’ہچیکو‘ کی 100ویں سالگرہ: دنیا کے سب سے وفادار کتے سے ’عقیدت‘ کیا اگلے سو برس بھی رہے گی؟
’میں آپ کا انتظار کروں گا، چاہے کتنا ہی وقت لگ جائے۔‘
فلم کے پوسٹر پر چینی زبان میں لکھی اس ٹیگ لائن میں سب کچھ سمو دیا گیا ہے۔ اس فلم میں دنیا کے سب سے وفادار کتے ’ہچیکو‘ کی سچی کہانی بیان کی گئی ہے۔
اگر آپ کا شمار بھی جانوروں سے محبت یا ان کی زندگی کے بارے میں جاننے والوں میں ہوتا ہے تو یقیناً آپ بھی کتوں کی مالک سے وفاداری سے بخوبی واقف ہوں گے۔
اور ہچیکو کی سچی کہانی بھی مالک سے وفاداری اور محبت سے متعلق ہے جس نے اپنے مالک کی موت کے بعد بھی جاپان کے ایک ٹرین سٹیشن پر اپنی ساری زندگی اس کے انتظار میں گزاری۔
سو سال پہلے پیدا ہونے والے اس دودھیا سفید نسل کے کتے کی یاد کو کتابوں اور فلموں سے لے کر سائنس فکشن تک میں امر کر دیا گیا ہے۔
ہچیکو پر بنائی گئی یہ چینی ورژن فلم 1987 کی ایک جاپانی ورژن کے بعد تیسری بار فلمائی گئی اور رچرڈ گیئر کے 2009 کی ہالی وڈ فلم کے بعد باکس آفس پر ہٹ ثابت ہوئی ہے۔
یقیناً ایسی دوسری کہانیاں بھی ہیں لیکن کسی کی بھی ہچیکو جیسی عالمی پذیرائی نہ مل سکی۔ ہچیکو کا کانسی کا چمکدار مجسمہ ٹوکیو کے شیبویا سٹیشن کے باہر نصب ہے جہاں وہ بہت صبر و امید کے ساتھ دہائیوں سے اپنے مالک کا منتظر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
جاپانی بچوں کو سکول میں ہچیکو کی کہانی وفاداری اور بے لوث محبت کے سبق کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔
ہچیکو کا یہ مجسمہ پہلی بار 1934 میں بنایا گیا تھا تاہم دوسری جنگ عظیم کے دوران اس مجسمہ کو پہنچنے والے نقصان کے بعد اس کو 1948 میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
جاپانی شہری بے لوث محبت اور وفاداری کے لیے ہچیکو کی مثالیں دیا کرتے ہیں۔ ہوائی یونیورسٹی کی پروفیسر کرسٹین یانو کا ہچیکو کے لیے کہنا ہے: ’وفادار، قابل اعتماد، مالک کے فرمانبردار، سمجھدار اور قابل بھروسہ ۔۔۔ اس کی خصوصیات کے لیے یہ الفاظ بھی کم ہیں۔‘
ہچیکو کے اپنے پہلے مالک تک پہنچنے کا سفر
اکیتا نسل سے تعلق رکھنے والا ہچیکو نومبر 1923 میں جاپان کے شہراوداٹے میں پیدا ہوا تھا۔ اکیتا جاپان میں بڑے سائز کے کتے کی ایسی نسل ہے جو وہاں کی قدیم اور مقبول نسلوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔
1931 میں جاپانی حکومت نے اکیتا کو بطور قومی نشان بھی نامزد کیا تھا اور اسے جنگلی سؤر اور بارہ سنگھے جیسے جانوروں کا شکار کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔
بچوں کے لیے انگریزی ادب لکھنے والے مصنف ایتسو ساکورابا لکھتے ہیں، ’اکیتا کتے پرسکون، مخلص، ذہین، اور بہادر ہوتے ہیں، جو اپنے مالک کےانتہائی فرمانبردار ہوتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ ایک ضدی شخصیت بھی رکھتے ہیں اور اپنے مالک کے علاوہ کسی کے قریب نہیں ہوتے۔‘
جس سال ہچیکو پیدا ہوا اس وقت زراعت کے ایک مشہورپروفیسر اور کتوں سے محبت کرنے والے ہائیڈیسابورو یوینو نے اپنےایک طالب علم سے کہا کہ وہ انھیں اکیتا نسل کے کتے کا بچہ ڈھونڈ دے۔
اکتوبر 1932 میں جب ایک جاپانی روزنامے نے ہچیکو کے اس معمول کو خبروں کی زینت بنایا تو ہچیکو نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔
اس طرح ڈاکٹر یوینو کی فرمائش پر ٹرین کے ایک مشکل سفر کے بعد مخصوص نسل کے کتے کا چھوٹا سا بچہ 15 جنوری 1924 کو ضلع شیبویا میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچایا گیا۔
اس طویل سفر کے بعد ننھا ہچیکو جب اپنے مالک تک پہنچا تو اس کی طبیعت بگڑ چکی تھی۔ ابتدائی طور پر اسے مردہ سمجھا گیا۔ ہچیکو کی سوانح عمری لکھنے والے میومی ایتوہ کے مطابق یوینو اور ان کی اہلیہ یئی نے اگلے چھ ماہ تک چھوٹے سے ہچیکو کی اس کی دیکھ بھال کی تاکہ وہ مکمل صحت یاب ہو سکے۔
یوینو نے اس کا نام ’ہچی‘ (جاپانی زبان میں آٹھ) رکھا اور اس کے آگے ’کو‘ ان کے طالب علموں کی جانب سے دی گئی اضافت تھی۔
’وہ ہر شام ٹرین سے نکلنے والے ہر مسافر کو بغور دیکھتا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہا ہو‘
پروفیسر یونیو ہفتے میں کئی بار کام کرنے کے لیے ٹرین پر سفر کیا کرتے تھے۔ انھیں شیبویا سٹیشن تک کمپنی دینے ان کے ساتھ ہچیکو سمیت تینوں پالتو کتے جایا کرتے تھے اور پھر شام کو ان کی واپسی تک وہیں انتظار کرتے۔
21 مئی 1925 کو یونیومحض 53 سال کی عمر میں دماغ کی شریان پھٹ جانے کے باعث فوت ہو گئے۔ اس وقت ہچیکو صرف 16 ماہ رہا تھا۔
پروفیسرایتوہ لکھتے ہیں، ’جب لوگ ہشیکو کی آخری رسومات کے لیے ان کے جنازے پر جمع تھے اس وقت ہچیکو کو تابوت میں رکھے ڈاکٹر یوینو کے بدن کی خوشبو محسوس ہو گئی اور وہ تابوت کے پاس فرش پر اپنی تھوتنی(منھ کا اگلا حصہ) رکھ کر بیٹھ گیا اور وہاں سے ہلنے سے انکاری ہو گیا۔‘
اپنے مالک کی وفات کے بعد ہچیکو نے اگلے چند ماہ شیبویا شہر سے باہر مختلف خاندانوں کے ساتھ گزارے لیکن آخر کار 1925 کے موسم گرما میں وہ اپنے پہلے مالک کے باغبان کوبایشی کیکوسابورو کے پاس پہنچ گیا۔ اس علاقے میں واپسی کے بعد ہچیکو نے روزآنہ سٹیشن جانا اپنا معمول بنا لیا اور آندھی آئے یا طوفان موسم کی تمام سختیاں بھی ہچیکو کو اس معمول سے نہ روک سکیں۔
پروفیسر ایتوہ لکھتے ہیں ’ہچیکو کا معمول تھا کہ وہ ہر شام اپنی پرچاروں ٹانگوں پر کھڑا ٹرین سے نکلنے والے ہر مسافر کو بغور دیکھتا جیسے وہ کسی کو ڈھونڈ رہا ہو۔‘
سٹیشن کے ملازمین ابتدا میں اس صورتحال سے کچھ پریشان ہوئے۔ کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والے اس پر پانی پھینکتے تو چھوٹے لڑکے اسے پتھر مارتے مگر کوئی چیز ہچیکو کو روک نہ سکی۔ تاہم اکتوبر 1932 میں جب جاپانی روزنامہ ٹوکیو آساہی شمبن نے ہچیکو کے اس معمول کو خبروں کی زینت بنایا تو اس کہانی نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔
اس کے بعد ٹرین سٹیشن سے ہر روز ہچیکو کے لیے کھانا دیا جانے لگا جبکہ وفاداری کے خمیر سے گندھے اس کتے کو دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے۔
وفاداری اور محبت کی مثال ہچیکو کو دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے ہیں
ہچیکو کے بارے میں درجنوں نظمیں اور ہائیکو لکھے گئے۔ 1934 میں ہچیکو کا مجسمہ بنانے کے لیے فنڈ ریزنگ کی تقریب میں مبینہ طور پر 3,000 لوگوں نے شرکت کی۔
8 مارچ 1935 کو ہچیکو کی موت کو کئی اخبارات نے صفحہ اول پر جگہ دی۔ اس کے جنازے اور تدفین میں بدھ راہبوں نے خصوصی دعائیں کیں اور معززین نے خراج تحسین کے کلمات ادا کئے۔ کئی ہزار افراد دور دراز سے ہچیکو کا مجسمہ دیکھنے کے لیے پہنچے۔
جنگ کے بعد کے جاپان میں ہچیکو کے ایک نئے مجسمے کو تعمیر کرنے کے لیے جب چندہ اکٹھا کرنے کی مہم شروع ہوئی تو اس میں آٹھ لاکھ ین اکٹھا کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی جو اس وقت ایک بہت بڑی رقم تھی اور جس کی مالیت آج تقریباً 28 ملین ڈالر بنتی ہے۔
اوکاموتو تاکیشی نے 1982 میں ایک اخباری مضمون میں لکھا، ’مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہچیکو کو علم تھا کہ ڈاکٹر یوینو واپس نہیں آئیں گے، لیکن ہچیکو نے ان کا انتظار ختم نہیں کیا۔ ہچیکو نے ہمیں کسی پر بھروسہ اور اعتماد کرنے کی قدر سکھائی۔‘
’ہچیکو کی وفاداری لازوال ہے‘
ہر سال 8 اپریل کو شیبویا سٹیشن کے باہر ہچیکو کی یاد میں تقریب منعقد کی جاتی ہے۔اس تقریب میں اظہار محبت کے طور پر ہچیکو کے مجسمے کو سکارف، سانتا ٹوپیاں اور ماسک پہنا کر سجایا جاتا ہے۔
ہچیکو کا مجسمہ ٹوکیو کے نیشنل میوزیم آف نیچر اینڈ سائنس میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ ہچیکو کے مردہ جسم کی کچھ باقیات کو اویاما قبرستان میں یوینو اور یائی کے ساتھ دفن کیا گیا ہے۔
ہچیکو کے دیگر مجسمے اوڈیٹ، یوینو کے آبائی شہر ہسائی، یونیورسٹی آف ٹوکیو اور روڈ آئی لینڈ میں بھی سجائے گئے ہیں۔
اوڈیٹ نے اس سال ہچیکو کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر مختلف پروگرامز کی ایک سیریز بھی مرتب کی ہے۔
پروفیسر یانو کہتی ہیں، ’کیا دنیا کے سب سے وفادار کتے کو اب ایک صدی بعد بھی منایا جائے گا؟‘ اس کا جواب خود وہ دیتی ہیں، ’ہاں۔‘ کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ’ہچیکو کی بہادری اور وفاداری کی تعریف کسی خاص دور تک محدود نہیں بلکہ لازوال ہے۔‘
مسٹر ساکورابا بھی اتنے ہی پر امید ہیں: ’اب سے 100 سال بعد بھی، یہ غیر مشروط، عقیدت مند محبت برقرار رہے گی، اور ہچیکو کی کہانی ہمیشہ زندہ رہے گی۔‘
Comments are closed.