یورپین خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انڈو پیسیفک علاقہ 21ویں صدی کا کشش ثقل کا مرکز (سینٹر آف گریویٹی) بننے جا رہا ہے، اسی علاقے میں مستقبل کی نئی تاریخ لکھی جائے گی، یہ بھی کہا کہ یورپین تعلقات میں بھارت چین کی جگہ نہیں لے سکتا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے سلوانیہ میں وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
یورپین وزرائے دفاع اور وزرائے خارجہ کے اجلاسوں کے بعد سلوانیہ کے وزیر خارجہ کے ہمراہ آخری پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وزراء نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات پر بہت غور کیا ہے۔
وزراء کا خیال ہے کہ ہمیں چین کے ساتھ ایک عملی، حقیقت پسندانہ اور مربوط نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔
ہمیں افغانستان کے بارے میں چین کے ساتھ انگیجمنٹ بڑھانی پڑے گی، کیونکہ ایک مقابل ہونے کے باوجود تجارت اور معاشی مسائل میں تعاون چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کا ایک اہم حصہ ہے۔
اس موقع پر انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ آج کی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ساتھ ہم نے انڈو پیسیفک خطے میں جو کچھ ہورہا ہے، اس پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس ماہ کے آخر تک انڈو پیسیفک اسٹریٹجی کے متعلق یورپین کمیشن کے ساتھ مل کر اپنے کام کو دوبارہ شروع کرنے والے ہیں۔
جوزپ بوریل نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ ہم نے ہندوستانی وزیر خارجہ کے ساتھ اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ دنیا کے اس حصے میں کیا ہو رہا ہے جو 21ویں صدی میں کشش ثقل کا مرکز بننے والا ہے۔ انڈو پیسیفک کا یہ علاقہ جو بھارت سے شروع ہوکر کیلیفورنیا میں ختم ہورہا ہے، دنیا کا وہ حصہ بننے جا رہا ہے جہاں تاریخ لکھی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے جس میں اب تاریخ لکھی جارہی ہے، ہم نے بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ وہاں کی صورتحال، طالبان کے برتاؤ کے طریقے اور وہاں سے ہجرت کے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کرتے ہوئے ان سے اپنے خدشات شیئر کیے ہیں۔
بعد ازاں ایک سوال کے جواب میں یورپین اعلیٰ نمائندے نے اس بات سے اختلاف کیا کہ یورپین تعلقات میں بھارت چین کی جگہ لینے کی کوشش کررہا ہے۔
انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ دو مختلف اور علیحدہ ممالک ہیں، بھارت ایک انڈو پیسیفک جبکہ چائنہ ایک ایشین ملک ہے، دونوں کا مختلف نقطہ نظر اور کردار ہے، بھارت چین کی جگہ نہیں لے سکتا۔
انہوں نے اس موقع پر مزید واضح کیا کہ دونوں کے ہی یورپ سے تجارتی تعلقات ہیں، لیکن ہم بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافہ چاہتے ہیں۔
اس پریس کانفرنس میں یورپین خارجہ امور کے سربراہ نے بیلاروس پر الزام عائد کیا کہ وہ جان بوجھ کر مہاجرین کو یورپ میں داخل ہونے کے لیے اکسا رہے ہیں اور اسے اپنے یورپین ہمسایوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ وقت کی کمی کے باعث گلف ممالک کے ساتھ تعلقات پر آج کے اجلاس میں گفتگو نہیں ہوسکی کیونکہ افغانستان ہمارا بہت سا وقت لے گیا۔
Comments are closed.