امریکی شہریوں کی رہائی کے بدلے ایران کو 6 ارب ڈالر کی ادائیگی اور ایرانی قیدیوں کی رہائی کی ڈیل کیا ہے؟
امریکہ نے ایران میں زیرِ حراست پانچ امریکی باشندوں کی رہائی کے عوض دنیا کے بینکوں میں منجمد 6 ارب ڈالر کی ایران کو ادائیگی کی منظوری دے دی ہے۔
یاد رہے کہ جوہری پروگرام کے تناظر میں ایران عالمی پابندیوں کی زد میں ہے اور امریکہ اور دیگر ممالک میں موجود اس کے اثاثے اور بینکوں میں پڑی رقوم منجمد ہیں، یعنی سادہ الفاظ میں ایران کو غیرممالک میں موجود اپنی رقوم اور اثاثوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کانگریس کو بتایا کہ 6 ارب ڈالر کی یہ رقم ایران کو ’محدود فائدہ‘ فراہم کرے گی کیونکہ اسے صرف عوامی فلاح کی غرض سے استعمال کیا جا سکے گا۔
انھوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ امریکی شہریوں کی رہائی کے عوض امریکا اپنے ملک میں زیر حراست پانچ ایرانیوں کو بھی رہا کرے گا۔۔
تاہم ریپبلکنز کی جانب سے اس اقدام کی مذمت کی گئی ہے۔
ایک سینیٹر نے صدر جو بائیڈن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’دہشت گردی کی دنیا کی سب سے بدترین سرپرستی کرنے والی ریاست کو تاوان ادا کر رہے ہیں۔‘
گذشتہ ماہ امریکی حکام نے کہا تھا کہ تہران کی ایون جیل میں مقید چار ایرانی نژاد امریکی شہریوں کو نکال کر مختلف مقامات پر نظر بند کر دیا گیا۔
ایک وکیل کی جانب سے تین قیدیوں کے نام سیامک نمازی، عماد شرگی اور مراد تہباز بتائے گئے ہیں۔ یہ ایرانی نژاد امریکی شہری ہیں جو مختلف الزامات کے تحت ایران میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ تاہم دیگر دو افراد کی شناخت فی الحال نہیں ہو سکی ہے۔
یاد رہے کہ سنہ 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدہ معطل کرتے ہوئے معاشی پابندیاں بحال کر دی تھیں۔ اُس وقت سے دنیا بھر کے بینکوں میں موجود وہ اربوں ڈالر منجمد کر دیے گئے تھے جو تیل اور دیگر برآمدات کے بدلے میں مختلف ممالک کی جانب سے ایران کو ادا کیے جانے تھے۔
امریکہ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے بدلے دی جانے والی اس چھوٹ کا مطلب ہے کہ یورپ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے بینکوں کو جنوبی کوریا میں رکھے گئے ایران کے 6 ارب ڈالر قطر کے مرکزی بینک میں منتقل کرنے پر کسی بھی قسم کی پابندی یا سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے رواں ہفتے کے آغاز میں کانگریس کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ ’ان رقوم کو جمہوریہ کوریا میں منجمد کیے جانے والے ایرانی بینک اکاؤنٹس سے قطر میں انسانی ہمدردی کے تحت قائم کردہ اکاؤنٹس میں منتقل کرنے کی اجازت دینا ان امریکی شہریوں کی رہائی کے لیے ضروری ہے۔‘
امریکی وزیر خارجہ نے گذشتہ ماہ اس بات کی وضاحت کی تھی کہ قطر نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے کہ ایران کی جانب سے فنڈز کا استعمال ’صرف اور صرف فلاحی کاموں کے لیے کیا جائے گا۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایران کو 6 ارب ڈالر کے فنڈز تک براہ راست رسائی حاصل نہیں ہو گی اور امریکہ کی طرف سے اس سارے معاملے کی ’کڑی نگرانی‘ ہو گی کہ یہ رقم کہاں خرچ ہو گی۔
ان سب یقین دہانیوں کے باوجود، خارجہ امور کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین نے بائیڈن انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس ڈیل کو ’6 ارب ڈالر کا یرغمالی معاہدہ‘ قرار دیا ہے۔
خارجہ امور کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین مائیکل میکول نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ’ایران میں زیر حراست امریکی بے گناہ ہیں، جنھیں فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے اس بات پر گہری تشویش ہے کہ ایران کے لیے 6 ارب ڈالر کے فنڈز کی منتقلی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے پابندیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ، جو کہ دہشت گردی کی دنیا کے سب سے بڑے ریاستی سرپرست ہیں، امریکہ کے مخالفین کو مستقبل میں یرغمال بنانے کے لیے براہ راست ترغیب دیتا ہے۔‘
وائٹ ہاؤس کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے اس حالیہ فیصلہ کی وضاحت میں کہا کہ ’یہ ایک حساس معاملہ ہے جس پر رائے کا اظہار سوچ سمجھ کر کرنا ضروری ہے۔‘
اس دوران ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے امید ظاہر کی کہ قیدیوں کا تبادلہ ’جلد‘ ہو جائے گا۔
مگر سوال یہ ہے کہ اس ڈیل کے تحت رہائی پانے والوں میں کون شامل ہو گا؟
سیامک نمازی
51 سالہ سیامک نمازی دبئی میں قائم کریسنٹ پیٹرولیم میں سٹریٹجک پلاننگ کے سربراہ کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ ایرانی نژاد امریکی شہری ہیں۔
انھیں اکتوبر 2015 میں پاسداران انقلاب نے گرفتار کیا تھا، جب کہ اُن کے والد 86 سالہ باقر نمازی کو فروری 2016 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب جب وہ اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے جیل گئے۔
اکتوبر 2016 میں، ان باپ، بیٹا ایرانی عدالت نے ’ملک دشمن ریاست کے ساتھ تعاون‘ کے جرم میں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
ان کے وکیل نے کہا کہ انھوں نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔ انھوں نے یہ بھی شکایت کی کہ انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا اور انھیں قانونی نمائندگی تک رسائی دینے سے انکار کیا گیا تھا۔
سیامک نے ایرانی حکام پر جیل میں تشدد کا الزام بھی عائد کیا تھا جبکہ قید کے دوران انھیں صحت سے متعلقہ مسائل کا سامنا بھی رہا۔
یاد رہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے سیامک نمازی سمیت دیگر امریکی شہریوں کو ایرانی قید سے چھڑوا کر جلد ملک لانے کا اعلان کیا تھا اور اس معاملے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا تھا۔
جنوری 2023 میں سیامک نے صدر جو بائیڈن کی جانب سے اس وعدے کو پورا نا کرنے پر بطور احتجاج ایرانی جیل میں بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔
تاہم امریکہ اور ایران میں قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کے بعد اب انھیں جیل سے نکال کر گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔
عماد شرگی
عماد شگری ایرانی نژاد امریکی تاجر ہیں۔
58 سالہ شرگی کو ابتدائی طور پر پاسداران انقلاب نے اپریل 2018 میں حراست میں لیا تھا، جب وہ ایرانی وینچر کیپیٹل فنڈ ’ساراوا‘ میں کام کر رہے تھے۔ انھیں اسی سال دسمبر میں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا اور انھیں بتایا گیا کہ عدالت نے انھیں جاسوسی کے الزامات سے بری کر دیا ہے۔
تاہم رہائی کے باوجود حکام نے انھیں اُن کا پاسپورٹ واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ان کے اہلخانہ نے بتایا کہ نومبر 2020 میں شرگی کو دوبارہ ایک عدالت نے طلب کیا گیا اور بتایا گیا کہ انھیں ایک مرتبہ پھر جاسوسی کا مجرم قرار دیا گیا ہے جس پر انھیں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم انھیں فوری طور پر حراست میں نہیں لیا گیا اور ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
تاہم جنوری 2021 میں ایک سرکاری حمایت یافتہ نیوز ایجنسی نے یہ اطلاع دی تھی کہ شرگی کو غیر قانونی طور پر ایران کی مغربی سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔
ان کی بیٹیوں نے اپریل 2021 میں واشنگٹن پوسٹ میں لکھا تھا کہ وہ جیل میں ’انتہائی تکلیف دہ اور خراب حالات میں ہیں‘ اور انھیں انتظامیہ کی نگرانی میں گھر والوں سے فون پر رابطے کی اجازت دی گئی تھی۔‘
مراد تہباز
مرد تہباز 67 سالہ تاجر اور جنگلی حیات کے تحفظ کے ماہر ہیں جن کے پاس امریکی اور برطانوی شہریت بھی ہے۔ انھیں جنوری 2018 میں ماحولیاتی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
حکام نے تہبازپر ماحولیاتی اور سائنسی منصوبوں کو انجام دینے کی آڑ میں ایران کے سٹریٹجک علاقوں کے بارے میں خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کا الزام لگایا۔
اکتوبر 2018 میں ان پر ’امریکہ کے ساتھ تعاون‘ اور تعلق کے جرم میں جاسوسی کا الزام لگایا گیا۔
نومبر 2019 میں انھیں قید کی سزا سنائی گئی اور مبینہ طور پر ’ناجائز آمدنی‘ واپس کرنے کا حکم دیا گیا۔
ہیومن رائٹس واچ نے اس بات کی مذمت کی کہ یہ ایک غیر منصفانہ ٹرائل تھا، جس کے دوران مدعا علیہ بظاہر اپنے خلاف شواہد کی مکمل ڈوزیئر دیکھنے سے قاصر تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے جنوری 2021 میں خبردار کیا تھا کہ قید کے دوران تہباز کی صحت مسلسل بگڑ رہی تھی اور انہیں مناسب علاج تک رسائی سے محروم رکھا گیا تھا۔
Comments are closed.