ہنری کسنجر: جنگی جرائم کے الزامات کے باوجود امن کا نوبیل انعام پانے والے امریکی سفارتکار
،تصویر کا ذریعہGetty Images
100 برس کی عمر میں وفات پانے والے امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے بارے میں دنیا کی رائے کافی منقسم ہے۔
خارجہ امور میں ’حقیقت پسندی‘ کے حامی کے طور پر انھیں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا جبکہ جنگی جرائم کے لیے ان کی مذمت بھی کی گئی۔
امریکہ کے سیکریٹری خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر انھوں نے مذاکرات کے ذریعے سیاسی بحران حل کرنے کی پالسی پر عمل کیا، جس سے چین اور سوویت یونین کے تعلقات میں بہتری آئی۔
ان کی ’شٹل ڈپلومیسی‘ نے سنہ 1973 کے عرب اسرائیل تنازع کو ختم کرنے میں مدد کی اور پیرس امن معاہدے میں ہونے والے مذاکرات کی وجہ سے ہی امریکہ ویتنام کے ’ڈراؤنے خواب‘ سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوا۔
لیکن جہاں ہنری کسنجر کے حمایتی انھیں ایک ’حقیقی سیاسی‘ شخصیت کے طور پر بیان کرتے ہیں وہیں ان کے ناقدین ان کے بعض اقدامات کو ’غیر اخلاقی‘ قرار دیتے ہیں۔
ان پر چلی میں بائیں بازو کی حکومت کا تختہ الٹنے والی خونی بغاوت کی حمایت اور ارجنٹینا کی فوج کی جانب سے اپنے ہی ملک کے لوگوں کے خلاف ’ڈرٹی وار‘ پر آنکھیں بند رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
جب اس بات کا اعلان کیا گیا کہ ہنری کسنجرکو نوبل انعام سے نوازا گیا ہے تو امریکی کامیڈین ٹوم لہرر نے کھلے عام کہا کہ ’اب سیاسی مزاح کی ضرورت نہیں رہی۔‘
جرمنی سے فرار
ہینز الفریڈ کسنجر 27 مئی 1923 کو جرمنی کی ریاست باواریا میں ایک متوسط یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
ان کا خاندان نازیوں کے جبر اور ظلم سے بچنے کے لیے جرمنی سے امریکہ منتقل ہو گیا اور سنہ 1938 میں نیویارک میں جرمنی کی یہودی کمیونٹی میں شامل ہو گیا۔
ہنری فطری طور پر ایک شرمیلے نوجوان تھے، جنھوں نے کبھی اپنے لہجے یا فٹبال سے محبت کو نہیں کھویا۔
وہ رات کے وقت ہائی سکول جاتے جبکہ دن کے وقت شیونگ برش بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کرتے۔ ہنری اکاؤنٹنسی پڑھنا چاہتے تھے لیکن پھر وہ فوج میں بھرتی ہو گئے۔
ان کی دماغی صلاحیتوں اور زبان کی مہارت کو ملٹری انٹیلیجنس میں استعمال کیا گیا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران کسنجر نے جرمنی میں ’بلج کی لڑائی‘ میں ایک زیر قبضہ جرمن شہر کا انتظام سنبھالا اور جنگ کے اختتام پر کاؤنٹر انٹیلیجنس میں شمولیت اختیار کی۔
صرف 23 برس کے ہنری کسنجر کو نازیوں کی خفیہ پولیس گسٹاپو کے سابق افسران کو پکڑنے کے لیے ایک ٹیم اور مشتبہ افراد کو حراست میں لینے کا مکمل اختیار بھی دیا گیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کسنجر 11 برس کی عمر میں اپنے بھائی والٹر کے ساتھ
چھوٹی ایٹمی جنگیں
امریکہ واپسی پر انھوں نے ہارورڈ سے پولیٹیکل سائنس میں مزید تعلیم حاصل کی۔
سنہ 1957 میں ’ایٹمی جنگ اور خارجہ پالیسی‘ کے نام سے ان کی ایک کتاب شائع ہوئی، جس میں کہا گیا کہ ایک محدود پیمانے پر ہونے والی ایٹی جنگ کو جیتا جا سکتا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ چھوٹے میزائلوں کے ’سٹریٹجک‘ استعمال کا جواز ہو سکتا ہے۔
اس کتاب کی بدولت انھیں توجہ ملی اور شہرت اور اثرورسوخ کی جانب ہنری کا لانگ مارچ شروع ہوا۔ ’چھوٹی ایٹمی جنگ‘ کا ان کا نظریہ اب بھی خاصا مقبول ہے۔
وہ نیو یارک کے گورنر اور صدارتی امیدوار نیلسن راک فیلر کے معاون بن گئے اور جب سنہ 1968 میں رچرڈ نکسن امریکہ کے صدر بنے تو ہنری کسنجر کو قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے کی پیشکش کی گئی۔
یہ ایک پیچیدہ رشتہ تھا۔ صدر نکسن نے بین الاقوامی امور پر کسنجر کے مشورے پر بھروسہ بھی کیا لیکن کبھی کبھی وہ یہود مخالف اور امریکی یہودیوں پر شک بھی کرتے تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
مذاکرات
سرد جنگ اپنے عروج پر تھی، امریکی افواج ابھی تک ویتنام میں تھیں اور روس نے حال میں ہی پراگ پر حملہ کیا تھا لیکن صدر نکسن اور کسنجر نے سوویت یونین کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کا فیصلہ کیا اور جوہری ہتھیاروں کو کم کرنے کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔
اس کے ساتھ ہی ژو این لائی کے ذریعے چینی حکومت کے ساتھ بات چیت کا آغاز بھی ہوا۔ اس سے چین اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آئی اور سوویت یونین کی قیادت پر سفارتی دباؤ ڈالا گیا۔
کسنجر کی کوششوں کی ہی بدولت سنہ 1972 میں نکسن نے چین کا تاریخی دورہ کیا اور ژو این لائی اور ماؤ زے تنگ سے ملاقات بھی کی۔
اس دورے سے امریکہ اور چین کے درمیان 23 برس سے جاری سفارتی کشیدگی ختم ہوئی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
رچرڈ نکسن امریکہ کے صدر بنے تو ہنری کسنجر کو قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے کی پیشکش کی گئی
ویتنام
اسی دوران امریکہ خود کو ویتنام سے نکالنے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔
’عزت کے ساتھ امن‘ نکسن کا ایک اہم انتخابی وعدہ تھا اور کسنجر نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ امریکی فوج کی فتوحات بے معنی ہیں کیونکہ ان سے ایسی ’سیاسی حقیقت‘ کو حاصل نہیں کیا جا سکتا، جو امریکہ کے حتمی انخلا کی وجہ بن سکے۔
انھوں نے شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا لیکن نکسن کی اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ غیر جانبدار کمبوڈیا پر خفیہ بمباری کی جائے تاکہ کمیونسٹس کو فوج اور دیگر رسد سے محروم کیا جا سکے۔
اس پالیسی کی وجہ سے 50 ہزار عام شہری مارے گئے اور کمبوڈیا میں عدم استحکام، ملک میں خانہ جنگی اور آمر پول پوٹ کی ظالمانہ حکومت کا باعث بنا۔
پیرس میں ویت کانگرس کے ساتھ مذاکرات کے دوران کسنجر جو اب امریکہ کے سیکریٹری خارجہ بن چکے تھے، نے جنوبی ویتنام سے امریکی فوج کے انخلا پر بات چیت کی۔
اس کامیابی پر انھیں اور شمالی ویتنام کے لی ڈک تھو کو امن کا نوبل انعام دیا گیا، ایک ایسا فیصلہ جس پر شدید تنقید کی گئی۔
لی ڈک تھو نے یہ نوبل انعام لینے سے انکار کر دیا لیکن کسنجر نے اس ایوارڈ کو قبول کرتے ہوئے اس کے ساتھ ملنے والی تمام رقم ان امریکی فوجیوں کے بچوں کے لیے عطیہ کر دی جو اس تنازع میں مارے گئے تھے۔
دو سال بعد جب کمیونسٹ افواج نے جنوبی ویتنام پر قبضہ کیا تو کسنجر نے انھیں روکنے کی کوشش کی۔
ریئل پولیٹک
کسنجر کی شٹل ڈپلومیسی کی بدولت ہی سنہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد جنگ بندی ہوئی۔
وائٹ ہاؤس کے خفیہ ٹیپنگ سسٹم میں اسرائیل کی وزیر اعظم گولڈا میئر کی جانب سے صدر نکسن اور کسنجر کا شکریہ ادا کرنے کی ایک ریکارڈنگ سامنے آئی۔
ان ٹیپس کی بدولت کسنجر کی شخصیت کا ایک تاریک پہلو سامنے آیا۔
کسنجر اور نکسن کا سوویت یونین پر اس بات کے لیے دباؤ ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ روسی یہودیوں کو اسرائیل میں نئی زندگی شروع کرنے کی اجازت دے۔
ان ٹیپس کے مطابق کسنجر نے یہ کہا کہ سوویت یونین سے یہودیوں کی نقل مکانی امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مقصد نہیں اور اگر سوویت یونین میں یہودیوں کو گیس چیمبرز میں ڈالا جاتا ہے تو یہ امریکہ کا مسئلہ نہیں۔
مارکسسٹ سلواڈور ایلینڈے کے چلی کے صدر منتخب ہونے نے البتہ امریکہ کو پریشان کر دیا کیونکہ نئی حکومت امریکی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لینے اور کیوبا کی حامی تھی۔
سی آئی نے امریکہ میں خفیہ آپریشن کیے تاکہ نئی حکومت کو گرانے میں اپوزیشن کی مدد کی جا سکے۔ کسنجر اس کمیٹی کے چیئرمین تھے، جس نے ان کارروائیوں کی اجازت دی۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں ایک ملک کو اس کے غیر ذمہ دارعوام کی وجہ سے کمیونسٹ بنتے ہوئے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
آخر کار چلی کی فوج نے مداخلت کی اور سلواڈور ایلینڈے ایک پرتشدد بغاوت میں مارے گئے اور جنرل آگسٹو پنوشے نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ان کے بہت سے فوجیوں کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ وہ سی آئی اے سے تنخواہ لیتے تھے۔
بعد کے برسوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فوجی حکومت میں غیر ملکیوں کی اموات پر کسنجر کو بہت سی عدالتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک برس بعد واٹر گیٹ سکینڈل پر صدر نکسن کو استعفیٰ دینا پڑا لیکن ان کے جانشین گیرالڈ فورڈ نے کسنجر کو سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر برقرار رکھا۔
کسنجر نے افریقی ملک روڈیسیا کی سفید فام اقلیتی حکومت پر اقتدار چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا، ان پر ارجنٹینا اسٹیبلشمینٹ کے ناقدین کی گمشدگیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام بھی لگا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کسنجر کی کوششوں کی ہی بدولت سنہ 1972 میں نکسن نے چین کا تاریخی دورہ کیا اور ژو این لائی اور ماؤ زے تنگ سے ملاقات بھی کی
’طاقت سب سے شہوت انگیز غذا‘
سنہ 1977 میں سیکریٹری خارجہ کا عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی یہ تنازع ان کے ساتھ رہا۔ یہاں تک کے انھیں کولمبیا یونیورسٹی میں ایک عہدے کی پیشکش کو طلبا کے احتجاج کے بعد واپس لے لیا گیا۔
وہ جمی کارٹر اور بل کلنٹن کی خارجہ پالیسی کے طاقتور نقاد بن گئے اور اس کے لیے انھوں نے دلیل دی کہ یہ صدور مشرق وسطیٰ میں امن کی طرف بہت تیزی سے چھلانگ لگانا چاہتے ہیں۔ کسنجر کے مطابق یہ آہستہ آہستہ ہی ممکن تھا۔
امریکہ میں ںائن الیون کے بعد امریکی صدرجارج ڈبلیو بش نے انھیں ان حملوں کی تحقیقات کی سربراہی کا کام سونپا لیکن اپنی کنسلٹنسی کے کلائنٹس کی فہرست ظاہر کرنے اور مفادات کے تصادم کے بارے میں سوالوں کے جواب دینے سے انکار کے بعد وہ چند ہفتے کے اندر ہی استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے۔
کسنجر نے صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور سنہ 2003 میں عراق پر حملے کی پالیسی پر مشورے دیے۔ کسنجر نے انھیں بتایا کہ ’بغاوت پر فتح ہی واحد حکمت عملی ہے۔‘
ہمیشہ اپنا اثرورسوخ رکھنے والے کسنجر نے سنہ 2017 کے امریکی الیکشن کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خارجہ امور پر بریفنگ دی اور بہت سی دوسری تجاویز کے ساتھ انھیں روسی صدر ولادیمیر پوتن کے کریمیا پر قبضے کو قبول کرنے کا مشورہ بھی دیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہنری کسنجر 1976 میں جنرل آگسٹو کا استقبال کر رہے ہیں
تاہم سنہ 2023 میں جب وہ 100 سال کی عمر کو پہنچے تو یوکرین کے بارے میں انھوں نے اپنا نقطہ نظر بدل لیا تھا۔
روسی حملے کے بعد کسنجر نے زور دیا کہ یوکرین کے صدر زیلنسیکی کو ملک میں امن قائم ہونے کے بعد نیٹو میں شامل ہونا چاہیے۔
ہنری کسنجر ایک بات بہت شوق سے کہا کرتے تھے کہ ’طاقت سب سے شہوت انگیز غذا ہے۔‘
گذشتہ صدی کے دوران دنیا بھر میں ہونے والے بڑے واقعات میں کسنجر ایک اہم کرادر رہے۔ بہت سے لوگوں کی نفرت اور غصے کے باوجود بھی وہ امریکی مفادات کے دفاع کے بارے میں کبھی معذرت خواہ نہیں رہے۔
کسنجر نے ایک بار کہا تھا کہ ’ایک ایسا ملک جو اپنی خارجہ پالیسی میں اخلاقیات کا مطالبہ کرتا ہے، وہ نہ تو کمال حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی سکیورٹی۔‘
Comments are closed.