یورپی رہنماؤں کی طرف سے یوکرین کو نمائندہ حیثیت دینے پر اتفاق
بائیں سے دائیں: اٹلی کے وزیر اعظم ماریو درگائی جرمن چانسلر اولف شولز، یوکرین کے صدر ولادمیر زلنسکی، فرانس کے صدر امینوئل میکراں اور رومانیہ کے صدر کلوس ایہونس
یورپ کے فرانس، جرمنی، اٹلی اور رومانیہ جیسے بڑے ملکوں کے رہنماؤں نے یوکرین کی یورپ یونین میں شامل ہونے کی درخواست کی پرزور حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے فوری طور پر نمائندہ حثییت دے دینی چاہیے۔
یوکرین کے شہر کیئو میں ایک بریفینگ کے دوران جرمن چانسلر اولف شلز نے کہا کہ یوکرین یورپی خاندان کا حصہ ہے۔
لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یوکرین کو یورپی یونین میں شامل ہونے کی تمام شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔
دریں اثناء فرانس کے صدر امینوئل میکراں نے کہا کہ 27 رکنی یورپی یونین کو روس کے خلاف فتح حاصل کرنے تک یوکرین کے خلاف کھڑے رہنا چاہیے۔
یوکرین کے صدر ولادمیر زیلنسکی نے روس کی مسلسل جارحیت کو یورپی اتحاد کے خلاف جنگ قرار دیا اور کہا کہ اس کے خلاف سب سے موثر ہتھیار یورپی ممالک میں اتحاد ہی ہے۔
ولادیمیر زیلنسکی نے ایک مرتبہ پھر یوکرین کو فروی طور پر بھاری ہتھیار فراہم کرنے کی استدعا کی اور کہا ان ہتھیاروں کی مدد سے یوکرین اپنے کھوئے ہوئے علاقے دوبارہ حاصل کر سکتا ہے روسی افواج کو پیچھے دھکیل سکتا ہے۔
ارپن میں معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں لیکن تباہ اور بربادی کے مناظر چاروں طرف نظر آتے ہیں
جمعرات کو یورپی رہنماؤں نے کیئو کے قریب جنگ سے تباہ شدہ قصبے ارپن کا دورہ کیا جو کئی ہفتوں تک روس کے قبضے میں رہا تھا۔
یوکرین نے روسی فوجیوں پر جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ بوچا کی طرح ارپن میں بھی سینکڑوں معصوم شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔ روس ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
کیئو کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب مشرقی یوکرین کے شہر سیورودونست میں روس کی بمباری جاری ہے۔
سیورودونست اور اس کے قریبی شہر لزیچانسک پر قبضہ کئی ہفتوں سے روسی فوج کی ترجیحات میں شامل ہے کیونکہ روس لوہانسک کے تمام خطے پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے۔
صدر میکراں اور چانسلر شلز نے اطالوی وزیر اعظم ماریو درگئی اور رومانیہ کے صدر کلوس اوہینس کے ساتھ ملکر یوکرین میں فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد سے یوکرین کا پہلا دورہ کیا ہے۔
یہ دورہ یورپی یونین کی طرف سے یوکرین کو رکنیت دینے کے بارے میں اپنی سفارشات مرتب کرنے سے ایک دن پہلے کیا گیا۔ یورپی یونین میں شامل 27 ملکوں کے رہنما جون کی 23 اور 24 تاریخ اپنے سربراہی اجلاس میں یوکرین کو رکنیت دینے کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔
اس اتحاد میں شامل کچھ ارکان یوکرین کو رکنیت دینے کے بارے میں زیادہ گرمجوش نہیں ہیں اور یورپی یونین میں شامل تین بڑے ملکوں فرانس، جرمنی اور اٹلی کی طرف سے کھل کر حمایت ان ملکوں کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
یوکرین کو نمائندہ حیثیت حاصل ہونے کے بعد اسے یورپی یونین کا مکمل رکن بننے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
کیئو کے دورے سے قبل یوکرین نے اسے بھاری ہتھیار فراہم نہ کرنے پر فرانس، جرمنی اور اٹلی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور کہا تھا کہ وہ روس کے صدر کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
اس ماہ کے شروع میں فرانس کے صدر نے کہا تھا کہ روس کو اس فوجی جارحیت پر رسوا نہیں کیا جانا چاہیے اور ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ صدر ولادمیر پوتن کو اپنی اس غلطی سے نکالنے کے لیے باعزت راستہ ملنا چاہیے۔
دریں اثنا سابق روسی صدر دمتری میدادیو جو آجکل روس کی سیکیورٹی کونسل کے نائب چیئرمن ہیں انہوں نے انتہائی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے یوکرین کا دورہ کرنے والے یورپی ملکوں کے رہنماؤں پر اپنے ٹوئٹر پیغامات میں تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
Comments are closed.