ہوپ کک: سکم کی رانی جنھیں سی آئی ایجنٹ اور آزاد ریاست کے انڈیا میں انضمام کا سبب قرار دیا گیا

رانی ہوپ کک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ہوپ کک پہلی بار انڈیا 19 سال کی عمر میں آئیں

  • مصنف, ریحان فضل
  • عہدہ, بی بی سی ہندی، نئی دہلی

سنہ 1959 کے موسم گرما کی ایک شام سکّم کے ولی عہد تھونڈُپ کی مرسڈیز کار انڈیا کے شمالی سیاحتی مقام دارجلنگ کے ونڈامیئر ہوٹل کے باہر رکی۔ ہوٹل کے لاؤنج میں جا کر انھوں نے اپنے پسندیدہ مشروب کا آرڈر دیا۔

اس شام ان کی نظریں لاؤنج کے کونے میں بیٹھی ایک نوجوان خاتون پر ٹھہر گئیں۔ چند ہی منٹوں میں انھیں اپنے دوستوں سے پتہ چلا کہ وہ ایک امریکی طالب علم ہیں، چھٹیاں منانے انڈیا آئی ہیں اور ونڈامیئر ہوٹل میں کچھ دنوں سے ٹھہری ہوئی ہیں۔

اس لڑکی کا نام ہوپ کُک تھا۔ ولی عہد نے ہوپ کوک سے ملاقات کی۔ ملتے ہی دونوں ایک دوسرے میں دلچسپی لینے لگے۔

36 سالہ ولی عہد کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے تین بچے تھے۔ وہ ایک شرمیلے شخص تھے جو تھوڑا ہکلاتے تھے۔ ہوپ کک کی عمر اس وقت صرف 19 سال تھی۔ اس ملاقات کے بعد ولی عہد اور ہوپ اگلے دو سال تک نہیں ملے۔

ہوپ کک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ہوپ کک 21 سال کی عمر میں دوسری بار دارجیلنگ پہنچیں

سکّم کے ولی عہد کی شادی کی پیشکش

1961 میں ہوپ کک ایک بار پھر انڈیا آئیں اور دارجیلنگ کے ونڈامیئر ہوٹل میں دوبارہ قیام کیا۔ انھوں نے بعد میں اپنی سوانح عمری ٹائم چینج میں لکھا ’مجھے پتا نہیں کہ ولی عہد کو کیسے پتہ چلا کہ میں ونڈامیئر ہوٹل میں ٹھہری ہوں۔ اس بار جب وہ پارلر میں داخل ہوئے تو میں اکیلی چائے پی رہی تھی۔‘

’وہ گورکھا رجمنٹ میں ایک اعزازی افسر تھے اور گینگٹوک سے ایک فوجی تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ شام کو انھوں نے مجھے جم خانہ کلب میں اپنے ساتھ ڈانس کرنے کی دعوت دی۔ اس رات وہ بہت اچھے موڈ میں تھے۔ انھوں نے مجھ سے سرگوشی کی کہ ایک دن ہم ویانا میں اکٹھے گھومیں گے۔‘

اسی رات ڈانس کے دوران ولی عہد نے ہوپ کک سے پوچھا کہ کیا وہ ان سے شادی کرنے کے بارے میں غور کریں گی۔

نوجوان امریکی ہوپ کک ابھی 21 سال کی بھی نہیں تھیں۔ انھوں نے یوراج کی پیشکش قبول کر لی۔ تھونڈپ کچھ ہی دنوں میں ہوپ کو گینگٹوک لے گئے۔ شاہی محل دیکھتے ہی ہوپ ساتویں آسمان پر پہنچ گئیں۔

موناکو کے شہزادہ اور ہالی وڈ اداکارہ گریس کیلی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

موناکو کے شہزادہ اور ہالی وڈ اداکارہ گریس کیلی

ہالی وڈ اداکارہ گریس کیلی سے موازنہ

1963 میں جب ہوپ کی شادی سکم کے ولی عہد سے ہوئی تو امریکی پریس نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کا موازنہ ہالی وڈ اداکارہ گریس کیلی سے کیا جانے لگا جنھوں نے موناکو کے شہزادہ رینیئر سو‏ئم سے شادی کی تھی۔

1969 میں ٹائم میگزین نے ’سکم: اے کوئن ری وزیٹڈ‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا جس میں بتایا گیا کہ ’ہوپ صبح آٹھ بجے اٹھتی ہیں۔ اس کے بعد وہ بیرون ملک سے لائے گئے اخبارات اور رسالے پڑھتی ہیں۔ وہ اگلے چار گھنٹے لوگوں کو خط لکھنے، کھانے کے مینو تیار کرنے اور محل کے 15 نوکروں کو کام سونپنے میں گزارتی ہیں۔ ان کا شام کا وقت ٹینس کا ایک سیٹ کھیلنے اور پارٹیوں میں جانے میں گزرتا ہے۔ وہ رات کے کھانے سے پہلے اسکاچ اور سوڈا واٹر لیتی ہے۔ وہ اپنی مرسڈیز میں گینگٹوک میں ہر جگہ سفر کرتی ہیں لیکن صرف اکانومی کلاس میں ہی بیرون ملک سفر کرنا پسند کرتی ہیں۔‘

شہزادہ ولی عہد اور ہوپ کک کی شادی کے بعد سے مغرب بالخصوص امریکہ میں سماجی اور سیاسی حلقوں اور پریس میں ان کے بارے میں کافی چرچے ہونے لگے۔ ہوپ بھی ایسا برتاؤ کرنے لگیں جیسے وہ آزاد سکم کی ملکہ بننے والی ہوں۔

تھونڈُپ کے ساتھ ہوپ کک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سکم کے راجہ یا چوگیال تھونڈُپ کے ساتھ ہوپ کک

غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ رابطے میں اضافہ

نیوز ویک کے دو جولائی سنہ 1973 کے شمارے میں بتایا گیا کہ ’ہوپ نے جیکولین کینیڈی کے انداز میں سرگوشی شروع کر دی ہے۔ وہ ’میں‘ کے بجائے ’ہم‘ کا استعمال کرتی ہیں اور یہ امید کرتی ہیں کہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جیسا کہ ملکہ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘

ہوپ کک سے ملنے والے غیر ملکی مہمانوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ انڈیا میں امریکی سفیر کینتھ کیٹنگ اور امریکی کانگریس کے سینیٹر چارلس پرسی ان سے ملاقات کے لیے خصوصی طور پر گینگٹوک گئے تھے۔

انڈین خفیہ ایجنسی را کے سپیشل سیکریٹری رہنے والے جی بی ایس سدھو اپنی کتاب ’سکم ڈان آف ڈیموکریسی‘ میں لکھتے ہیں ’غیر ملکیوں کے ساتھ ہوپ کی ان ملاقاتوں کا اثر یہ ہوا کہ مغرب میں انڈیا کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ شروع ہوا کہ گویا یہ سکم کی آزادی میں رکاوٹ ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ انڈیا کو 1950 کے معاہدے کو تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے دباؤ کے پیچھے چوگیال تھے، لیکن ان کی اہلیہ ہوپ کک اسے بین الاقوامی مسئلہ بنانے میں ان کی مدد کر رہی تھیں۔‘

اس وقت دہلی میں امریکی سفارت خانے میں کام کرنے والے یو ایس فارن سروس کے افسر ولیم براؤن یاد کرتے ہیں ’ہوپ کک نے 60 کی دہائی میں ہماری موجودگی میں انڈیا کو طعنہ دینے کا موقع کبھی نہیں چھوڑا تھا۔‘

سرورق

،تصویر کا ذریعہPENGUIN

مضمون میں دارجلنگ پر سکم کا دعویٰ

1966 میں ہوپ کک نے نامگیال انسٹی ٹیوٹ کے جریدے میں ‘Sikkimese Theory of Landholding and the Darjeeling Grant’ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون میں انھوں نے 1835 میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کو دیے گئے دارجلنگ ضلع کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا۔

ان کی دلیل یہ تھی کہ دارجلنگ کو صرف لیز پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کیا گیا تھا۔ چونکہ سکم کا تعلق شاہی خاندان سے ہے اس لیے دارجیلنگ کو سکم کو واپس کر دیا جائے۔ یہ مضمون سیاسی ڈائنامائٹ ثابت ہوا۔

سب کی توجہ اس مضمون کی طرف اس لیے بھی گئی کیونکہ بالواسطہ طور پر اس ادارے کا تعلق سی آئی اے سے رہا ہے۔ کین کونبوائے اپنی کتاب ’دی سی آئی اے ان تبت‘ میں لکھتے ہیں کہ ’تبت آپریشن میں شامل سی آئی اے کے ایجنٹوں نے اس ادارے میں انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔ اس پس منظر میں ہوپ کک کے مضمون کی اشاعت کو ہمالیہ میں سی آئی اے کے منصوبے کے طور پر دیکھا گیا۔‘

تھنڈوپ اور ہوپ

،تصویر کا ذریعہSIKKIMARCHIVES.GOV.IN

انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کک کے مضمون کو سنجیدگی سے لیا

اینڈریو ڈف اپنی کتاب ’Sikkim Requiem for a Himalayan Kingdom‘ میں لکھتے ہیں: ’اگرچہ ہوپ کک نے بعد میں اپنی سوانح عمری میں واضح کیا کہ مضمون کا مقصد علمی بحث چھیڑنا تھا، لیکن اس کا الٹا اثر ہوا۔ ایسا لگتا تھا جیسے انھوں نے دارجلنگ پر انڈین ملکیت کے متعلق قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگایا ہو۔ کچھ ہی دنوں میں یہ انڈین اخباروں کی سرخیاں تھیں اور انھیں اس طرح بیان کیا جا رہا تھا کہ ’سی آئی اے ایجنٹ کے پر نکل آئے‘ یا ’ٹروجن گھوڑے کی گینگٹوک میں دستک۔‘

کچھ ہی دنوں میں ہوپ کک کا لکھا ہوا مضمون اندرا گاندھی کی میز پر پہنچا دیا گیا۔ یہ مضمون اندرا کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ سنندا دتہ رے اپنی کتاب ’سمیش اینڈ گریب‘ میں لکھتے ہیں’جب انڈیا کی پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ اٹھایا گیا تو اندرا گاندھی نے ارکان پارلیمنٹ کو یقین دلایا کہ دارجلنگ پر سکم کے دعوے کا مطالبہ کسی ذمہ دار حلقے سے نہیں آیا ہے۔ ’ذمہ دار حلقے‘ کے استعمال سے اندرا گاندھی ہوپ کے احمقانہ بیان کے بارے میں گینگٹوک کو واضح پیغام دینا چاہتی تھیں۔

یہاں تک کہ گنگ ٹوک میں چوگیال (راجہ) نے اپنی اہلیہ کے رخ سے خود کو کہتے ہوئے دور کر لیا کہ ’میری حکومت نمگیال انسٹی ٹیوٹ اور اس کے میگزین کی مدد کے بغیر بھی اپنے ملک اور اس کے لوگوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کا تحفظ کرنے کی اہل ہے۔‘

اندرا گاندھی اور چوگیا

،تصویر کا ذریعہPHOTO DIVISION

،تصویر کا کیپشن

اندرا گاندھی اور چوگیا

سی آئی اے ایجنٹ کے الزامات پر ملی جلی رائے

انڈیا کے کئی حلقوں میں یہ کہا جا رہا تھا کہ سی آئی اے کے کارندوں نے یہ موقع کیسے گنوا سکتے تھے جب تزویراتی لحاظ سے ایک اہم ملک کا بادشاہ دارجلنگ کے ایک ہوٹل میں ایک امریکی لڑکی کی محبت میں گرفتار تھا لیکن انڈین انٹیلی جنس ذرائع ہوپ کک کو سی آئی اے کا ایجنٹ نہیں مانتے تھے جسے ایجنسی نے امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے گینگٹوک میں رکھا تھا۔

را کے سابق سپیشل سیکریٹری جی بی ایس سدھو لکھتے ہیں ’اگر سی آئی اے واقعی سکم کی آزادی کے لیے کام کرنا چاہتی تو وہ اس آپریشن کی بہتر منصوبہ بندی کرتی، اور واقعی ایسا ہوتا تو ہوپ جنوب اور مغرب سکم میں اپنی موجودگی درج کراتی۔‘

وہ نیپالی نسل کے نظر انداز کردہ اور پسماندہ لوگوں کے لیے ہسپتال، سکول وغیرہ کھول کر چوگیال کے لیے ان کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتی۔

دوسری بات یہ کہ وہ چوگیال کو مشورہ دیتی کہ وہ انتظامیہ پر اپنی مضبوط گرفت ڈھیلی کر دیں اور عوام کے منتخب نمائندوں کو کچھ اختیارات دیں۔ اس کے برعکس، انھوں نے چوگیال کو اپنے لوگوں سے، خاص طور پر نیپالی نژاد لوگوں سے دور کر دیا۔

ہوپ کک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ہوپ کک

چوگیال پہلے ہی سی آئی اے کے رابطے میں تھے

وہ بالکل تبتی ملکہ کی طرح برتاؤ کرنے لگیں اور ان کی طرح سماجی آداب اور ان جیسے کپڑے پہننے لگی تھیں۔

سدھو مزید لکھتے ہیں ’ایک سیکنڈ کے لیے یہ فرض کر لیں کہ وہ سی آئی اے کی ایجنٹ تھیں تو اس کے ہینڈلرز زمینی صورت حال سے بے خبر اناڑی تھے۔ ویسے بھی سی آئی اے کے چوگیال سے اضافی معلومات کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ چوگیال اور ان کے انٹیلی جنس چیف کرما توپڈن کلکتہ میں سی آئی اے کے افسران سے واقف تھے۔‘

’چوگیال نے پچاس کی دہائی میں ولی عہد کے طور پر دو بار تبت کا دورہ کیا تھا۔ دونوں موقعوں پر انھیں واپسی پر کلکتہ کے قونصل خانے میں تعینات سی آئی اے افسران نے ڈی بریف کیا تھا۔ جب بھی وہ کلکتہ جاتے تھے، اسی علاقے میں رہتے تھے جہاں امریکی قونصل خانہ ہوا کرتا تھا۔‘

’ان حالات میں سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے جاسوس ان کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں رہ سکتے تھے۔ سی آئی اے جیسی تکنیکی طور پر قابل ایجنسی کے لیے ہوپ جیسا ہائی پروفائل رابطہ جو پوری طرح دنیا کی نظروں میں تھا، دوسرے ذرائع سے بہتر تھا۔‘

اندرا گاندھی اور سدھو

،تصویر کا ذریعہPENGUIN

،تصویر کا کیپشن

اندرا گاندھی اور ان کے سیکریٹری سدھو

یہ بھی پڑھیے

چوگیال کے زوال سے پہلے ہی ہوپ نے سکم چھوڑ دیا

لیکن چوگیال سے زیادہ ہوشیار ہوپ تھی کہ وہ آٹھ مئی سنہ 1973 کو انڈیا کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے حقیقی نتائج کو جان چکی تھیں، اس لیے دو ماہ بعد اگست میں انھوں نے سکم کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے کا ارادہ کر لیا۔ ایسا کرنے سے وہ اپنے شوہر کے زوال کی گواہ بننے کے افسوسناک واقعے سے بچ گئیں۔ ہوپ نے 14 اگست 1973 کو سکم کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔

سکم کے چیف ایگزیکٹیو بی ڈی داس اپنی سوانح عمری ’میموئرز آف این انڈین ڈپلومیٹ‘ میں لکھتے ہیں ’چوگیال نے ہوپ سے درخواست کی کہ وہ اسے چھوڑ کر نہ جائیں کیونکہ انھیں اس مشکل وقت میں ان کی ضرورت ہے۔ لیکن انھوں نے چوگیال کی درخواست قبول نہیں کی۔ میں ہوپ کک کو ہیلی پیڈ پر چھوڑنے گیا، ان کے آخری الفاظ تھے، مسٹر داس، آپ میرے شوہر کا خیال رکھیں گے۔ اب یہاں میرا کوئی کردار نہیں ہے۔‘

ہوپ کک بہت سے لوگوں کے لیے ایک معمہ تھیں۔ کچھ نے انھیں سی آئی اے کا ایجنٹ کہا۔ لیکن اصل کہانی کوئی نہیں جانتا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے چوگیال کو ایک انڈیا مخالف موقف اختیار کرنے کے لیے اکسایا تھا۔ انھوں نے سکول کے نصاب میں انڈیا مخالف کہانیوں اور کارٹونوں کو جگہ دی۔ وہ انڈین لیڈروں اور حکام کے سامنے ملکہ کی طرح برتاؤ کرتی تھیں، لیکن ان کی پیٹھ پیچھے وہ غصے میں انڈیا کو کوستی تھیں۔‘

سرورق

،تصویر کا ذریعہTATA MCGRAW HILL

سکم چھوڑنے کی وجہ چوگیال کی بے وفائی بھی تھی

کچھ ہی دنوں بعد انھوں نے چوگیال سے طلاق لے لی اور اپنی امریکی شہریت دوبارہ حاصل کر لی جسے انھوں نے چوگیال سے شادی کے بعد ترک کر دیا تھا۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہوپ نے چوگیال کو چھوڑ دیا کیونکہ ان کا رشتہ پہلے جیسا نہیں رہ گیا تھا۔

ہوپ کک اور چوگیال کے تعلقات میں اس وقت دراڑ آنا شروع ہو گئی جب چوگیال کا بیلجیئم کی ایک شادی شدہ خاتون کے ساتھ معاشقہ شروع ہوا۔ ہوپ کے پہلے بچے کی پیدائش سے قبل وہ اس خاتون سے ملنے بیلجیم پہنچ گئے تھے۔

ہوپ کک اپنی سوانح عمری میں لکھتی ہیں ’ان کی محبوبہ انھیں محبت کے خطوط لکھتی تھیں۔ کئی بار جب وہ مجھے گلے لگاتے تو میں محسوس کرتی کہ ان کے ڈریسنگ گاؤن کی جیب میں کچھ کاغذات ہیں۔ اکثر وہ محبت کے خطوط ان کی جیب سے گر جاتے تھے، جنھیں میں اٹھا کر پڑھ لیتی تھی۔‘

چوگیال کی ضرورت سے زیادہ شراب پینے کی عادت نے بھی ہوپ کو ان سے دور کر دیا تھا۔ ایک بار نشے میں چوگیال نے اپنے ریکارڈ پلیئر کو کھڑکی سے نیچے پھینک دیا تھا۔

چوگیال اور ہوپ

،تصویر کا ذریعہPENGUIN

انڈین فوجیوں نے محل کو گھیرے میں لے لیا

30 جون سنہ 1974 کو دہلی میں اندرا گاندھی کے ساتھ چوگیال کی بات چیت کی ناکامی کے بعد سکم کے انڈیا میں الحاق کا راستہ صاف ہوگیا۔ نو اپریل سنہ 1975 کو انڈین فوجیوں نے سکم کے محل کو گھیرے میں لینا شروع کر دیا۔

جی بی ایس سدھو لکھتے ہیں ’گیٹ پر تعینات سنتری، بسنت کمار چھتری نے اپنی رائفل سے انڈین فوجیوں کی طرف رکنے کے لیے اشارہ کیا، انڈین فوجیوں نے اس پر گولی چلا دی۔‘

جی بی ایس سدھو لکھتے ہیں ’چوگیال نے گھبرا کر اپنے پرسنل سکیورٹی آفیسر گربچن سنگھ کو ٹیلی فون کیا تاکہ معلوم کیا جائے کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن رسیور جنرل کھلر کی طرف بڑھا دیا گیا، جو گربچن کے قریب بیٹھے تھے۔ جنرل کھلر نے چوگیال کو سے کہا کہ وہ سکم گارڈز کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیں۔ 243 سکم گارڈز کے دستے کو انڈین فوجیوں نے گھیر لیا تھا۔ انھوں نے ہتھیار ڈال دیے اور اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دیے۔ سارا آپریشن 20 منٹ میں ختم ہو گیا۔

چوگیال اور ہوپ

،تصویر کا ذریعہSIKKIMARCHIVES.GOV.IN

،تصویر کا کیپشن

چوگیال اور ہوپ راجہ رانی کی طرح

سکم کا انڈیا میں انضمام

اس دن 12:45 پر سکم کی ایک آزاد ملک کی حیثیت ختم ہو گئی۔ چوگیال نے ہیم ریڈیو پر پوری دنیا کو یہ اطلاع دی۔ انگلینڈ کے ایک گاؤں میں ایک ریٹائرڈ ڈاکٹر اور جاپان اور سویڈن کے دو دیگر لوگوں نے ان کا ہنگامی پیغام سنا۔

اس کے بعد چوگیال کو ان کے محل میں نظر بند کر دیا گیا۔ سکم کو انڈیا کی 22 ویں ریاست بنانے کے لیے آئینی ترمیمی بل 23 اپریل سنہ 1975 کو لوک سبھا میں منظور کر لی گئی۔

تین دن بعد 26 اپریل کو یہ بل راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا میں پاس ہوا۔ 15 اپریل 1975 کو صدر فخر الدین علی احمد کے اس بل پر دستخط کرتے ہی سکم میں نمگیال خاندان کی حکمرانی ختم ہو گئی۔

ہوپ کک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہوپ کک کبھی سکم واپس نہیں آئیں

چوگیال اس صدمے سے کبھی جانبر نہ ہو سکے۔ انھیں کینسر ہو گیا اور علاج کے لیے امریکہ لے جایا گیا۔

29 جنوری سنہ 1982 کی صبح چوگیال پالڈن تھونڈوپ نمگیال اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ چوگیال کی موت کے بعد ہوپ کک امریکہ میں ہی رہیں۔

1989 میں انھوں نے اوپرا ونفری کے ٹاک شو ‘اوپرا’ میں شرکت کی۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے سکم کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھے ہیں لیکن وہ وہاں واپس نہیں لوٹیں۔

انھوں نے تاریخ دان مائیک والیس سے سنہ 1983 میں دوسری شادی کی لیکن پھر ان سے جلد ہی طلاق بھی لے لی۔ وہ اب نیویارک میں رہتی ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ