یحیٰی سنوار: ’خان یونس کے قصاب‘ کے نام سے مشہور حماس کے نئے سربراہ جن کی تعیناتی ’اسرائیل کے لیے پیغام ہے‘
- مصنف, رشدی عبالاوف اور ٹام بینیٹ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
’وہ انتہائی شاطر اور چالاک ہیں، ایک ایسا شخص جسے اپنی شخصیت کی کشش میں اضافہ کرنا اور اسے کم کرنا آتا ہے۔‘حماس کے نئے سربراہ یحیٰی السنوار کے بارے میں یہ الفاظ واشنگٹن انسٹیٹیوٹ آف نیئر ایسٹ پالیسی میں بطور ریسرچ فیلو کام کرنے والے احد یاری کے ہیں جو ماضی میں زیر حراست یحیٰی کا جیل میں چار بار انٹرویو کر چکے ہیں۔قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دو دن کے طویل مزاکرات کے بعد حماس نے اسماعیل ہنیہ کی جگہ یحیٰی السنوار کو نیا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد 2007 سے غزہ کی پٹی میں تنظیم کے قائد اب حماس کے سیاسی رہنما بن گئے ہیں۔اس بات کی تصدیق حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کی ہے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرق وسطی پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور ایران اپنے اتحادیوں سمیت اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا دھمکی دے رہا ہے جس کا الزام اسرائیل پر عائد تو کیا جا رہا ہے تاہم اب تک اسرائیل کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان نہیں دیا گیا۔
دوحہ میں دو دن کے دوران حماس کے اہم رہنماؤں کے درمیان اگلے سربراہ کی تعیناتی پر بحث ہوئی جس میں دو نام سامنے آئے۔ ایک نام محمد حسن درویش کا بھی تھا جو حماس کی شوری کونسل کے سربراہ ہیں لیکن اجلاس نے متفقہ طور پر السنوار کو چنا۔ حماس کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ اسرائیل کے لیے ایک پیغام ہے۔‘’انھوں نے اسماعیل ہنیہ کو قتل کر دیا جو معاملات حل کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اب انھیں السنوار کا سامنا ہو گا اور عسکری قیادت کا۔‘ اسماعیل ہنیہ کو خطے میں بین الاقوامی سفارت کار حماس کی دیگر قیادت کے مقابلے میں سمجھدار شخصیت مانتے تھے جو حماس کا اہم چہرہ تھے۔،تصویر کا ذریعہASRIRAN / UGC
یحیٰی السنوار کا بچپن اور گرفتاریاں
یحییٰ السنوار 61 برس کے ہیں اور انھیں عرف عام میں ’ابو ابراہیم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ غزہ کی پٹی کے جنوب میں خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والدین کا تعلق عسقلان سے تھا اور انھیں النکبہ یعنی اسرائیل کے قیام کے نتیجے میں سنہ 1948 میں بڑے پیمانے پر جبراً اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی تھی۔انھوں نے خان یونس کے ایک سیکنڈری سکول میں تعلیم حاصل کی تھی اور پھر غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی زبان میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔واشنگٹن انسٹیٹیوٹ آف نیئر ایسٹ پالیسی میں ریسرچ فیلو احد یاری جنھوں نے السنوار کا جیل میں چار بار انٹرویو کیا بتاتے ہیں کہ السنوار کے جوانی کے دنوں میں خان یونس ’اخوان المسلمون‘ نامی تنظیم کے گڑھ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیلی حکام کے مطابق انھوں نے بعد میں یہ بھی تسلیم کیا کہ انھوں نے ایک مشتبہ مخبر کو سزا اس طرح دی تھی کہ اس کے بھائی کو اسے زندہ درگور کرنے کا کہا تھا اور مٹی پھینکنے کے لیے آخر پر ان سے بیلچے کی جگہ چمچ کا استعمال کروایا تھا۔یاری کا کہنا تھا کہ ’وہ ایسے آدمی ہیں جن کے اردگرد ان کے حمایتی اور مداح اکھٹے ہو جاتے ہیں جن میں کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو صرف اس لیے ان کے ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان سے ڈرتے ہیں اور ان کے ساتھ لڑائی نہیں کرنا چاہتے۔‘سنہ 1988 میں السنوار نے مبینہ طور پر دو اسرائیلی فوجیوں کا اغوا اور ہلاکت کی منصوبہ بندی کی تھی۔ انھیں اسی سال گرفتار کیا گیا تھا اور اسرائیل میں انھیں 12 افراد کے قتل کے باعث چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
جیل میں گزرے سال
السنوار نے سنہ 1988 سے 2011 تک 22 سال جیل میں گزارے جو ان کی ادھیڑ عمر کا بڑا حصہ بنتا ہے۔ وہاں ان کا وقت کچھ عرصہ قیدِ تنہائی میں بھی گزرا اور اس کے باعث ان میں عسکریت پسند عنصر مزید شدت پکڑ گیا۔یاری کا کہنا ہے کہ ’وہ طاقت کے ذریعے اپنا دبدبہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے خود کو قیدیوں میں بطور رہنما منوایا اور جیل انتظامیہ سے ان کے لیے مذاکرات بھی کیے اور قیدیوں میں نظم و ضبط قائم کرنے کی کوشش بھی کی۔‘اسرائیلی حکومت کی جانب سے السنوار کے کردار کے بارے میں کیے گئے تجزیے کے مطابق وہ ایک ’جابر، دبدبے والے اور بااثر رہنما ہیں جن میں برداشت، چالاکی اور ساز باز کرنے اور تھوڑے وسائل پر گزارا کرنے کی غیر معمولی صلاحیتیں ہیں۔۔۔ وہ جیل میں بھی قیدیوں کے درمیان راز رکھتے تھے، اور ان میں ہجوم کی سربراہی کرنے کی صلاحیت تھی۔‘یاری کا السنوارکے بارے میں تجزیہ بھی دلچسپ ہے۔ یہ ان تمام ملاقاتوں کے بعد سامنے آیا ہے جو ان کے درمیان جیل میں ہوئی تھیں۔ یاری کا کہنا ہے کہ وہ ایک ’نفسیاتی مریض‘ ہیں۔ ’لیکن صرف یہ کہنا کہ السنوار نفسیاتی مریض ہیں، ایک غلطی ہو گی کیونکہ پھر آپ ان کے اس پراسرار اور پیچیدہ شخصیت کو نظر انداز کر جائیں گے۔‘یاری کہتے ہیں کہ وہ ’انتہائی شاطر اور چالاک ہیں، ایک ایسا شخص جسے اپنی شخصیت کی کشش میں اضافہ کرنا اور اسے کم کرنا آتا ہے۔‘جب السنوار ان سے بات کرتے ہوئے یہ کہتے کہ اسرائیل کو تباہ کرنا ضروری ہے تو وہ اس بات پر زور دیتے کہ فلسطین میں یہودیوں کی کوئی جگہ نہیں۔ ساتھ ہی مذاق میں یہ بھی کہہ دیتے کہ ’ہو سکتا ہے کہ ہم آپ کے لیے گنجائش نکال لیں۔‘جب السنوار جیل میں تھے تو انھوں نے عبرانی زبان پر عبور حاصل کر لیا تھا اور اسرائیلی اخبارات پڑھتے تھے۔ یاری کا کہنا ہے کہ سنوار ہمیشہ ان کے ساتھ عبرانی زبان میں بات کرنے کو ترجیح دیتے حالانکہ یاری خود عربی زبان بولنا جانتے تھے۔یاری بتاتے ہیں کہ ’وہ عبرانی زبان کو بہتر کرنا چاہتے تھے۔ میرے خیال میں وہ کسی ایسے شخص سے بات کر کے زبان میں مہارت حاصل کرنا چاہتے تھے جو جیل وارڈن سے بہتر عبرانی زبان بول سکیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
نظم و ضبط کی پابندی
مائیکل کے مطابق جب السنوار غزہ واپس گئے تو انھیں فوری طور پر بطور رہنما تسلیم کر لیا گیا۔ اس کا زیادہ تعلق اس بات سے تھا کہ انھوں نے حماس کے بانی لیڈر کے طور پر نام کمایا تھا اور انھوں نے اپنی زندگی کے 22 سال جیل میں گزارے تھے۔اس کے علاوہ ’لوگ ان سے ڈرتے تھے، یہ وہ شخص ہے جس نے لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا۔ وہ ایک ہی وقت میں بہت ظالم، جارح مزاج اور پرکشش شخصیت کے مالک ہیں۔‘یاری کا کہنا ہے کہ ’انھیں اچھی تقریر کرنی نہیں آتی لیکن جب وہ عوام سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہجوم میں سے ہی کوئی بول رہا ہے۔‘یاری کا کہنا تھا کہ جیل سے رہا ہونے کے فوراً بعد السنوار نے فوری طور پر عزالدین القسام بریگیڈز اور چیف آف سٹاف مروان عیسیٰ سے اتحاد کر لیا۔سنہ 2013 میں انھیں غزہ میں حماس کے سیاسی بیورو کارکن منتخب کیا گیا جس کے بعد سنہ 2017 میں انھیں اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔السنوار کے چھوٹے بھائی محمد نے بھی حماس کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ وہ اسرائیل کی جانب سے متعدد قاتلانہ حملوں میں بچنے میں کامیاب ہوئے لیکن پھر حماس نے سنہ 2014 میں ان کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔ اس حوالے سے ایسی میڈیا رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ وہ اب بھی زندہ ہیں اور حماس کے عسکری شعبے میں متحرک ہیں اور غزہ میں سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ممکنہ طور پر سات اکتوبر کے حملوں میں بھی کردار ادا کر چکے پیں تاہم اس حوالے سے تاحال کچھ بھی واٰضح نہیں۔
اسرائیل کا پچھتاوا اور ایران سے قربت
اسرائیلی ڈیفنس اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں سے اکثر کا اب بھی ماننا ہے کہ السنوار کو یرغمالی اسرائیلی فوجی کے بدلے جیل سے چھوڑنا سنگین حماقت تھی۔اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ انھیں یہ کہہ کر تحفظ کا جھوٹا احساس دلوایا گیا کہ حماس کو معاشی طور پر مضبوط کر کے اور مزید ورک پرمٹ دے کر تحریک کی جنگ کرنے کی صلاحیت ماند پڑ سکتی ہے تاہم یہ ایک بہت بڑی غلطی ثابت ہوئی۔یاری کا کہنا ہے کہ ’وہ اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جو فلسطین کو آزاد کروانا چاہتے ہیں، وہ غزہ میں لوگوں کی معاشی صورتحال بہتر کرنے اور انھیں سوشل سروسز دینے کے حق میں نہیں۔‘سنہ 2015 میں امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے باضابطہ طور سنوار کا نام ’عالمی دہشتگردوں کی فہرست‘ میں ڈال دیا تھا۔ مئی 2021 میں غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملے میں ان کے گھر اور دفتر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اپریل 2022 میں ٹیلی ویژن پر ایک خطاب میں انھوں نے لوگوں کو کسی بھی طرح سے اسرائیل پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی۔سنوار ایران سے بھی خاصے قریب ہیں۔ ایک شیعہ ملک اور ایک سنی تنظیم کے درمیان اتحاد کبھی بھی واضح نہیں ہوتا لیکن دونوں کا ایک ہی ہدف ہے اور یہ کہ اسرائیل کو ختم کرنا ہے اور یروشلم کو اسرائیلی قبضے سے ‘آزاد’ کروانا ہے۔السنوار نے سنہ 2021 کی ایک تقریر میں ایران کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ایران نہ ہوتا تو فلسطین میں مزاحمت موجود صلاحیتوں پر نہ چلائی جا سکتی۔‘لوواٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ واضح ہے کہ اگر وہ ہلاک ہوتے ہیں تو یہ بڑا نقصان ہو گا لیکن ان کی جگہ کوئی اور آ جائے گا اور اس کے لیے بھی انتظام موجود ہے۔ یہ ویسا نہیں، جیسے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا تھا۔ حماس میں دیگر سیاسی اور عسکری رہنما موجود ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.