یمن: صنعا میں خیراتی رقم کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے کم از کم 78 افراد ہلاک

صنعا بھگڈر

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, ڈیوڈ گریٹن اور جارج رائٹ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

یمن کے حکام کا کہنا ہے کہ یمن کے باغیوں کے زیر قبضہ دارالحکومت صنعا کے ایک سکول میں رمضان کے سلسلے میں خیراتی رقم کی تقسیم کے دوران بھگڈر مچنے سے خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 78 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

یہ واقعہ بدھ کو دیر گئے رات باب ال یمن کے علاقے کی تنگ گلی میں اس وقت پیش آیا جب سینکڑوں افراد ایک تاجر سے خیراتی رقم لینے کے لیے پہنچے تھے۔

اس واقعے سے متعلق منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ کچلے جانے کے بعد شیخ و پکار کر رہے ہیں جبکہ دیگر افراد انھیں باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بعدازاں سامنے آنے والی فوٹیج میں درجنوں لاشیں زمین پر پڑی دکھائی دی اور اس کے ساتھ ساتھ سیڑھیوں پر چوتے اور کپڑے بکھرے نظر آئے۔

حوثی باغیوں کی تحریک کے عہدیداروں نے اس واقعے کی ذمہ داری منتظمین پر عائد کرتے ہوئے اسے مقامی حکام کے ساتھ رابطہ کاری میں ناکامی قرار دیا اور منتظمن کو حراست میں لیے جانے کے بارے میں بتایا ہے۔

یمن سنہ 2015 سے شروع ہونے والی خانہ جنگی سے تباہ حال ہے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے ملک کے مغربی علاقوں کا کنٹرول بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت سے چھین لیا تھا اور سعودی زیر قیادت اتحاد نے اس کی حکمرانی کو بحال کرنے کی کوشش میں مداخلت کی تھی۔

اس لڑائی میں اب تک مبینہ طور پر 150,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس نے دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کو جنم دیا ہے۔ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں یمن کی دو تہائی آبادی یعنی 21.7 ملین افراد کو کسی نہ کسی شکل میں امداد کی ضرورت ہے۔

جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کے باعث بہت سے لوگوں کے لیے خوراک اور دیگر ضروری اشیا خریدنا ممکن نہیں رہا ہے۔

بدھ کی رات وسطی صنعا میں قائم معاین سکول میں جب ایک تاجر کی جانب سے عیدالفطر کے تہوار سے قبل خیرات و زکوٰۃ دینے کا بتایا گیا تو سینکڑوں افراد وہاں پہنچے تھے۔

حوثیوں کی سپریم ریولوشنری کونسل کے سربراہ محمد علی الحوثی نے ٹوئٹر پر ایک تصویر پوسٹ کی جس میں بظاہر سینکڑوں افراد کچلے جانے سے قبل سکول کے باہر قطار میں کھڑے دیکھے گئے تھے۔

محمد علی الحوثی کا کہنا ہے کہ تاجر نے لوگوں کو سکول کے پچھلے گیٹ پر بلایا جو کہ ایک تنگ گلی میں ہے اور وہاں تک پہنچے کے لیے راستے میں سیڑھیاں تھیں۔ جس کی وجہ سے وہاں ہجوم اکٹھا ہوا اور جب سکول کا دروازہ کھلا تو بھگڈر مچ گئی۔

انھوں نے سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد کو حوثی باغیوں کے خلاف عسکری کارروائی اور ملک کی ناکہ بندی کرنے کی وجہ سے ’معاشی تباہی‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

صنعا بھگڈر

،تصویر کا ذریعہReuters

28 سالہ الہ سعید، جو بھگڈر میں زخمی ہونے والوں میں شامل تھیں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’بہت سے لوگ ایسے تھے جو خیراتی رقم وصول کرنے آئے تھے۔‘

’لوگ ایک دوسرے کے اوپر گر رہے تھے اور اس تمام دھکم پیل کے باعث میرا سر دیوار سے ٹکرا گیا۔‘

امریکی خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے دو عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ حوثی فورسز نے ہجوم پر قابو پانے کی کوشش میں ہوائی فائرنگ کی اور بظاہر اس کے نتیجے میں گولیاں ایک بجلی کے تار سے ٹکرا گئیں جس کے نتیجے میں دھماکہ ہوا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس سے خوف و ہراس پھیل گیا جس کی وجہ سے بھگڈر مچی۔

تاہم عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ حوثیوں نے بھگڈر مچنے کے بعد ہوائی فائرنگ کی تھی تاکہ ہلاک ہونے والوں اور زخمیوں کی مدد کے لیے راستہ صاف کیا جا سکے۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ہجوم کو تنگ گلی میں جمع ہونے پر مجبور کیا گیا تھا کیونکہ سکول کا مرکزی دروازہ بند تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ بھگڈر اس وقت شروع ہوئی جب ان افراد جنھوں نے اپنی رقم لے لی تھی اور واپس جانے کی کوشش کر رہے تھے انھوں نے قطار میں موجود لوگوں کو سیڑھیوں پر دھکیلا۔

وزارت صحت کے ایک اہلکار نے بتایا کہ بھگڈر کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 78 افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

وزارت صحت کے مطابق اس واقعے میں 77 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 13 جمعرات کو ہسپتال میں تشویشناک حالت میں تھے، جبکہ باقیوں کو علاج کے بعد فارغ کر دیا گیا تھا۔

بھگڈر میں زخمی ہونے والے ایک نوجوان نے ہسپتال میں حوثی باغیوں کے زیر انتظام المسیرہ ٹی وی کو بتایا ’وہاں ایک بہت بڑا ہجوم تھا۔ وہ مجھ پر گرے، اور میں زخمی ہو گیا۔‘

المسیرہ ٹی وی کے مطابق، حوثیوں کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے صدر مہدی المشاط نے متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا اور واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔

دریں اثنا حوثیوں کی جنرل زکوٰۃ اتھارٹی کے سربراہ نے کہا کہ وہ ہلاک ہونے والوں کے خاندان کو دو ہزار ڈالر ادا کریں گے، جبکہ زخمیوں کو تقریباً 400 ڈالر دیے جائیں گے۔

یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہانس گرنڈبرگ نے کہا کہ وہ ’عید کے موقع پر بھگدڑ کے المناک واقعے سے بہت دکھی اور غمزدہ ہیں۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مشرق وسطیٰ کی ڈپٹی ڈائریکٹر گریزیا کیریسیا نے اس سانحے کی فوری، غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس ہولناک واقعے کے متاثرین کے لیے انصاف ہونا چاہیے، جنھوں نے اس کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کی ہے۔ اور اس واقعے سے بچاؤ ہو سکتا تھا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ