’ہمیں لگا دنیا ختم ہونے والی ہے‘: امریکہ کے پہلے جوہری تجربے کے متاثرین جنھیں دنیا سے چھپایا گیا
- مصنف, ڈاریو برُوکس
- عہدہ, بی بی سی نیوز
جولائی 1945 میں جب امریکہ کے خفیہ ’مین ہیٹن پراجیکٹ‘ کے تحت پہلے ایٹم بم کا تجرباتی دھماکہ کیا گیا تو اس کے کچھ دیر بعد چند شرمن ٹینک دھماکے کے مقام پر بھیجے گئے۔
ان ٹینکوں میں بیٹھے اہلکار بھاری بھرکم حفاظتی سوٹ زیب تن کیے ہوئے تھے تاکہ زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے اس جگہ کے نمونے اکھٹے کر سکیں۔
یہ سب نیو میکسیکو میں ’جورناڈو ڈیل مئیرتو‘ نامی مقام پر ہو رہا تھا جہاں ’گیجٹ‘ نامی پروٹو ٹائپ ایٹم بم نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دھماکہ کیا تھا۔
اس کامیاب تجربے کے چند دن بعد اگست میں امریکہ نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دو ایٹم بم گرا کر دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ کر دیا تھا۔
دسمبر 1945 تک ان دونوں شہروں میں اندازوں کے مطابق ایک لاکھ 10 ہزار افراد ہلاک ہو چکے تھے۔
مین ہیٹن منصوبے کے سربراہ رابرٹ اوپن ہائمر تھے جنھیں ’ایٹم بم کا خالق‘ کہا جاتا ہے۔
نیو میکسیکو کو ایٹم بم کے تجربے کے مقام کے لیے چنے جانے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں میلوں تک کوئی انسانی آبادی نہیں تھی۔
لیکن یہ مکمل طور پر درست نہیں تھا۔ تجربے کے مقام سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر کچھ مویشی پالنے والے لوگ (مویشی پال افراد) آباد تھے۔ تقریبا 80 کلومیٹر کے دائرے میں دیگر چھوٹے قصبے بھی موجود تھے جن میں مجموعی طور پر ہزاروں افراد بستے تھے۔
تاہم 16 جولائی 1945 کی صبح پانچ بج کر 30 منٹ پر ہونے والے دھماکے سے قبل ان لوگوں کو خبردار نہیں کیا گیا کہ ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے۔ یہ دھماکہ اتنا طاقتور تھا کہ میلوں دور ایل پاسو جیسے شہروں تک میں اس کی روشنی دیکھی گئی۔
ٹینا کورڈووا نے امریکی چینل ’پی بی ایس‘ کو 2021 میں انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ’مجھے علم ہوا کہ بستر میں سوئے ہوئے لوگ دھماکے کے بعد نیچے زمین پر گر گئے۔ انھوں نے ایک ایسی روشنی دیکھی جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، کیوںکہ دھماکے کے بعد سورج سے زیادہ روشن اور حدت والی چمک پیدا ہوئی تھی۔‘
’لوگوں کو لگا کہ دنیا ختم ہونے والی ہے۔‘
ٹیسٹ کے بعد امریکی ایئر فورس بیس الاموگورڈو نے ایک بیان جاری کیا کہ بارودی اسلحہ جس میں کافی دھماکہ خیز مواد موجود تھا پھٹ گیا ہے لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ایک مقامی اخبار میں کہا گیا کہ اسلحہ ڈپو میں دھماکے کے بعد موسمی حالات کی وجہ سے فوج نے چند شہریوں کو عارضی طور پر گھروں سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا ہے۔
اس بیان میں دھماکے کے مقام پر خطرناک تابکاری مواد کے بارے میں کسی قسم کی وضاحت نہیں دی گئی نہ ہی لوگوں کو خبردار کیا گیا۔
نارتھ کیرولینا یونیورسٹی کے ڈاکٹر ولیم کنسیلا نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹیسٹ کے بعد پیدا ہونے والے بادل دور دور تک پھیل گئے۔ ’ان میں سٹرونٹیئم، ٹیکنیشیئم، سیزیئم جیسے خطرناک مواد موجود تھے۔‘
امریکی ایئر فورس کے بیان میں نقل مکانی کا ذکر ایک خطرے کے پیش نظر کیا گیا تھا جو بعد میں حقیقت کا روپ دھار گیا۔ یہ خطرہ ایٹمی دھماکے کے بعد پیدا ہونے والے بادلوں سے تھا جن میں موجود گیسیں کافی خطرناک تھیں۔
ہوا کا رخ
مین ہیٹن پراجیکٹ کے منصوبہ سازوں نے ’ٹرینیٹی ٹیسٹ‘ کے لیے نیو میکسیکو صحرا کا مقام اس لیے چنا تھا کیوں کہ 1940 میں یہاں آبادی نہیں تھی اور موسم بھی کافی حد تک ایک جیسا ہوتا تھا۔
تاہم تجرباتی دھماکہ منصوبہ سازوں کی توقع سے کہیں زیادہ طاقتور تھا جس کے بعد ذرات سے پیدا ہونے والے بادل 15 ہزار سے 21 ہزار میٹر اونچائی تک پہنچے۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق، جو رواں ماہ ہی شائع ہوئی ہے، اس دھماکے کے بعد پھیلنے والے ذرات جنوبی کینیڈا اور شمالی میکسیکو سمیت امریکہ کی 46 ریاستوں میں پائے گئے تھے۔
دھماکے کے بعد تقریبا 400 کلومیٹر طویل اور 320 کلومیٹر چوڑا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ تابکاری مواد کی سب سے زیادہ مقدار اس مقام سے 48 کلومیٹر دور پائی گئی۔ تابکاری کے ’فال آؤٹ‘ کا سب سے زیادہ ارتکاز ٹیسٹ سائٹ سے 48 کلومیٹر دور چپاڈیرا میسا میں ہوا۔
ڈاکٹر ولیم کنسیلا کا کہنا ہے کہ ہوا کے رخ کے حساب سے آبادیاں متاثر ہوئیں اور ایسا ٹرینیٹی ٹیسٹ کے علاوہ دیگر تجرباتی دھماکوں میں بھی ہوا۔
لیکن اس وقت اس بات کا علم نہیں ہوا اور یہ اثرات بعد میں جا کر واضح ہوئے کیوںکہ امریکی حکومت کے مطابق تو یہ دھماکہ اسلحہ ڈپو کی وجہ سے ہوا تھا۔
تاہم منصوبہ ساز اس بات سے واقف تھے کہ نیو میکسیکو میں دراصل کیا ہوا تھا۔ امیلیو سیگرے مین ہیٹن پراجیکٹ کا حصہ تھے۔
انھوں نے بعد میں واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ایک لمحے کے لیے مجھے ایسا لگا کہ دھماکہ آسمان کو آگ لگا دے گا اور زمین کو مٹا دے گا اگرچہ میں جانتا تھا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔‘
مسائل
ٹینا کورڈووا نے ٹرینیٹی ٹیسٹ کے بعد بیمار ہو جانے والے افراد کے شواہد اکھٹے کیے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ نیو میکسیکو کے اس علاقے میں رہنے والوں کے پاس اس زمانے میں ٹی وی یا ریڈیو نہیں ہوا کرتا تھا اس لیے ان کو حقیقت کے بارے میں علم نہیں ہوا۔
اس علاقے میں بسنے والے پانی کے لیے بارش یا پھر زیر زمین موجود وسائل پر انحصار کرتے تھے اور پھر پانی کو ذخیرہ کر لیتے تھے۔ لیکن اس ذخیرے میں دھماکے کے بعد تابکاری مواد ملی مٹی یا ریت گھسنے کے امکانات موجود تھے۔ ان کے مویشی بھی تابکاری مواد سے متاثر ہو سکتے تھے۔
ٹینا کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل گئی اور ان کی زندگی میں اس تجربے کے بعد تابکاری مواد شامل ہو گیا۔
جوہری تجربے کے بعد مقامی لوگ بیمار پڑنا شروع ہو گئے۔ لیکن کافی عرصے تک کسی کو شک نہیں ہوا کہ ان بیماریوں کا تعلق اس تجربے سے ہے۔
ٹینا کا کہنا ہے کہ تجربے کے 10 سال بعد کینسر سے اموات ہوئیں۔ ’ان لوگوں نے کبھی کینسر کا لفظ بھی نہیں سنا تھا۔ میں اپنے خاندان کی چوتھی نسل میں سے ہوں جو کینسر سے متاثر ہے۔‘
ان کے ایک ہمسائے نے انھیں بتایا کہ ان کی ایک حاملہ عزیزہ دھماکے کے مقام پر گئی تھیں اور جب ان کا بچہ پیدا ہوا تو اس کی آنکھیں نہیں تھیں۔
ٹینا کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے لوگوں کے لیے دھماکے کے مقام کو بند تک نہیں کیا۔ 1950 تک اس مقام پر جانے کے لیے کوئی قدغن نہیں تھی۔ آج اگر آپ اس جگہ جائیں تو وہاں خبردار کرنے والے پیغامات نظر آتے ہیں۔ سوچیں کہ ٹیسٹ کے مہینوں اور چند برسوں بعد تک وہ جگہ کیسی ہو گی۔‘
ٹیسٹ کے مقام پر قرب و جوار میں رہنے والے لوگ جاتے رہے۔ لوگ وہاں پکنک تک مناتے تھے کیوںکہ ان کو کوئی خوف نہیں تھا۔ چند لوگوں نے ٹرینائٹ نامی عجیب و غریب لیکن خطرناک پتھر بھی دریافت کیا جس کا جنم دھماکے سے ہوا تھا۔
ٹینا کورڈووا نے پی بی ایس کو بتایا کہ لوگوں کو وہاں سے جو سامان ملا انھوں نے اسے استعمال کر لیا۔ ٹینا کے ہمسائیوں کو سٹیل ملا جس سے انھوں نے بچوں کا جھولا بنا لیا۔ کسی کو پیراشوٹ ملا جس کے پردے بنا لیے گئے۔
لیکن پھر پیدا ہونے والے بچوں میں ایسے مسائل نظر آنا شروع ہوئے جو سمجھ سے بالاتر تھے۔ شروع میں مانا گیا کہ شاید یہ پیٹ کی کوئی بیماری ہے۔ ہر ایک ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں سے 100 کی وفات ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیے
ایک کیس 12 بچیوں کا تھا۔ 83 سالہ باربرا کینٹ بھی ان میں سے ایک تھیں جنھوں نے سانتا فے نیو میکسیکن اخبار کو 2015 میں بتایا کہ ٹیسٹ کے بعد انھوں نے ایک ناقابل یقین چیز دیکھی: ’ہم نے سوچا جولائی میں برف باری۔۔۔ لیکن وہاں بہت گرمی تھی۔‘
’ہم نے اسے اپنے ہاتھوں پر ملا، اپنے چہروں پر ملا۔ ہم سب دریا میں کافی مزہ لے رہے تھے اور اس چیز کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے جو ہمارے خیال میں برف تھی۔‘
ان 12 بچیوں میں سے صرف دو ہی 40 سال سے زیادہ عمر تک پہنچ پائیں۔ باقی سب کی موت کینسر یا ایسی ہی بیماریوں سے ہوئی۔ خود باربرا کو بھی جلد کے سرطان کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈاکٹر کنسیلا کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد چین ری ایکشن میں بم میں موجود پلوٹونیئم کی زیادہ مقدار استعمال نہیں ہوئی جو ہوا میں خارج ہو گئی۔ ’یہ کافی تشویش ناک چیز تھی کیوںکہ اس کے اثرات دیر تک رہتے ہیں اور یہ کافی خطرناک ہوتی ہے۔‘
’دھماکے میں صرف 15 فیصد پلوٹونیئم کی کھپت ہوئی اور باقی ماندہ دھماکے کے مقام کے قریب ہی رہی جبکہ فژن مواد دور تک گیا۔‘
’زمین میں جذب ہو کر یہ تابکاری مواد زیر زمین سفر کرتا ہوا زرعی مصنوعات میں مل گیا اور یوں خوراک میں شامل ہو گیا مثال کے طور پر دودھ میں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ٹرینیٹی کے تجربے کے بعد زمین کے ٹیسٹوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے۔
امریکہ نے 1945 سے 1962 تک 200 جوہری ہتھیاروں کے تجربات کیے۔
یہ تجربے جن مقامات پر ہوئے ان کے قریب بسنے والی آبادی پر اثرات دہائیوں میں نظر آئے لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کی وجہ جوہری تجربہ ہی تھا۔
ٹلمین رف اور ڈیمیتری ہاکنز آسٹریلیا کی ملبرن یونیورسٹی اور سونبرن یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں جنھوں نے ایک مقالے میں وضاحت کی ہے کہ دنیا بھر میں ایٹمی دھماکوں کے تجربات کے بعد کینسر سے ہونے والی اموات کا تخمینہ 20 لاکھ سے 24 لاکھ تک لگایا گیا ہے۔ تاہم ان کے مطابق یہ تعداد اصل میں کافی زیادہ ہو سکتی ہے۔
ان کی تحقیق کے مطابق فرانس، برطانیہ، امریکہ سمیت دیگر ممالک میں جوہری شعبے میں کام کرنے والوں پر ہونے والی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ تابکاری مواد کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے سے بھی موت ہو سکتی ہے۔
شناخت کی جنگ
نیو میکسیکو کے قرب و جوار میں متاثرہ افراد کی تعداد کا اندازہ لگانے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔
20ویں صدی کے اختتام کے قریب امریکی حکومت اور کانگریس نے اس مسئلے کی جانب توجہ دینا شروع کی۔
لیکن انھوں نے صرف نیواڈا جیسی ریاستوں میں ہی یورینیئم انڈسٹری میں کام کرنے والوں کی طرح متاثرہ افراد کے لیے ڈھائی ارب ڈالر مالیت کا امدادی پروگرام متعارف کروایا۔
نیو میکسیکو کے رہائشی اب تک کسی قسم کی مدد یا شناخت حاصل نہیں کر پائے۔
ڈاکٹر کنسیلا کا کہنا ہے کہ ان آبادیوں میں اب تک جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے اثرات کو چھپایا جاتا ہے یا انکار کیا جاتا ہے۔ ’چند کیسوں میں مدد کی گئی لیکن یہ بہت محدود حد تک ہوا۔‘
امریکی محکمہ توانائی کی ایک رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا جا چکا ہے کہ نیو میکسیکو ریاست میں 107مقامات کی صفائی ضروری ہے۔
لاس ایموس نیشنل لیبارٹری، جہاں جوہری تجربے کا منصوبہ تیار ہوا تھا، نے گزشتہ سال بیریلیئم نامی زہریلے مواد کی موجودگی کا پتہ چلایا تھا جو سرطان اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کی وجہ بن سکتا ہے۔
ٹینا کارڈووا نیو میکسیکو کے لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں تاکہ انھیں ٹرینیٹی ٹیسٹ کے متاثرین کی شناخت مل سکے۔ ناواجو نیشن جیسے قصبوں میں بھی ایسے ہی مسائل ہیں۔
اس قصبے کے مقامی سربراہ کا کہنا ہے کہ ہسپانوی اور مقامی امریکی لوگ حکومتی امدادی پروگرام میں شامل نہیں کیے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومتی اہلکار کہتے ہیں کہ ’اس پر بہت پیسہ خرچ ہو گا۔ اور یہ ہماری قربانی پر نمک چھڑکنے جیسا ہے۔‘
Comments are closed.