیا اور ان رضاکاروں نے پھر یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں مقدمہ دائر کیا۔

عدالت نے ایک عبوری یا فوری حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں لیٹویا سے کہا گیا ہے کہ وہ عارضی طور پر تارکین وطن کو قبول کرے اور انھیں انسانی امداد فراہم کرے۔ اس کے بعد ایوا اور ان کے ایک ساتھی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر سرحد پر پہنچ گئے کہ عصام اور ان کے گروپ کو کہیں ملک سے باہر نہ دھکیل دیا جائے۔

ایوا کہتی ہیں ’ہم نے دو گھنٹے انتظار کیا۔ ہمیں یقین نہیں تھا کہ وہ وہاں پہنچ سکیں گے لیکن انھوں نے ایسا کیا۔ وہ برف پر گر پڑے، ایک کانپ رہا تھا۔ ہم صدمے میں آگئے۔‘

لیکن سنہ 2021 سے علاقے میں نافذ ہنگامی حالت کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو رضاکاروں، صحافیوں اور نہ ہی بین الاقوامی تنظیموں کو خصوصی اجازت کے بغیر سرحدی علاقے میں جانے کی اجازت ہے۔ ایوا اور ان کے ساتھی وہاں غیر قانونی طور پر موجود تھے۔

اب ان دونوں کو ایک فوجداری مقدمے کا سامنا ہے، جس میں ان پر تارکین وطن کو غیر قانونی طور پر لیٹویا میں داخل ہونے میں مدد کرنے کا الزام ہے۔

ایوا کا خیال ہے کہ مقدمے کا اچھا پہلو بھی ہو سکتا ہے۔ ’ہمارے مجرمانہ کیس نے مہاجرین کی حمایت میں زیادہ لوگوں کو بولنے پر مجبور کیا ہے۔۔۔ وہ لوگ جو اب تک خاموش تھے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں ’اگر ہم ان لوگوں کو قانونی طور پر پناہ کے لیے درخواست دینے کا موقع نہیں دیتے ہیں، تو غیر قانونی سمگلنگ میں اضافہ ہی ہوگا۔‘

عبدالرحمٰن اب بحفاظت ایک یورپی ملک پہنچ گئے ہیں۔ وہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنے صحیح مقام کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔

عصام نے لیٹویا میں پناہ لینے کا عمل شروع کر دیا ہے لیکن جلد ہی وہ ہالینڈ چلے گئے جہاں ان کے بھائی رہتے ہیں۔ وہ ایوا کی مدد کے لیے ان کے شکر گزار ہیں لیکن واپس نہیں آنا چاہتے۔

عصام کہتے ہیں ’میں ایسے ملک میں واپس کیسے جا سکتا ہوں جس نے میرے ساتھ اتنا سخت سلوک کیا؟ انھوں نے ہمیں مارا پیٹا اور ہمارے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک کیا۔‘

عصام اور عبدالرحمان دونوں کا کہنا ہے کہ اب انھیں بیلاروس کے ذریعے مشکل سفر کرنے پر افسوس ہے۔

عصام کہتے ہیں ’میں قسم کھاتا ہوں کہ ہم شام میں خوش تھے۔ لیکن میں جنگ اور ایک مشکل زندگی سے بھاگا تھا۔ میں کہاں جاتا؟ موت کا یہ سفر میرا واحد موقع تھا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ