’ہیرے ہمارے ہاتھوں میں آ چکے ہیں‘: چار یرغمالیوں کی رہائی کے لیے غزہ میں خفیہ اسرائیلی آپریشن کیسے مکمل ہوا،تصویر کا ذریعہReuters
،تصویر کا کیپشنآئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ 25 سالہ نوا ارگمنانی کی رہائی کے لیے کیا گیا آپریشن باآسانی مکمل کر لیا گیا تھا
2 گھنٹے قبلاسرائیل نے دو دن قبل وسطی غزہ سے اپنے چار شہریوں کو بازیاب کروایا تھا اور اس ریسکیو مشن کے دوران کیا کیا ہوتا رہا، اس کی تفصیلات اب منظرِ عام پر آنا شروع ہو گئی ہیں۔حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی آپریشن کے دوران کم از کم 274 فلسطینی ہلاک اور تقریباً 700 زخمی ہوئے ہیں۔اسرائیلی فوج کے خصوصی دستے نے یرغمال بنائی گئی خاتون نوا ارگمانی کی رہائی کے لیے ’سرپرائز‘ کے عنصر کا استعمال کیا، تاہم تین مرد یرغمالیوں کی رہائی کے لیے آپریشن کرنے والی ایک دوسری اسرائیلی ٹیم کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔اس اسرائیلی ٹیم نے اپنی حفاظت کے لیے فضائی مدد طلب کی جس کے نتیجے میں قریبی پُرہجوم سڑک پر درجنوں فلسطینی مارے گئے۔

یرغمالیوں کو رہا کروانے کے لیے کیے گئے آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے میں ہفتوں لگے تھے اور اس کی اجازت گذشتہ ہفتے اسرائیل کی جنگی کابینہ نے دی تھی۔ اس آپریشن کو ’سیڈز آف سمر‘ کا نام دیا گیا تھا۔سنیچر کو مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بجے دن کی روشنی میں فلسطینیوں کے بھیس میں دو اسرائیلی ٹیموں کے اہلکار غزہ میں داخل ہوئے۔ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ اہلکار کم از کم ایک ٹرک اور سویلین کاروں میں سوار ہو کر غزہ میں داخل ہوئے۔غزہ کے گنجان آباد علاقے نصیرت کی سڑکوں پر اس وقت کافی رش تھا اور لوگ قریبی بازار میں شاپنگ کرنے میں مصروف تھے۔اس علاقے میں واقع دو عمارتیں اسرائیلی فوجی اہلکاروں کا ہدف تھیں اور یہ دونوں عمارتیں ایک دوسرے سے سینکڑوں میٹر کے فاصلے پر واقع تھیں۔عصام جمیل فاروقی نامی ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ کچھ اسرائیلی فوجی ایک فرنیچر سے بھرے ٹرک میں آئے تھے۔ان کے مطابق وہاں پہنچنے والے دو افراد سادہ کپڑوں میں، جبکہ تقریباً 10 فوجی وردی میں ملبوس تھے اور انھوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے ڈھکا ہوا تھا۔’اچانک ہی فوجی اہلکار اس (فرنیچر کے ٹرک) سے باہر آئے اور گولیاں چلانا شروع کردیں۔‘ ہسپتال میں زیرِ علاج عصام کے مطابق انھیں بھی پیٹ اور سینے میں تین گولیاں لگیں تھیں۔ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ اسرائیلی فوج اہلکاروں کی دوسری ٹیم بھی ایک ٹرک میں آئی تھی جس کے اوپر گدے لدے ہوئے تھے۔ ان فوجی اہلکاروں نے ایک اپارٹمنٹ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک سِیڑھی کا استعمال کیا۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ 25 سالہ نوا ارگمنانی کی رہائی کے لیے کیا گیا آپریشن باآسانی مکمل کر لیا گیا تھا کیونکہ اسرائیلی فوجی اہلکاروں نے اغوا کاروں کو سرپرائر دیا اور تمام گارڈز کو فوری ہلاک کر دیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسنیچر کو مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بجے فلسطینیوں کے بھیس میں دو اسرائیلی ٹیموں کے اہلکار غزہ میں داخل ہوئے
اسرائیل کے چینل 12 کے مطابق نوا ارگمانی کے خاندان کا کہنا ہے کہ آپریشن والی صبح اغوا کاروں نے ان (نوا) کو برتن دھونے کی ہدایات دی تھیں۔چینل 12 کے مطابق نوا نے اچانک اسرائیلی فوجیوں کو دیکھا جنھوں نے نقاب سے اپنے منہ چھپائے ہوئے تھے اور انھوں نے کہا ’نوا، ہم اسرائیلی فوجی ہیں۔‘ایک فوجی نے نوا سے پوچھا کہ کیا وہ انھیں کندھے پر اُٹھا سکتے ہیں۔ یرغمال بنائی گئی خاتون کو اس پل اندازہ ہوا کہ ان کے اطراف چل کیا رہا ہے۔اسرائیلی فوجی اہلکار نوا کو وہاں سے کار میں لے گئے اور بعد میں انھیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے غزہ سے نکالا گیا۔ ان کی 246 روزہ آزمائش اب اختتام کو پہنچ چکی ہے۔آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ یرغمال بنائے گئے تین مزید افراد 40 سالہ شلومی زو، 27 سالہ آندرے کوزلوو اور 21 سالہ الموگ مائر کی رہائی کے لیے شروع کیا جانے والا دوسرا آپریشن زیادہ مشکل تھا کیونکہ اب یہ مشن ایک سرپرائز نہیں رہا تھا۔اسرائیلی فوج کے مطابق یہ تین افراد ایک خاندان کے پاس موجود تھے۔ اس خاندان کے حوالے سے بھی تفصیلات اب منظرِعام پر آ رہی ہیں۔’یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر‘ نامی تنظیم کے چیئرمین رامی عبدو کہتے ہیں کہ ابتدائی شواہد کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوجی اہلکار ایک سیڑھی کا استعمال کر کے ڈاکٹر احمد الجمال کے گھر میں داخل ہوئے۔ڈاکٹر احمد الجمال کے 36 سالہ بیٹے عبداللہ الجمال ایک وقت میں صحافی تھے اور ماضی میں حماس کے ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کر چکے تھے۔رامی عبدو کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوجی اہلکاروں نے احمد، عبداللہ اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔آئی ڈی ایف کے مرکزی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری اس وقت ویڈیو لنک کے ذریعے براہ راست نہ صرف اس آپریشن کو سُن رہے تھے بلکہ دیکھ بھی رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یرغمالوں کا کوڈ نیم ’ہیرے‘ رکھا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے سُکھ کے ساتھ تین یرغمالیوں کی رہائی کے بعد یہ الفاظ سُنے: ’ہیرے ہمارے ہاتھوں میں آ چکے ہیں۔‘لیکن ان تین یرغمالیوں کو غزہ سے باہر نکالتے وقت حالات میں بگاڑ پیدا ہوا۔ آئی ڈی ایف کے مطابق اس وقت اسرائیلی فوجی اہلکاروں پر فلسطینی جنگجوؤں نے حملہ کر دیا تھا۔ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ اسرائیلی فوجی اہلکار جن گاڑیوں میں یرغمالیوں کے ہمراہ واپس جا رہے تھے، ان میں ایک گاڑی خراب ہوگئی۔اس موقع پر اسرائیلی فوج نے اپنے اہلکاروں کی مدد کے لیے فضا، سمندر اور زمین سے پوری طاقت کے ساتھ غزہ میں حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ میزائلوں کی سیٹیوں اور گولیوں کی گھن گرج میں لوگ چھلانگیں لگا کر خود کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔بعد میں منظرِعام پر آنے والی ویڈیوز میں سڑک پر لاشوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان ہی لمحات میں زیادہ تر فلسطینی مارے گئے۔واقعے کے ایک اور عینی شاہد محمد محمود حامد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بہت سارے لوگ سڑکوں پر تھے، ڈرے ہوئے تھے اور یہاں وہاں بھاگ رہے تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے قیامت کا دن آ گیا ہے اور کسی کو نہیں پتا تھا کہ وہ آخر جائیں کہاں۔‘’وہاں اتنے لوگ تھے کہ ہم ہر کسی کے پاس پہنچنے سے بھی قاصر تھے، ہم زخمی لوگوں کو ریسکیو نہیں کر پا رہے تھے اور لاشوں کو بھی اُٹھا نہیں پا رہے تھے۔ لوگ زخمی افراد کو بچانے سے بھی گھبرا رہے تھے کیونکہ وہاں اتنی فائرنگ اور بمباری ہو رہی تھی۔‘،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنآئی ڈی ایف کے مرکزی ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری اس وقت ویڈیو لنک کے ذریعے براہ راست آپریشن کو دیکھ رہے تھے
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان کے جہاز نے ’آپریشن کی کامیابی کے لیے درجنوں عسکری اہداف کو نشانہ بنایا۔‘وسطی غزہ کے دو ہسپتال الاقصیٰ اور العودہ پہلے سے ہی دباؤ میں کام کر رہے تھے اور اس آپریشن کے بعد وہاں مزید زخمیوں بشمول بچوں کا رش بڑھ گیا۔العودہ ہسپتال میں ماتھے پر پٹی باندھے محمد العصر اپنی بیٹی کے سرہانے بیٹھے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ ’میری دو بیٹیاں ماری گئی ہیں اور باقی زخمی ہیں۔‘’میری اہلیہ، میری بیٹیاں رغداد، ریم، مناہ، جنت یہ سب زخمی ہوئیں ہیں، جبکہ دو بیٹیاں شہید ہوئی ہیں۔ ‘فلسطینوں کے لیے بنائے گئے اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے ڈائریکٹر سیم دوز کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم کے بھی کئی افراد اس حملے کے دوران پھنس گئے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے درجنوں ملازمین حقیقتاً کئی گھنٹوں تک چھپے رہے کیونکہ اطراف میں ہیلی کاپٹروں، ٹینکوں، اور زمینی فوج کے ذریعے شدید لڑائی جاری تھی۔‘اس وقت یہ بھی بات کی جا رہی ہے کہ دورانِ قید چاروں یرغمالیوں کو اس حالت میں رکھا گیا تھا۔آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ ان چاروں افراد کو پنجروں میں نہیں بلکہ کمروں میں قید کر کے رکھا گیا تھا۔اسرائیل کے چینل 12 کے مطابق نوا ارگمانی نے اپنے خاندان کو بتایا کہ انھیں دوران قید آٹھ مہینوں کے دوران سرنگوں میں نہیں رکھا گیا تھا بلکہ اس دوران وہ مختلف اپارٹمنٹس میں رہیں۔نوا کہتی ہیں کہ انھیں یاد ہے کہ انھوں نے کئی مواقعوں پر سوچا کہ وہ مرنے والی ہیں، خصوصاً تب جب جس عمارت میں وہ رہ رہیں تھیں اس پر میزائل داغا گیا۔نوا ارگمانی کہتی ہیں کہ دورانِ قید انھیں کھانا تو دیا جاتا تھا لیکن وہ ناکافی ہوتا تھا اور انھیں شاز و نادر ہی باہر جا کر تازہ ہوا میں سانس لینے کی اجازت ہوتی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ انھیں صرف فلسطینی خاتون کے بھیس میں باہر جانے کی اجازت تھی اور ان آٹھ مہینوں میں انھیں صرف چند مرتبہ نہانے کی اجازت دی گئی تھی۔چار یرغمالیوں کی رہائی پر اسرائیل میں نہ صرف جشن منایا گیا ہے بلکہ فوج کی بھی بھرپور تعریفیں کی گئی ہیں۔دوسری جانب غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں پر غم و غصہ پایا جاتا ہے، کیونکہ اس آپریشن کے نیتجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے سبب 9 جون کا دن ایک خونی دن میں تبدیل ہو گیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}