ممبران یورپی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بین الاقوامی قانون کے اصولوں پر مبنی اچھے ہمسایہ تعلقات کی بحالی کیلئے نئے سرے سے کوشش کرے۔
ان خیالات کا اظہار ممبران نے یورپین پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی میں ای یو انڈیا تعلقات پر پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کی قبولیت کے موقع پر کیا، جس کے حق میں 61 ووٹ آئے۔ 6 ممبران نے مخالفت کی جبکہ 4 ممبران نے ووٹ دینے کا حق استعمال نہیں کیا۔
اس رپورٹ میں کمیٹی ممبران نے 8 مئی کو پرتگال کے شہر پورٹو میں ای یو اور انڈیا کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات کے تناظر میں یورپین یونین کیلئے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔
فن لینڈ سے تعلق رکھنے والی الوینا الامیتسا ایم ای پی کی تیار کردہ اس رپورٹ میں انڈیا کے ساتھ تعلقات کو دو مختلف تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔
تنازعات کی روک تھام، امن اور علاقائی استحکام کے عنوان سے رپورٹ کا ایک حصہ کہتا ہے کہ یورپی یونین کشمیر کی صورتحال کا قریب سے جائزہ لے رہا ہے اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان اس حوالے سے تناؤ میں کمی اور استحکام پیدا کرنے کے لیے حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔
ممبران یورپین پارلیمنٹ نے اس حوالے سے یورپین یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی قانون کے اصولوں پر مبنی اچھے ہمسایہ تعلقات کی بحالی کیلئے اپنی کوششوں کی تجدید کرے۔
اسی کے ساتھ ہی اراکین نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر اور اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کی جانب سے پیش کردہ مختلف رپورٹس کی روشنی میں بھارت میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار بھی کیا ۔
ممبران پارلیمنٹ کے مطابق ان رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں کیلئے کام کرنے کا محفوظ ماحول میسر نہیں۔
اس کے ساتھ ہی بھارتی خواتین ، اقلیتی گروپوں کو درپیش مشکل صورتحال، بھارت میں ذات پات پر مبنی امتیازی سلوک اور FCRA قانون کی مبینہ خلاف ورزی کے نام پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارت میں موجود دفتر اور اس کے بینک اکاؤنٹس کی بندش کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا۔
ممبران نے نوٹ کیا کہ FCRA وہ قانون ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کے تین خصوصی نمائندوں نے بھارت کو ترمیم کرنے کے لیے کہا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی میں پیش کردہ اس رپورٹ میں بھارت کے شہریت کے ترمیمی قانون CAA کے حوالے سے خطرے کا الارم یعنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق یہ قانون بنیادی طور پر مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور خطرناک حد تک معاشرے میں تفریق کا باعث ہے۔
ممبران پارلیمنٹ نے بھارت اور چین کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات کا جائزہ لینے ہوئے ان پر اپنی تشویش ظاہر کی جبکہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تنازعات کے پر امن حل ، تعمیری اور جامع بات چیت کی ضرورت اور بھارت اور چین سرحد پر بین الاقوامی قانون کی پاسداری کیلئے اپنی حمایت کا اعادہ بھی کیا۔
یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں پیش کردہ اس رپورٹ کے دوسرے حصے میں ممبران یورپی پارلیمنٹ نے کہا کہ یورپ اور بھارت دو بڑی جمہوری جماعتیں ہیں۔ جن کے درمیان تذویراتی شراکت دار کی حیثیت سے مضبوط سیاسی، معاشی ،معاشرتی اور ثقافتی تعلقات ہیں اور جن میں اضافے کی وسیع گنجائش موجود ہے۔
ممبران یورپی پارلیمنٹ نے بھارت کو ایک اہم تجارتی شراکت دار قرار دیتے ہوئے اس کے علاقائی اور جغرافیائی کردار کے مختلف پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا ۔
ان ممبران پارلیمنٹ نے یورپی یونین کو تجویز کیا کہ یورپ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر اور گہرا کرے۔ رپورٹ کے اس حصے میں ممبران کی جانب سے دونوں فریقین کے درمیان قریبی تجارتی تعلقات اور ڈبلیو ٹی او میں اصلاحات کیلئے ملکر کام کرنے کی ضرورت کی بھی حمایت کی گئی ہے۔
اسی کے ساتھ ہی ماحولیاتی اہداف ، عوامی صحت اور عالمی وباء کے خلاف لڑائی، نجی اور عوامی سرمایہ کاری، باہمی رابطے میں اضافے ، ڈیٹا کے تحفظ اور ڈیجیٹل خدمات کے شعبوں میں شراکت داری بڑھانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
Comments are closed.