’ہیرے ہمارے ہاتھوں میں آ چکے ہیں‘: چار یرغمالیوں کی رہائی کے لیے غزہ میں خفیہ اسرائیلی آپریشن کیسے مکمل ہوا
یرغمالیوں کو رہا کروانے کے لیے کیے گئے آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے میں ہفتوں لگے تھے اور اس کی اجازت گذشتہ ہفتے اسرائیل کی جنگی کابینہ نے دی تھی۔ اس آپریشن کو ’سیڈز آف سمر‘ کا نام دیا گیا تھا۔سنیچر کو مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بجے دن کی روشنی میں فلسطینیوں کے بھیس میں دو اسرائیلی ٹیموں کے اہلکار غزہ میں داخل ہوئے۔ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ اہلکار کم از کم ایک ٹرک اور سویلین کاروں میں سوار ہو کر غزہ میں داخل ہوئے۔غزہ کے گنجان آباد علاقے نصیرت کی سڑکوں پر اس وقت کافی رش تھا اور لوگ قریبی بازار میں شاپنگ کرنے میں مصروف تھے۔اس علاقے میں واقع دو عمارتیں اسرائیلی فوجی اہلکاروں کا ہدف تھیں اور یہ دونوں عمارتیں ایک دوسرے سے سینکڑوں میٹر کے فاصلے پر واقع تھیں۔عصام جمیل فاروقی نامی ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ کچھ اسرائیلی فوجی ایک فرنیچر سے بھرے ٹرک میں آئے تھے۔ان کے مطابق وہاں پہنچنے والے دو افراد سادہ کپڑوں میں، جبکہ تقریباً 10 فوجی وردی میں ملبوس تھے اور انھوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے ڈھکا ہوا تھا۔’اچانک ہی فوجی اہلکار اس (فرنیچر کے ٹرک) سے باہر آئے اور گولیاں چلانا شروع کردیں۔‘ ہسپتال میں زیرِ علاج عصام کے مطابق انھیں بھی پیٹ اور سینے میں تین گولیاں لگیں تھیں۔ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ اسرائیلی فوج اہلکاروں کی دوسری ٹیم بھی ایک ٹرک میں آئی تھی جس کے اوپر گدے لدے ہوئے تھے۔ ان فوجی اہلکاروں نے ایک اپارٹمنٹ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک سِیڑھی کا استعمال کیا۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ 25 سالہ نوا ارگمنانی کی رہائی کے لیے کیا گیا آپریشن باآسانی مکمل کر لیا گیا تھا کیونکہ اسرائیلی فوجی اہلکاروں نے اغوا کاروں کو سرپرائر دیا اور تمام گارڈز کو فوری ہلاک کر دیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے سُکھ کے ساتھ تین یرغمالیوں کی رہائی کے بعد یہ الفاظ سُنے: ’ہیرے ہمارے ہاتھوں میں آ چکے ہیں۔‘لیکن ان تین یرغمالیوں کو غزہ سے باہر نکالتے وقت حالات میں بگاڑ پیدا ہوا۔ آئی ڈی ایف کے مطابق اس وقت اسرائیلی فوجی اہلکاروں پر فلسطینی جنگجوؤں نے حملہ کر دیا تھا۔ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ اسرائیلی فوجی اہلکار جن گاڑیوں میں یرغمالیوں کے ہمراہ واپس جا رہے تھے، ان میں ایک گاڑی خراب ہوگئی۔اس موقع پر اسرائیلی فوج نے اپنے اہلکاروں کی مدد کے لیے فضا، سمندر اور زمین سے پوری طاقت کے ساتھ غزہ میں حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ میزائلوں کی سیٹیوں اور گولیوں کی گھن گرج میں لوگ چھلانگیں لگا کر خود کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔بعد میں منظرِعام پر آنے والی ویڈیوز میں سڑک پر لاشوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان ہی لمحات میں زیادہ تر فلسطینی مارے گئے۔واقعے کے ایک اور عینی شاہد محمد محمود حامد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بہت سارے لوگ سڑکوں پر تھے، ڈرے ہوئے تھے اور یہاں وہاں بھاگ رہے تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے قیامت کا دن آ گیا ہے اور کسی کو نہیں پتا تھا کہ وہ آخر جائیں کہاں۔‘’وہاں اتنے لوگ تھے کہ ہم ہر کسی کے پاس پہنچنے سے بھی قاصر تھے، ہم زخمی لوگوں کو ریسکیو نہیں کر پا رہے تھے اور لاشوں کو بھی اُٹھا نہیں پا رہے تھے۔ لوگ زخمی افراد کو بچانے سے بھی گھبرا رہے تھے کیونکہ وہاں اتنی فائرنگ اور بمباری ہو رہی تھی۔‘،تصویر کا ذریعہReuters
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.