- مصنف, ہینری آسٹیئر
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
ناروے کے ساحل پر ایک ایسی مچھلی مردہ حالت میں پائی گئی ہے جس کے بارے میں یہ شکوک موجود ہیں کہ اسے روس نے جاسوسی کے لیے تربیت دے رکھی تھی۔’ہوالدیمیر‘ کی عرفیت سے مشہور اس وہیل مچھلی کو ناروے کے ایک ساحلی قصبے کے دریا میں مردہ حالت میں پایا گیا جس کے بعد اسے تفصیلی جائزے کے لیے نزدیکی بندر گاہ لے جایا گیا۔اس وہیل کو پانچ سال قبل اس وقت شہرت ملی تھی جب ناورے کے سمندروں میں اسے دیکھا گیا اور اس کے ساتھ ایک کیمرہ نصب تھا جس پر ایک مختصر تحریر درج تھی: ’سینٹ پیٹرزبرگ کی ملکیت۔‘ایسے میں یہ افواہیں پھیل گئی تھیں کہ یہ جانور ایک جاسوس وہیل ہو سکتی ہے اور ماہرین کے مطابق ماضی میں ایسا ہو چکا ہے کہ مچھلیوں کو جاسوسی کے مقاصد سے استعمال کیا جا چکا ہے۔ روس کی جانب سے ایسے الزامات پر کبھی موقف نہیں دیا گیا۔
ہوالدیمیر کا بے جان جسم میرین مائنڈ نامی ایک تنظیم نے دریافت کیا جو کئی برس سے اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھ رہی تھی۔تنظیم کے بانی سباسچیئن سٹرینڈ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہیل کی موت کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی اور بظاہر اس کے جسم پر کسی قسم کے زخموں کے نشان بھی نہیں تھے۔
روس کی ’جاسوس وہیل مچھلی‘
ہوالدیمیر کی عمر ے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہ 15 برس کی تھی۔ بیلوگا وہیل مچھلی کے حساب سے یہ زیادہ عمر نہیں کیوں کہ ان وہیل مچھلیوں کی عمر 60 برس تک پہنچ سکتی ہے۔2019 میں پہلی بار یہ مچھلی ناروے کی کشتیوں کے قریب اس مقام پر دکھائی دی تھی جہاں سے روس کا مرمانسک نامی بحری اڈہ تقریباً 415 کلومیٹر دور ہے۔یہ اس لیے حیران کن تھا کیوں کہ اس قسم کی وہیل مچھلیاں جنوب میں اتنے زیادہ فاصلے پر کم ہی نظر آتی ہیں۔اس دریافت کے بعد ناروے کی خفیہ ایجنسی نے باقاعدہ طور پر تفتیش کرنے کے بعد کہا تھا کہ ممکنہ طور پر یہ وہیل مچھلی روسی تربیت یافتہ ہے کیوں کہ یہ انسانوں سے بہت مانوس ہے۔ناورے میں ہی اس مچھلی کو ’ہوالدیمیر‘ کا نام دیا گیا جو مقامی زبان میں ہوال یعنی ’وہیل‘ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے نام کو جوڑ کر طنزیہ طور پر بنایا گیا۔واضح رہے کہ روس نے ڈولفن مچھلیوں کو عسکری مقاصد کے لیے ماضی میں استعمال کیا ہے اور بارینٹس آبزورو ویب سائٹ نے مرمانسک بحری اڈے کے شمال مغربی علاقے میں وہیل مچھلیوں کے لیے مخصوص مقامات کی تعمیر کی شناخت کی تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
روس کی ’جنگجو ڈولفن‘
میڈیا میں اکثر ایسی لڑاکا ڈولفن کا ذکر ہوتا ہے جنھیں مبینہ طور پر روس سیواسٹاپول بے نامی بحری اڈے کی حفاظت کے لیے استعمال کرتا ہے۔اندرے ریزینکو عسکری امور کے ماہر ہیں جن کا بچپن سیواسٹاپول میں گزرا۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈولفن قدرتی ریڈار کی حامل ہوتی ہیں جن کی مدد سے وہ پانی کے نیچے لوگوں اور اشیا کی موجودگی کافی فاصلے سے ہی شناخت کر سکتی ہیں۔اندرے ریزینکو کے مطابق چند تربیت یافتہ ڈولفن روسی بحریہ کے سپرد کر دی گئیں اور 1975 سے ان کو روسی بحری اڈے کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ان کا دعوی ہے کہ یہ ڈولفن ایک ہتھیار سے لیس ہوتی ہیں اور کسی کو ہلاک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں خصوصا ایسے غوطہ خور ڈائیورز کو جو روسی بحری جہازوں کو تباہ کرنے کے ارادے سے زیر سمندر آ سکتے ہوں۔انھوں نے وضاحت کی کہ ان ڈولفن پر ایک نیزہ نصب کیا جاتا ہے اور انھیں تربیت دی جاتی ہے کہ کیسے زیر سمندر کسی غوطہ خور کے سینے میں اسے گھونپا جا سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ 1980 میں سیواسٹاپول کے بحری سکول میں انھوں نے یہ آلہ دیکھا تھا۔ تاہم حقیقت میں اب تک ان ڈولفن کی جانب سے کسی کے خلاف کارروائی کے شواہد نہیں ہیں۔مغربی خفیہ ایجنسیوں کا دعوی ہے کہ 2014 سے روس نے عسکری مقاصد کے لیے ڈولفن کا دوبارہ استعمال شروع کیا۔2022 میں سیٹلائیٹ تصاویر کی مدد سے دیکھا گیا کہ روس نے سیواسٹاپول بندرگاہ کے باہر ڈولفن کے پنجرے رکھے ہوئے تھے۔ برطانوی خفیہ ایجنسی کی جانب سے تازہ ترین تصاویر میں نئی پنجرے بھی دیکھے گئے ہیں۔اگرچہ اب تک ڈولفن کے کامیاب عسکری استعمال کے ٹھوس شواہد دستیاب نہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا استعمال ممکن ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.