یورپ میں ’پراسرار آتشزدگی‘ کے واقعات اور امریکی پروازوں کو نشانہ بنانے کی مبینہ ’روسی سازش‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, پال کربی
  • عہدہ, یورپ ڈیجیٹل ایڈیٹر
  • ایک گھنٹہ قبل

یورپ میں حالیہ موسم گرما میں مختلف کارگو کوریئر کمپنیوں کو عجیب و غریب حادثات کا سامنا ہوا۔ان واقعات میں، جو جولائی کے ماہ میں تین مختلف دنوں میں پیش آئے تھے، پہلے جرمنی کے شہر لیپزگ میں ڈی ایچ ایل کارگو کمپنی کے جہاز میں لوڈ ہونے والے ایک کنٹینر میں آگ بھڑک اٹھی۔اس کے بعد پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جس کے بعد برطانیہ میں برمنگھم کے قریب واقع منورتھ میں بھی آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ ایک ایسے پیکج میں لگی جو آتش گیر آلے جیسا تھا۔تاہم اب پولینڈ میں سرکاری وکلا نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ تین مختلف ممالک کی کمپنیوں کے پارسلز میں لگنے والی یہ آگ دراصل ایک سازش کے تحت ہونے والا تجربہ تھا جس کا اصل ہدف امریکہ اور کینیڈا جانے والی پروزوں کو سبوتاژ کرنا تھا۔

یاد رہے کہ پولینڈ کی پراسیکیوٹر کترزینا کالو نے گزشتہ ماہ انکشاف کیا تھا کہ اس پراسرار آگ کے واقعے کے بعد چار افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جبکہ یورپ بھر میں حکام ان واقعات کی تفتیش کر رہے تھے۔ دوسری جانب برطانوی حکام نے منورتھ میں لگنے والی آگ کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔تاہم برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کے سربراہ کن مکلم نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ’روسی خفیہ ایجنٹوں نے یوکرین کی مدد کرنے کے بعد سے برطانیہ کے خلاف آتش زنی، سبوتاژ اور زیادہ خطرناک کارروائیاں کی ہیں۔‘جرمنی کی خفیہ ایجنسی بی ایف وی کے سربراہ نے کہا تھا کہ ’یہ خوش قسمتی تھی کہ لیپزگ میں جلنے والا آلہ پرواز اڑنے سے پہلے ہی پھٹ گیا۔‘

’خفیہ بارودی مواد‘

پولینڈ کی پراسیکیوٹر نے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ غیر ملکی انٹیلیجنس کے لیے کام کرنے والا گروہ اس سازش میں ملوث تھا جس نے خفیہ بارودی مواد اور خطرناک مواد کوریئر کمپنیوں کے ذریعے پارسل میں چھپا کر بھجوایا جو اچانک پھٹ گئے یا ان میں آگ لگ گئی۔خیال کیا جا رہا ہے کہ اب مغربی حکام ان مبینہ حملوں کو روسی خفیہ عسکری ایجنسی جی آر یو سے منسلک کر رہے ہیں۔ ان حکام کا ماننا ہے کہ آگ لگنے کی وجہ ’الیکٹرک میسج مشین‘ میں مگنیشیئم سے بنے مواد کی موجودگی تھی۔واضح رہے کہ اگر کسی مسافر بردار طیارے میں مگنیشیئم کی وجہ سے آگ لگ جائے تو اسے بھجانا آسان نہیں ہوتا ہے۔وارسا کے قریب پیش آنے والے واقعے کے بعد مقامی خبروں کے مطابق آگ بھجانے میں دو گھنٹے لگے تھے۔

پولش پراسیکیوٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس گروہ کا مقصد یہ تھا کہ ان پارسلز کا تجربہ کیا جائے اور بعد میں ایسے ہی پارسل امریکہ اور کینیڈا بھجوائے جانے تھے۔روس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ تاہم یہ شک موجود ہے کہ روس مبینہ طور پر یورپی یونیئن کے ممالک میں گوداموں اور ریلوے نیٹ ورکس پر ہونے والے حملوں کے پیچھے تھا جن کے دوران سویڈن اور چیک ریپبلک میں واقعات پیش آئے تھے۔جرمن خفیہ ایجنسی کے سربراہ تھامس ہالڈنوانگ نے ڈی ایچ ایل کے مرکز پر آگ کی وجہ بننے والے آلے کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ’مبینہ روسی سبوتاژ تھا۔‘ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ پیکج لتھوینیا سے آیا تھا۔دوسری جانب برطانیہ میں منورتھ میں جس آلے کی وجہ سے آگ لگی تھی، اس کے بارے میں بھی گمان ہے کہ یہ بھی لتھوینیا سے ہی آیا تھا۔ لتھوینیا میں پارلیمنٹ کی نیشنل سکیورٹی اور دفاعی کمیٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ یہ ’ہائبرڈ حملوں کا تسلسل ہے جن کا مقصد عدم اعتماد اور پریشانی پھیلانا ہے۔‘ڈی ایچ ایل نے ان واقعات کے بعد سکیورٹی میں اضافہ کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ’یورپی ممالک میں اپنے نیٹ ورک، ملازمین اور تنصیبات کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ صارفین کے سامان کو بھی بحفاظت رکھنے کے لیے تمام اقدامات اٹھا رہے ہیں۔‘پولینڈ کی حکومت نے پہلے ہی پوزنان میں روسی سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا ہے اور روسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ تاہم روسی وزارت خارجہ نے اس اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک جارحانہ قدم ہے جس کا تکلیف دہ جواب دیا جائے گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}