یورپی پارلیمان میں پاکستان کے جی ایس پی سٹیٹس سے متعلق قرارداد: پاکستان خود کو موجودہ صورتحال سے کیسے نکال سکتا ہے؟
- شہزاد ملک
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کے حق میں احتجاج کی ایک حالیہ تصویر
پاکستان کی وفاقی حکومت نے یورپی پارلیمان کی طرف سے پاکستان کے تجارتی سٹیٹس پر نظرثانی کی قرارداد میں شامل نکات پر یورپی ممالک کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی وفود کو جلد ہی ان ممالک میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یورپی پارلیمان میں بھاری اکثریت سے منظور کی جانے والی ایک قرارداد میں یورپی یونین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سنہ 2014 میں پاکستان کو جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز (جی ایس پی) پلس کے تحت دی گئی تجارتی رعایتوں پر نظرثانی کرے۔
پیر کو وزیر اعظم کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو دیے گیے جی ایس پی پلس سٹیٹس پر نظرثانی کی قرارداد پر غور کیا گیا۔
کالعدم قرار دی جانے والی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے خلاف پرتشدد مظاہرے کرنے اور حکومت کی طرف سے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قراراداد کے بعد یورپی یونین نے ایک متفہ قرارداد پاس کی ہے جس میں پاکستان کو یورپی یونین کی طرف سے دیے گئے جی اس پی پلس سٹیٹس پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یورپی پارلیمان کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد میں پاکستانی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ توہین مذہب کے قوانین میں ترمیم کرے۔
خیال رہے کہ جی ایس پی سکیم کے تحت ترقی پذیر ممالک کی یورپی یونین کی منڈیوں میں آنے والی مصنوعات سے درآمدی ڈیوٹی ہٹا دی جاتی ہے۔
اگر کسی ملک کو یہ درجہ دیا گیا ہے تو اسے انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور طرزِ حکمرانی میں بہتری سمیت 27 بین الاقوامی معاہدوں کا نفاذ کرنا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
وزیراعظم ہاؤس کے ذرائع کے مطابق ’اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ ختم نبوت کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا‘۔
وزیر اعظم کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں وزیر داخلہ کے علاوہ وفاقی وزیر خسرو بختیار، تجارت کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤد اور سیکرٹری خارجہ شریک ہوئے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو جی ایس پی سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ پاکستان کو مستقبل میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو یورپی یونین میں لابی کرنا چاہیے اور اپنا موقف سمجھانا چاہیے۔
’پاکستان کو کمرشل ڈپلومیسی کی ضرورت ہے‘
یورپی یونین کو بیچے جانے والے مال میں سب سے زیادہ مقدار ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی ہے۔ پاکستان سے یورپی یونین برآمد کیے جانے والی اشیا میں 76 فیصد حصہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات کا بنتا ہے۔
سابق سیکرٹری کامرس تسنیم احمد نورانی کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں سے نکلنے کے لیے ’پاکستان کو کمرشل ڈپلومیسی کی ضرورت ہے‘۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستانی حکام کو یورپی یونین میں موجود ہر ملک کی قیادت کے ساتھ ملاقات کر کے صورت حال کو واضح کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ وزارت خارجہ میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات افسران کے علاوہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں تعینات سفیروں کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
تسنیم نورانی کا کہنا تھا کہ ان ممالک میں جا کر لابئنگ کرنے کی ضرورت ہے اور ان ملکوں کی قیادت کو یہ باور کروانا ہے کہ پاکستان میں یورپی ملکوں کے خلاف جذبات میں کوئی شدت نہیں آئی بلکہ حکومت کی کوششوں سے ملک میں شدت پسندی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یورپی ملکوں میں یہودی لابی کا اثرو رسوخ ہے اس لیے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے توہین رسالت کے معاملے کے ساتھ ساتھ ہولوکاسٹ کے معاملے کو زیر بحث لانے کی وجہ سے یورپی ملکوں کی قیادت غصے میں آئی ہے اور انھوں نے پاکستان کے جی ایس پی سٹیٹس کا از سر نو جائزہ لینے کی قرارداد پیش کی ہے‘۔
اقتصادی امور پر نظر رکھنے والے صحافی خرم حسین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو دیے گئے جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنس (جی ایس پی) پلس سٹیٹس کو ختم کرنے کی قرارداد منظور کر لی جاتی ہے تو پھر پاکستان کے پاس یورپی یونین میں شامل ممالک اور بالخصوص ’فرانس کی منت سماجت کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوگا‘۔
خرم حسین کا کہنا تھا کہ جو قرارداد ابھی منظور کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو دیے گئے جی ایس پی پلس سٹیٹس کا از سرنو جائزہ لیا جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر ابھی غور کرنے کی ضرورت کا کہا گیا ہے جبکہ جی ایس پی سٹیٹس واپس لینے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ملک کی اقتصادی صورت حال سب کے سامنے ہے اور اگر یہ قراراد بھی منظور ہو گئی تو پھر ’ملک کو درپیش چیلنجز میں مزید اضافہ ہوگا‘۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے خرم حسین کا کہنا تھا کہ پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے خلاف ’وزیر اعظم کا یہ بیان ان کے گلے پڑ گیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ تمام اسلامی ممالک کو اکھٹا کر کے ان ملکوں کے ساتھ تجارت کا بائیکاٹ کریں گے جو مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کی توہین کا مرتکب بنتے ہیں‘۔
انھوں نے کہا کہ ’تجارت اور مذہب کو ساتھ ملانے پر یورپی یونین کے ممالک سیخ پا ہوئے ہیں‘۔
واضح رہے کہ یورپی یونین کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو سنہ 2014 میں جی ایس پی پلس کا درجہ دیے جانے کے بعد پاکستان اور یورپی یونین کے ملکوں میں تجارت میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کے اقتصادی سروے سال 2019-20 کے مطابق یورپی یونین پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے۔
اس سروے میں کہا گیا ہے کہ جی ایس پی پلس کے تحت پاکستانی مصنوعات کو یورپی یونین کے 27 ملکوں میں بغیر کسی ڈیوٹی کے رسائی حاصل ہے۔
یورپی یونین کو بیچے جانے والے مال میں سب سے زیادہ مقدار ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی ہے۔ پاکستان سے یورپی یونین برآمد کیے جانے والی اشیا میں 76 فیصد حصہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات کا بنتا ہے۔
خرم حسین کا کہنا تھا کہ فرانس نے پاکستان کو جی ایس پی کا سٹیٹس دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ جی ایس پی سٹیٹس ملنے کے بعد پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے۔
یورپی پارلیمان میں منظور کی جانے والی اس قرارداد میں پاکستان میں فرانس کی حکومت کے خلاف حالیہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاج کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کی قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے سے متعلق قرارداد کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
قرارداد میں مذہبی و سیاسی کالعدم تنظیم ٹی ایل پی کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ حکومت کو اس جماعت کی طرف سے تشدد کے استعمال کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہییں۔
یاد رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے کالعدم ٹی ایل پی کے مطالبے پر فرانس کے سفیر کی ملک بدری پر بحث کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے کے بعد جماعت کی قیادت نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دوسری طرف تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دینے کے حکومتی اقدام کے خلاف اس جماعت کی طرف سے نطرثانی کی درخواست پر کارروائی کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کا اجلاس وزارت داخلہ میں ہوا، جس میں وزارت داخلہ میں تعینات دو جوائنٹ سیکرٹریز کے علاوہ وزارت قانون کا ایک افسر بھی شریک ہوئے۔
اس درخواست کی پیروی کرنے والے وکیل احسان علی عارف کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ درخواست انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن ڈبل ون ڈبل سی کے تحت دائر کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ 90 روز میں اس درخواست پر فیصلہ دے۔
انھوں نے کہا کہ اس درخواست پر صرف انہی کے ہی دلائل ہوں گے جس کو سننے کے بعد حکومت تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو برقرار رکھنے یا اسے تبدیل کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔
Comments are closed.