’ہم مہینے میں صرف ایک مرتبہ گوشت کھاتے ہیں‘: 109 فیصد شرح مہنگائی والے ملک میں رہنا کیسا ہوتا ہے؟

bbc

  • مصنف, ویرونیکا سمنک
  • عہدہ, بی بی سی نیوز منڈو، آرجنٹینا

رواں سال اپریل میں ارجنٹینا میں مہنگائی کی شرح کا سالانہ تخمینہ 109 فیصد لگایا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ لاطینی امریکہ کے ملک میں کروڑوں افراد اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ بی بی سی نے ارجنٹینا کے ایسے باشندوں سے ملاقات کی جو اس وقت یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کی زندگی مزید کتنی مشکل ہو سکتی ہے۔

یانینا کے لیے ایسے ملک میں رہنا جہاں زندگی کی عام ضروریات پوری کرنے والی اشیا کی قیمتوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے بالکل بھی نیا نہیں ہے۔ جب انھوں نے بیونس آئرس کے پاس ایک پسماندہ علاقے میں ایک چھوٹا سا گروسری سٹور کھولا تھا تو اس وقت سالانہ مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے زیادہ ہو چکی تھی۔

اب مہنگائی کی شرح اس سے کئی گنا زیادہ ہے اور یانینا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ لوگ اب کسی نہ کسی طرح اپنا خیال رکھنے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور اپنی ضروریات سے بڑھ کر بھی چیزیں خرید رہے ہیں۔

یانینا کہتی ہیں کہ ’لوگ یہاں سے اگر 10 اشیا خریدتے ہیں تو ان میں سے صرف چار ہی بنیادی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔‘

مہنگائی کا طوفان

سنہ 2018 کے بعد سے ارجنٹینا میں مہنگائی کی سالانہ شرح میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اپریل میں شائع کیے گئے تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت یہ شرح 109 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور ایسا تین دہائیوں میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔

ملک میں یہ معاشی طوفان ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب یہاں کرنسی کا بحران اور قحط سالی کا مسئلہ موجود تھا جس نے پہلے ہی ملک کی زراعت کو بہت متاثر کر رکھا تھا۔

دوسری آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بیونس آئرس ملکی اخراجات کم کرنے پر بھی مجبور ہے تاکہ اسے آئی ایم ایف کی جانب سے قرض پیکج مل سکے۔

اس کے باعث یانینا کے سٹور سے اشیا خریدنے والوں کے رویے بھی بدلے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اب وہ صرف ضروری اشیا ہی خریدتے ہیں۔‘

یہ وہ افراد ہیں جو خوش قسمت ہیں کیونکہ آرجنٹینا کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق مارچ میں ملک کے 40 فیصد باشندوں غربت کا شکار ہو چکے ہیں۔ 14 سال سے کم عمر بچوں میں سے 55 فیصد اس وقت غربت میں رہ رہے ہیں۔

معاشی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتی مہنگائی کے باعث ان اعدادوشمار میں اس سال مزید اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

مہنگائی ایک ایسی چیز ہے جو غریب افراد کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ مہنگائی کی بڑھتی شرح کے باعث کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوتا ہے اور غریب خاندان عام طور پر اپنے تھوڑے سے بجٹ کا بڑا حصہ کھانے پر صرف کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ آرجنٹینی باشندوں کی بڑی تعداد دہاڑی دار مزدور ہیں اور جہاں تنخواہ دار طبقے کو حکومت کی جانب سے تنخواہیں بڑھانے یا ٹریڈ یونین کے ساتھ معاہدوں کے باعث فائدہ ملتا ہے وہاں اس کے برعکس ان کی اجرت کے لیے وہ قواعد اور حقوق وضع نہیں ہیں۔

store

’اب آپ اگر کام کرتے ہیں تب بھی آپ غریب ہی ہیں‘

یہی صورتحال فری لانس کام کرنے والے افراد کی بھی جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کووڈ 19 کی عالمی وبا کے بعد سے دہاڑی داڑ افراد کے ساتھ مل کر آرجنٹینا کی آدھی سے زیادہ مزدور فورس کا حصہ ہیں۔

تاہم کسی ادارے کے ساتھ منسلک ہونے یا نوکری کرنا بھی مہنگائی سے محفوظ رہنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ حالانکہ آرجنٹینا میں بیروزگاری کی شرح صرف 6.3 فیصد ہے تاہم لوگوں کو ملنے والی تنخواہوں کی قدر کرنسی کی قدر کے اعتبار سے بہت کم ہو چکی ہے۔

آرجنٹینا میں کم از کم اجرت ساڑھے تین سو ڈالر ماہانہ ہے جو جنوبی امریکہ کے ممالک میں دوسری سب سے کم اجرت بنتی ہے۔ تاہم ایک خاندان جس میں دو ادھیڑ عمر افراد اور دو بچے ہوں ان کے لیے اپریل میں اوسطاً کھانے پینے پر آنے والے ماہانہ اخراجات 829 ڈالر ہیں۔ اور ابھی اس میں گھر کی دیگر اخراجات شامل نہیں کیے گئے۔

سنتھیا 37 سال کی ہیں اور وہ یانیا کے سٹور میں بچے کے لیے بسکٹ خریدنے کے لیے آئی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی ایک بچوں کے ہسپتال میں اچھی نوکری ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے والدین کے ساتھ رہنے پر اس لیے مجبور ہونا پڑا کیونکہ اب گھروں کے کرائے بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔

سنتھیا کہتی ہیں کہ ’میں اپنی تنخواہ میں پورا نہیں کر پا رہی تھی اور میرے والدین کو ان کی پینشن پوری نہیں پڑ رہی تھی۔‘

تاہم رقم جوڑ کر بھی وہ ہر ویک اینڈ پر باربی کیو کھانے سے قاصر ہیں جو اس سے پہلے ان کے گھر کی روایت تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی فیملی کے لیے اب یہ ایک ماہانہ ٹریٹ بن گئی ہے۔

سنتھیا بچوں کے لیے ان کی پسندیدہ ٹافیاں بھی نہیں لے سکتیں کیونکہ ’قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ارجنٹینا میں ہمیشہ سے ہی مہنگائی رہی ہے لیکن اب آپ اگر کام کرتے ہیں تب بھی آپ غریب ہی ہیں۔‘

mundo

امیروں کو بھی دھچکا لگا ہے

سنتھیا کا کہنا ہے کہ قیمتوں کی شرح میں تیزی سے اضافے کے باعث یہ اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں ہے کہ گراسری کی قیمتیں کتنی ہوں گی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں ہے کہ ہمیں ان بسکسٹس کے لیے کتنے پیسے دینے پڑیں گے۔ گذشتہ روز ان کی ایک قیمت تھی، آج زیادہ ہو گئی ہے۔‘

تاہم وہ افراد بھی مشکلات کا شکار نظر آ رہے ہیں جن کی تنخواہیں زیادہ ہیں۔ بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ تنخواہوں میں اضافے کے باعث ایسے افراد کو زیادہ ٹیکسز بھرنے پڑتے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے ٹیکس بینڈز تبدیل نہیں کیے گئے۔

گوئلیرمو 67 سالہ لاجسٹکس ماہر ہیں جو دو برس قبل ایک ایئرلائن کارگو مینیجر کے طور پر تین دہائیوں سے کام کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ تاہم انھیں دوبارہ اس لیے نوکری کرنی پڑ رہی ہے کیونکہ وہ خود کو اور اپنے بچوں کو مالی طور پر خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔

بیونس آئرس کے شمالی علاقے نارڈیلٹا جہاں مالی طور پر آسودہ افراد رہتے ہیں میں ایک سپر مارکیٹ میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گوئلیرمو کا کہنا تھا کہ ’اس سال میں نے اپنی پوتی کے سکول کی فیس بھی دینا شروع کی کیونکہ اس کے والدین ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ صرف چار ماہ میں اس کی ٹیوشن فیس دوگنی ہو گئی۔‘

تاہم اس تنخواہ اور پینشن کے باوجود گوئلرمو کا ہاتھ تنگ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں پہلے سگار پیتا تھا، لیکن وہ درآمد کیے جاتے ہیں اور ان کی قیمت کے باعث میں نے وہ پینا چھوڑ دیے ہیں۔ پہلے دس سگارز کی قیمت 300 آرجنٹینی پیسو یعنی 1.29 ڈالر ہوتی تھی اب ان کی قیمت 4200 پیسو یعنی 18.16 ڈالر ہو گئی ہے۔ میرے لیے ایسا کرتے رہنا ناممکن ہو گیا تھا۔‘

prices

سیاسی بحران

ڈالر کے مقابلے میں پیسو کی قدر میں کمی بھی ارجنٹینا میں مہنگائی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ بیرونِ ملک چھٹیاں گزارنے یا نئی گاڑیاں درآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے کیونکہ یہ امریکی ڈالر میں کی جاتی ہے۔

ماہرِ نفسیات اور دو بچوں کی ماں 33 سالہ جیسیکا کا کہنا ہے کہ ’ہم اکثر کچھ عرصے بعد گاڑی خریدتے تھے لیکن اب ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اب ہم آرجنٹینا میں ہی سیر کرنے جاتے ہیں کہیں باہر نہیں۔‘

تاہم وہ خود کو ’انتہائی خوش قسمت افراد میں سے ایک مانتی ہیں۔‘ کیونکہ وہ اپنا کلینک چلاتی ہیں اس لیے وہ اپنی فیس اپنے لائف سٹائل کے اعتبار سے بڑھا سکتی ہیں۔

تاہم جیسیکا اور بی بی سی کی جانب سے جن دیگر افراد کا انٹرویو کیا گیا ان کا ماننا ہے کہ ارجنٹینا میں معاشی صورتحال سنہ 2023 میں مزید خراب ہو سکتی ہے کیونکہ اکتوبر میں صدارتی انتخابات ہیں۔

اس وقت انتہائی غیر یقینی صورتحال ہے کیونکہ صدر البرٹو فرنینڈیز اور ان سے قبل صدارتی عہدہ سنبھالنے والے موریشیو ماکری اور موجودہ نائب صدر کرسٹینا کرچنر نے صدارتی انتخاب میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس غیر یقینی صورتحال میں آرجنٹائن ووٹرز دعا کر رہے ہیں کہ یہ سنہ 1989-90 اور 2001-02 کے معاشی بحران کی طرح نہیں ہو گا جس نے اس وقت متعدد زندگیوں کو متاثر کیا تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ