ہیرڈز کے سابق ارب پتی مالک پر ریپ کے الزامات: ’محمد الفائد ایک حیوان تھا، ایک جنسی درندہ‘

  • مصنف, کیسی کورنش ٹریسٹریل، کیٹن سٹون، ایریکا گارنال اور سارہ بیل
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

پانچ خواتین نے برطانوی ارب پتی اور لگژری سٹور ہیرڈز کے سابق مالک محمد الفائد پر ملازمت کے دوران ریپ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ یاد رہے کہ مصر سے تعلق رکھنے والے محمد الفائد گزشتہ سال 94 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے تاہم بی بی سی نے 20 سے زیادہ ایسی خواتین سے بات کی، جن کے مطابق محمد الفاید نے ہیرڈز میں ملازمت کے دوران انھیں مبینہ طور پر ریپ سمیت جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔’الفائد: پریڈیٹر ایٹ ہیرڈز‘ کے عنوان سے تیار ہونے والی دستاویزی فلم کے دوران یہ شواہد سامنے آئے کہ الفائد کی ملکیت میں ہوتے ہوئے ہیرڈز کی انتظامیہ نے ان مبینہ الزامات کو چھپانے کی کوشش کی۔ ہیرڈز کے موجودہ مالکان کا کہنا ہے کہ یہ الزامات ’چونکا دینے والے ہیں‘ اور انتظامیہ نے معافی بھی مانگی ہے۔ان خواتین کی نمائندگی کرنے والے بیرسٹر بروس ڈرومونڈ نے کہا ہے کہ ہیرڈز کمپنی میں ’کرپشن اور بدسلوکی کا جال ناقابل یقین اور نہایت تاریک تھا۔‘

انتباہ: اس تحریر میں موجود چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔یہ مبینہ واقعات لندن، پیرس، ابو ظہبی سمیت سینٹ ٹروپیز میں پیش آئے۔ایک خاتون کے مطابق، جن کا الزام ہے کہ الفائد نے پارک لین اپارٹمنٹ میں ان کا مبینہ ریپ کیا، ’میں نے واضح کیا تھا کہ میں ایسا نہیں چاہتی، میں نے اجازت نہیں دی تھی۔ میں بس چاہتی تھی کہ یہ ختم ہو۔‘ایک اور خاتون کے مطابق ان کی عمر اس وقت 18 سال سے کم تھی جب الفائد نے مے فیئر میں ان کا مبینہ ریپ کیا۔’محمد الفائد ایک حیوان تھا، ایک جنسی درندہ جس کے پاس اخلاقیات نہیں تھیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ہیرڈز کا عملہ اس کے لیے ’کھلونے تھے۔‘’ہم سب خوف زدہ تھے۔ اس نے خوف کی فضا قائم کر رکھی تھی۔ اگر وہ کودنے کو کہتا تو ملازمین پوچھتے کتنی بلندی سے۔‘اپنی زندگی کے دوران محمد الفائد کو جنسی ہراسانی کے کئی الزامات کا سامنا کرنا پڑا تاہم اب سامنے آنے والے الزامات سنجیدہ اور غیر معمولی نوعیت کے ہیں۔ بی بی سی کا ماننا ہے کہ جن خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

الفائد کا ارب پتی بننے کا سفر

محمد الفائد کے کاروباری سفر کا آغاز مصر میں سکندریہ کی گلیوں سے ہوا جہاں وہ سڑک کنارے مشروب بیچا کرتے تھے۔ لیکن پھر ایک کروڑ پتی سعودی اسلحہ ڈیلر کی بہن سے ان کی شادی نے انھیں نئے تعلقات اور ایک کاروباری سلطنت قائم کرنے میں مدد دی۔1974 میں الفائد برطانیہ چلے آئے اور 1985 میں ہیرڈز خریدنے سے پہلے ہی وہ ایک نامور شخصیت بن چکے تھے۔ 1990 اور سنہ 2000 کی دہائی کے دوران وہ اکثر ٹی وی پر نظر آتے تھے۔اس دوران الفائد، جن کے بیٹے دودی ایک حادثے میں شہزادی ڈیانا کے ساتھ 1997 میں ہلاک ہو گئے تھے، نیٹ فلکس کی سیریز ’کراؤن‘ کی وجہ سے نئی نسل میں بھی معروف ہوئے۔ تاہم جن خواتین سے بی بی سی نے بات کی ان کے مطابق الفاید کی خوشگوار شخصیت کے پیچھے کچھ اور چھپا تھا۔1988 سے1991 تک الفائد کی سیکرٹری کے طور پر کام کرنے والی صوفیہ نے بتایا کہ ’وہ بیہودہ تھا۔‘ ان کا الزام ہے کہ الفائد نے ایک سے زیادہ مواقع پر ان کا ریپ کرنے کی کوشش کی۔’مجھے غصہ آتا ہے۔ لوگ اسے ایسے نہیں یاد رکھ سکتے، وہ ایسا نہیں تھا۔‘چند خواتین نے فلمنگ کے دوران اپنی شناخت چھپانے کے حق کو ختم کیا جبکہ چند نے اسے استعمال کیا اور بی بی سی نے ان کے نام اسعتمال نہیں کیے۔ ان کی بات چیت سے الفائد کے جنسی تشدد کی کہانی کھل کر سامنے آتی ہے۔سابق ملازمین نے بی بی سی کو بتایا کہ ہیرڈز کے مالک کی حیثیت سے الفائد اکثر سٹور کا دورہ کرتے اور ایسی خواتین ملازمین کی نشان دہی کرتے جو ان کو پسند آتیں اور پھر ان کو ترقی دے کر آفس کے قریب پہنچا دیا جاتا۔ان کے مطابق جنسی ہراسانی کے واقعات ہیرڈز کے دفاتر، الفائد کے لندن اپارٹمنٹ یا پھر غیر ملکی دوروں کے دوران پیش آتے اور اکثر پیرس کے رٹز ہوٹل میں جو الفائد کی ہی ملکیت تھا۔ اس کے علاوہ ونڈسر میں ولا میں بھی ایسے واقعات پیش آئے۔ہیرڈز میں کام کرنے والے سابق ملازمین نے بتایا کہ ’سب کچھ بہت واضح تھا۔‘ ایلس، جن کا فرضی نام استعمال کیا گیا ہے، نے بتایا کہ ’ہم سب ایک دوسرے کو اس دروازے سے گزرتے دیکھتے اور سوچتے کہ آج تمھاری باری ہے اور ہم اسے روکنے کے قابل نہیں تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

’اس نے میرا ریپ کیا‘

ریچل نے 1990 کی دہائی مین ہیرڈز میں پرسنل اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا۔ان کے مطابق ایک رات کام کے بعد انھیں الفائد نے پارک لین اپارٹمنٹ بلایا جہاں سکیورٹی سٹاف عمارت کے باہر موجود تھا۔ریچل کا کہنا ہے کہ الفائد نے انھیں بیڈ پر بیٹھنے کو کہا اور پھر اپنا ہاتھ ان کی ٹانگ پر رکھ کر واضح کیا کہ وہ کیا چاہتے تھے۔’مجھے اپنے جسم پر اس کا وزن یاد ہے اور اس کی آوازیں بھی۔ میں جیسے کہیں اور چلی گئی تھی۔ اس نے میرا ریپ کیا۔‘بی بی سی نے 13 خواتین نے بات کی جن کے مطابق الفائد نے پارک لین میں انھیں جنسی پہراسانی کا نشانہ بنایا۔ ان میں سے چار خواتین، جن میں ریچل شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کا ریپ کیا گیا۔صوفیہ نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو ایک ’ڈراؤنا خواب‘ قرار دیا۔’میرے پاس خاندان یا گھر نہیں تھا، مجھے کرایہ ادا کرنا ہوتا تھا لیکن میں ایسا نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔ وہ سب بہت ہولناک تھا۔‘2007 سے 2009 تک الفائد کی پرسنل اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے والی گیما کے مطابق غیر ملکی دوروں کے دوران الفاید کا رویہ اور خوفناک ہو جاتا تھا۔گیما کا کہنا ہے کہ پیرس کے ولا میں ان کا ریپ کیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی آنکھ کھلی تو الفائد بستر پر ایک گاؤن میں ان کے ساتھ موجود تھا جس نے ان کے ساتھ لیٹنے کی کوشش کی تو ’میں نے کہا نہیں، میں نہیں چاہتی لیکن وہ بستر میں آیا اور میرے اوپر سوار ہو گیا، میں ہل بھی نہیں پا رہی تھی۔‘انھوں نے بتایا کہ ریپ کے بعد وہ رو رہی تھیں جب الفاید نے اٹھ کر ان سے کہا کہ وہ ڈیٹول سے خود کو دھو لیں۔ ’ظاہر ہے وہ چاہتا تھا کہ اس کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔‘آٹھ خواتین نے بی بی سی کو بتایا کہ الفاید نے پیرس میں ان کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔ ان میں سے پانچ نے ریپ کی کوشش قرار دیا۔

کھلا راز

ٹونی لیمنگ 1994 سے 2004 تک ہیرڈز کے ڈیپارٹمنٹ منیجر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ تو راز بھی نہیں تھا۔‘ تاہم ان کے مطابق وہ ریپ جیسے سنجیدہ الزامات سے واقف نہیں تھے۔وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں سب ہی جانتے تھے۔ جو کہتا ہے کہ وہ نہیں جانتا، وہ معزرت کے ساتھ جھوٹ بول رہا ہے۔ٹونی کا بیان الفائد کی سکیورٹی ٹیم کے سابق اراکین کی مدد سے کافی حد تک درست لگتا ہے۔ایمون کوئل 1995 تک چھ سال ڈپٹی ڈائریکٹر سکیورٹی رہے۔ سٹیو، جنھوں نے اصلی نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، 1994 اور 1995 میں ہیرڈز میں کام کرتے تھے۔انھوں نے بتایا کہ ’سکیورٹی سٹاف جانتا تھا کہ چند خواتین ملازمین کے ساتھ پارک لین میں کچھ ہو رہا ہے۔‘بہت سی خواتین نے بی بی سی کو بتایا کہ الفائد کے لیے ملازمت کے دوران ان کا میڈیکل بھی ہوا جس میں جنسی صحت کے ٹیسٹ بھی شامل تھے۔ خواتین کے مطابق ان ٹیسٹوں کے نتائج انھیں نہیں بلکہ الفاید کو بھجوائے گئے۔کیتھرین، جو د2005 میں ایگزیکٹیو اسسٹنٹ تھیں، کہتی ہیں کہ ’کوئی کسی کی جنسی صحت کے بارے میں کوئی کیوں جاننا چاہے گا جب تک کہ وہ سیکس کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

خوف

جن خواتین سے ہم نے بات کی انھوں نے ملازمت کے دوران خوف کی فضا کا ذکر کیا اور ان کے مطابق اسی وجہ سے ان کے لیے اس معاملے پر کھل کر بات کرنا مشکل تھا۔سارہ نے وضاحت کی کہ ’نیچے سے اوپر تک، خوف کی فضا تھی۔‘چند لوگوں نے بتایا کہ ان کا خیال تھا کہ ہیرڈز میں فون ٹیپ ہوتے ہیں اور خواتین ایک دوسرے سے بات کرنے سے بھی گریز کرتی تھیں کیوں کہ ان کو اس بات کا ڈر ہوتا تھا کہ خفیہ کیمرے ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔سکیورٹی کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ایمون کوئل نے اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ ان کے ذمے ٹیپ کی گئی فون کالز کو سننا تھا جبکہ سٹور میں کیمرے بھی لگائے گئے تھے۔ہیرڈز کی موجودہ انتظامیہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ تمام فعل ایک فرد کا تھا جو اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہا تھا جس کی وہ مذمت کرتے ہیں۔‘بیان میں کہا گیا کہ ’آج ہیرڈز ایک بہت مختلف قسم کی تنظیم ہے جو ملازمین کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتی ہے۔‘الفائد کی موت سے قبل ان کے خلاف ایسے الزامات کئی بار سامنے آئے جن میں سے ایک 1995 میں وینیٹی فیئر میگزین میں چھپا جس میں نسلی امتیاز، سٹاف کی جاسوسی اور جنسی بد سلوکی کے الزامات شامل تھے۔ اس مضمون کے بعد ایک قانونی جنگ کا آغاز ہوا لیکن الفائد نے بعد میں اس شرط پر مقدمہ واپس لینے کی حامی بھری کہ میگزین نے مقدمے کے لیے جو شواہد اکھٹے کیے تھے انھیں کہیں بند کر دیا جائے۔1997 میں آئی ٹی وی کی بگ سٹوری میں ایسے ہی الزامات سامنے آئے۔بی بی سی کی انوسٹیگیشن کے دوران ایلی نامی خاتون، جن کا فرضی نام استعمال کیا گیا ہے، کا کہنا تھا کہ 2008 میں 15 سال کی عمر میں انھوں نے پولیس کو شکایت کی تھی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ تاہم ان کی شکایت خبروں کی زینت ضرور بنی۔2017 میں چینل فور نے بھی جنسی ہراسانی کے الزامات پر خبر دی جس میں ایک خاتون نے پہلی بار اپنی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت دی۔ اس کے بعد اور خواتین سامنے آئیں اور 2018 میں چینل فور نے ایک تحقیق کی۔تاہم ایک سال قبل الفائد کی موت کے بعد بہت سی خواتین نے کھل کر ریپ کے بارے میں بات کی ہے۔

کیش اور معاہدے

بی بی سی کی دستاویزی فلم میں معلوم ہوا کہ 2009 میں گیما نے ایک معاہدے کیا تھا جس کے تحت وہ کوئی معلومات ظاہر نہیں کر سکتی تھیں۔گیما نے بتایا کہ ان کے ریپ کے بعد جب اںھوں نے ایک وکیل سے بات کی جس نے ہیرڈز کو بتایا کہ گیما جنسی ہراسانی کی وجہ سے ملازمت چھوڑ رہی ہیں۔ گیما کہتی ییں کہ اس وقت ان کے نزدیک وہ الفاید کے مبینہ جرائم کی سنیجیدگی پر کھل کر بات کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھیں۔ہیرڈز نے کہا کہ وہ تمام ثبوت مٹانے کے عوض انھیں رقم دیں گے اور ایک معاہدہ کریں گے جس کے تحت وہ یہ معلومات ظاہر نہیں کر سکیں گی۔ گیما کے مطابق ہیرڈز کی ٹیم کا ایک رکن اس موقع پر موجود تھا جب شواہد مٹائے جا رہے تھے۔بی بی سی کو یہ بھی علم ہوا ہے کہ ہیرڈز کے سابق ڈائریکٹر سکیورٹی جان مکنامارا نے خواتین کو دھمکیاں دیں کہ وہ کھل کر بات نہ کریں۔جن خواتین سے بی بی سی نے بات کی ان میں سے 14 نے ہیرڈز کے خلاف ہرجانے کے مقدمہ دائر کیا اور ان کے ساتھ 2023 میں مصالحت کر لی گئی تھی۔صوفیہ اور ہیرڈز کے درمیان معاہدے میں پانچ سال لگے۔ ہیرڈز نے ندامت کا اظہار کیا لیکن غلطی نہیں مانی۔ بہت سی خواتین اب ہیرڈز کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔بیرسٹر ماریہ مُلا کہتی ہیں کہ اب وہ خواتین بھی سامنے آ رہی ہیں جو پہلے اس حوالے سے بات کرنے میں ’خوف کا شکار‘ تھیں۔’وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف احتساب کی تحریک کا حصہ بننا چاہتی ہیں اور وہ کوشش کر رہی ہیں کہ مستقبل میں ایسا ان کے بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ بھی نہ ہو۔‘ہیرڈز نے بی بی سی کو بتایا کہ: ’جب سے 2023 میں الفائد کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات منظرِعام پر آئے ہیں، ہماری ترجیح رہی ہے کہ ہم تمام حقِ دعویٰ کا تصفیہ کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ مستقبل میں کبھی ایسا نہ ہو۔‘پیرس میں واقع رِٹز ہوٹل کا کہنا ہے کہ ہم ’ایسے برتاؤ کی مذمت کرتے ہیں جو ہمارے اقدار کے خلاف ہوں۔‘جب الفائد کی موت ہوئی تو اطلاعات آئیں کہ ان کے پاس ارب پاؤنڈ سے زائد دولت موجود تھی لیکن خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے آواز اُٹھانے کی وجہ پیسہ نہیں ہے۔گیما کہتی ہیں کہ: ’میں نے بہت سارے برس خاموش رہ کر، چپ رہ کر گزارے ہیں اور مجھے امید ہے کہ میرے آواز اُٹھانے سے لوگوں کی مدد ہوگی۔‘’ہم سب کو اب اچھا محسوس کرنا چاہیے اور اس سے ہمارے زخموں پر مرہم لگے گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}