یورپی یونین نے روس کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کر دیا ہے، یہ پابندیاں روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے جواب میں عائد کی گئی ہیں۔
اس بات کا اعلان یورپی کونسل کے خصوصی اجلاس کے بعد یورپی کمیشن کی صدر ارسلا واندرلین نے یورپی کونسل کے صدر چارلس مشل اور فرانس کے صدر امانویل میکرون کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔
یورپی قیادت کے مطابق ان پابندیوں کے ذریعے روس کے 5 شعبوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان میں روس کا مالیاتی شعبہ، انرجی سیکٹر، شعبہ ہوابازی سمیت ٹرانسپورٹ سیکٹر، ایکسپورٹ اور ایکسپورٹ فائنانس سیکٹر اور آخر میں ویزا پالیسی کے تحت شخصیات پر پابندی شامل ہے۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا واندرلین کے مطابق یہ پابندیاں روس کو شدید مالی نقصان پہنچائیں گی۔ انہوں نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ مالیاتی شعبہ میں روس پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں اس میں بینکنگ مارکیٹ کا 70 فیصد اور دفاعی شعبے سمیت اہم سرکاری کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ان پابندیوں سے روس کے قرضے لینے کی لاگت بڑھے گی، افراط زر میں اضافہ ہوگا اور روس کی صنعتی بنیاد بتدریج ختم ہوجائے گی۔ انہی پابندیوں کے تحت روسی اشرافیہ کو بھی ان کے مالی ذخائر روک کر نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ یورپ میں موجود محفوظ پناہ گاہوں میں اپنا پیسہ مزید نہ چھپا سکیں۔
اسی طرح ان پابندیوں کے ذریعے روس کی آمدنی کے بڑے ذریعے یعنی توانائی کے شعبے کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کے بعد روس اپنی آئل ریفائنریز کو اپ گریڈ نہیں کر سکے گا۔ یہ وہ شعبہ ہے جس کے ذریعے روس نے 2019 میں 24 ارب یورو کمائے تھے۔
تیسرے نمبر پر ان پابندیوں سے جس شعبے کو نشانہ بنایا گیا ہے اس میں ہوابازی سمیت ٹرانسپورٹ کا شعبہ شامل ہے۔ اس کے تحت روسی ائیر لائنز کو تمام طیاروں، ان کے اسپئیر پارٹس اور دیگر آلات کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
کمیشن کے مطابق اس سے روس کے اہم شعبے اور اندرون ملک رابطوں میں کمی آئے گی۔ کمیشن کے اندازے کے مطابق روس کے موجودہ تجارتی فضائی بیڑے کا تین چوتھائی یورپین یونین، امریکہ اور کینیڈا میں بنایا گیا ہے اس وجہ اس کا انحصار ان ممالک کے اسپئیر پارٹس پر ہے۔
پابندیوں کے چوتھے سیکٹر میں روس کو اہم ٹیکنالوجیز سیمی کنڈکٹرز اور جدید سافٹ ویئرز کی رسائی محدود کی جارہی ہے۔ جس سے روس کو ایک خوشحال مستقبل کی تعمیر کی ضرورت کو پورا کرنے میں مشکل پیش آئے گی۔
آخر میں روس کی مختلف شخصیات پر ویزا پابندی شامل ہے۔ جس سے سفارت کاروں، متعلقہ گروپوں اور کاروباری افراد کو اب یورپی یونین تک رسائی حاصل نہیں ہوگی۔
Comments are closed.