72 سالہ جیزل پلیکوٹ نے 50 سال تک اپنے شوہر رہنے والے ڈومینیک سمیت اِن 51 مردوں کے خلاف عدالت میں شواہد جمع کرائے ہیں جن پر ریپ کا الزام ہے۔عدالت میں دائر کردہ دستاویزات کے مطابق ڈومینیک نے پولیس کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ بے ہوش بیوی کا دوسرے مردوں کے ساتھ سیکس جنسی تسکین کا باعث تھا۔ اس کیس کے کئی جواب دہندگان کا دعویٰ ہے کہ ان کے خلاف ریپ کا الزام اس لیے درست نہیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ رضامندی کے ساتھ ایک ’سیکس گیم‘ میں حصہ لے رہے ہیں۔تاہم جیزل نے عدالت کو بتایا کہ اس سیکس میں ان کی رضامندی نہیں تھی اور وہ کبھی بھی جان بوجھ کر سونے کا دکھاوا نہیں کرتی تھیں۔
’پولیس نے میری سیکس لائف کے بارے میں پوچھا‘
جیزل کے وکلا کی ٹیم نے کہا کہ جیزل نے اپنا نام چھپانے کا حق اس لیے استعمال نہیں کیا کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ ’شرم‘ انھیں نہیں بلکہ ملزمان کو آنی چاہیے۔جمعرات کو جیزل نے عدالت کو بتایا کہ وہ ان تمام خواتین کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں جنھیں ’لاعلمی میں رکھ کر نشہ آور چیز دے کر بے ہوش کیا گیا‘۔ وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ کسی بھی خاتون کو ایسے واقعات سے نہ گزرنے پڑے۔72 سالہ متاثرہ خاتون کو ان مبینہ جرائم کے بارے میں 2020 میں اس وقت علم ہوا جب پولیس نے ان کو آگاہ کیا۔جیزل کہتی ہیں کہ نومبر 2020 کے دوران پولیس نے ایک بار انھیں کہا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ تفتیش میں بیٹھیں۔اس وقت ان کے شوہر کو ایک سپر مارکیٹ میں خواتین کی سکرٹ کے نیچے سے ان کی تصاویر لیتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ جیزل نے عدالت کو بتایا کہ انھیں لگتا تھا پولیس کے ساتھ یہ ملاقات اُس واقعے سے متعلق تھی۔،تصویر کا ذریعہEPAوہ عدالت کو بتاتی ہیں کہ ’پولیس افسر نے مجھ سے میری سیکس لائف کے بارے میں پوچھا۔‘’میں نے انھیں بتایا کہ میں نے کبھی پارٹنر سواپنگ یا تھری سم نہیں کیا تھا۔ میں نے بتایا میں ایک ہی مرد کے ساتھ زندگی گزارنے والی خاتون ہوں۔ میں اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کی جانب سے چھونے کو برداشت نہیں کر سکتی۔‘’لیکن ایک گھنٹے بعد (پولیس) افسر نے کہا ’میں آپ کو کچھ چیزیں دکھانے جا رہا ہوں جو آپ کو اچھی نہیں لگیں گی۔‘ انھوں نے فولڈر کھولا اور مجھے ایک تصویر دکھائی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں بیڈ پر مرد یا خاتون دونوں کو پہچان نہ سکی۔ افسر نے پوچھا ’میڈم، کیا یہ آپ کے بیڈ اور بیڈ سائیڈ ٹیبل ہے؟‘’خود کو اس حالت میں پہچاننا مشکل تھا۔ پھر انھوں نے مجھے دوسری اور تیسری تصاویر دکھائیں۔‘’میں نے ان سے رُکنے کو کہا۔ یہ ناقابل برداشت تھا۔ میں بیڈ پر بے ہوش تھی اور ایک مرد میرا ریپ کر رہا تھا۔ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔‘
’ہمارا شادی خوشگوار تھی، ہم مثالی جوڑا تھے‘
جیزل کہتی ہیں کہ اس وقت تک ان کی شادی بہت خوشگوار تھی۔ انھوں نے اور ان کے شوہر نے صحت اور پیسوں سے متعلق کئی پریشانیوں کا مقابلہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے سپر مارکیٹ میں ہونے والے واقعے پر اپنے شوہر کو معاف کر دیا تھا، اس وعدے پر کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم نے جو کچھ ساتھ بنایا تھا، وہ سب برباد ہوگیا۔ ہمارے تین بچے، سات نواسے ہیں۔ ہم مثالی جوڑا ہوا کرتے تھے۔‘’میں غائب ہو جانا چاہتی تھی۔ لیکن مجھے اپنے بچوں کو بتانا تھا کہ ان کے والد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ میں نے اپنے داماد سے کہا کہ میری بیٹی کے ساتھ رہے جب میں انھیں بتاؤں کہ ان کے باپ نے میرا ریپ کیا اور دوسروں سے میرا ریپ کروایا۔‘’وہ اس پر چیخیں۔ وہ آواز آج بھی میرے ذہن میں ہے۔‘آنے والے دنوں میں عدالت کو اس کیس میں مزید شواہد جمع کرائے جائیں گے۔ یہ اس بارے میں ہیں کہ کیسے ڈومینیک نے مبینہ طور پر ’سیکس چیٹ‘ سے متعلق ویب سائٹس کے ذریعے مردوں سے رابطہ کیا اور انھیں اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔پولیس کا الزام ہے کہ ان مردوں کو کڑی ہدایات دی جاتی تھیں۔ انھیں کچھ فاصلے پر گاڑی پارک کرنا ہوتی تھی تاکہ کوئی ان کی طرف متوجہ نہ ہو۔ اور انھیں نیند کی گولیاں دیے جانے کے ایک گھنٹے تک انتظار کرنا پڑتا تھا تاکہ جیزل اس سے بے ہوش ہو کر سو جائیں۔ان کا مزید دعویٰ ہے کہ ایک بار گھر میں اِن مردوں سے کہا گیا کہ وہ کچن میں برہنہ ہوجائیں اور ریڈیئیٹر یا گرم پانی کی مدد سے اپنے ہاتھ گرم کر لیں۔ تمباکو یا پرفیوم کی اجازت نہیں تھی کیونکہ اس سے جیزل جاگ سکتی تھیں۔ کنڈوم کی ضرورت نہیں تھی۔اس معاملے میں پیسوں کا لین دین نہیں ہوتا تھا۔ تحقیقات کے مطابق ڈومینیک ان مناظر کو دیکھتے تھے اور ویڈیوز بناتے تھے۔ انھوں نے ایک ہارڈ ڈرائیو فائل بنا رکھی تھی جس میں قریب چار ہزار تصاویر اور ویڈیوز تھیں۔ یہ سپر مارکیٹ میں خواتین کی سکرٹ کے نیچے سے تصاویر کھینچنے کا ہی معاملہ تھا کہ پولیس نے ان کے کمپیوٹر سے یہ فائلز برآمد کیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سنہ 2011 سے 2020 تک قریب 200 مرتبہ ریپ کے شواہد ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ سب پیرس کے نواحی علاقے میں ہوا اور 2013 کے بعد مزان میں جہاں وہ منتقل ہوچکے تھے۔تفتیش کاروں کا الزام ہے کہ نصف سے زیادہ مرتبہ خود ان کے شوہر نے ان کا ریپ کیا۔ اس میں شامل اکثر مرد کچھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہی رہتے تھے۔
’میرے اندر تباہی کا منظر ہے‘
جب جج نے جمعرات کو ان سے پوچھا کہ آیا وہ کسی ملزم کو پہچان سکی ہیں تو جیزل نے بتایا کہ وہ صرف ایک کو پہچان سکی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’وہ ہمارا پڑوسی تھا۔ وہ ہماری بائیکس چیک کرنے آیا تھا۔ میں انھیں بیکری میں دیکھا کرتی تھی۔ وہ ہمیشہ شائستہ رہتے تھے۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ میرا ریپ کرنے آتے تھے۔‘جج نے جیزل کو یاد کرایا کہ اس تاثر کا احترام کرنے کے لیے کچھ لوگ بے قصور ہو سکتے ہیں عدالت میں یہ طے ہوا ہے کہ ریپ کی بجائے ’سیکس سین‘ کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ان پر انھوں نے جواب دیا کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں حقائق تسلیم کرنے ہوں گے۔ جب میں سوچتی ہوں کہ انھوں نے کیا کِیا ہے تو مجھے گھن آتی ہے۔ انھیں کم از کم اپنے کِیے کی ذمہ داری لینی چاہیے۔‘جب حقیقت واضح ہوئی تو جیزل کو یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ ایک ایسی بیماری سے متاثرہ ہیں جو سیکس کی وجہ سے منتقل ہوئی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے کسی بھی ملزم سے کوئی ہمدردی نہیں۔ ایک شخص جو ایچ آئی وی پازیٹیو تھا وہ چھ مرتبہ آیا۔ میرے شوہر نے ایک بار بھی میری صحت کی فکر نہیں کی۔‘وہ اب اپنے شوہر کو طلاق دینے کے عمل میں ہیں۔ڈومینیک اور دیگر ملزمان کے سامنے دو گھنٹے تک بولنے کے بعد انھوں نے کہا کہ ’میرے اندر تباہی کا ایک منظر ہے۔ باہر سے مضبوط ہوں۔۔۔ لیکن اندر سے۔۔۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.