ہما عابدین: ہیلری کلنٹن کی پاکستانی نژاد معاون کی کتاب میں ایبٹ آباد آپریشن اور دورہ پاکستان کا تذکرہ
- رفاقت علی
- بی بی سی اُردو سروس، لندن
’اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر پاکستانی فوج کے اعلیٰ اہلکار خفا تھے اور انھوں نے ہمیں جو چائے پیش کی وہ بھی نیم گرم تھی‘
امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی پاکستانی نژاد سیاسی معاون ہما عابدین نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جب اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں ہلاکت کے بعد وزیر خارجہ ہلری کلنٹن پاکستان کے دورے پر گئیں تھیں تو پاکستانی صدر آصف زرداری تو اس آپریشن کے ’حامی‘ نظر آئے لیکن فوجی افسران کے چہروں پر تناؤ تھا اور انھوں نے ہمیں جو چائے بھی پیش کی وہ ’نیم گرم‘ تھی۔
ہما عابدین ایک لمبے عرصے تک سابق وزیر خارجہ اور سابق صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی سیاسی معاون رہی ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ’بوتھ اینڈ: اے لائف اِن مینی ورلڈز‘ میں پاکستان کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ جب وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان کے صدر آصف زرداری سے میرا یہ کہہ کر تعارف کروایا کہ ’یہ میری ڈپٹی چیف آف سٹاف ہما عابدین ہیں اور اُن کی والدہ پاکستانی ہیں اور پاکستان میں ان کے کئی رشتے دار ہیں‘ تو صدر زرداری نے جواباً کہا کہ انھوں نے اپنی اہلیہ بینظیر بھٹو سے ہما عابدین کے بارے میں سُن رکھا ہے۔
ہما لکھتی ہیں کہ جب مزید باتیں ہوئیں تو ہیلری کلنٹن نے صدر زرداری کو بتایا کہ ہما عابدین کی ابھی ابھی منگنی ہوئی ہے۔ اس پر صدر زرداری نے پیچھے مڑ کر مجھے کہا: ’مبارک ہو۔ مجھے امید ہے کہ کسی اچھے سے پاکستانی لڑکے سے منگنی ہوئی ہے‘ اور پھر ایک زوردار قہقہہ لگایا۔
جب ہیلری کلنٹن نے صدر زرداری سے ہما عابدین کا تعارف کروایا تو صدر زرداری نے کہا کہ ’میں نے اپنی اہلیہ سے اِن کے بارے میں سُن رکھا ہے‘
ہما عابدین لکھتی ہیں کہ میں نے جواب میں کہا ’سر اس کے بالکل کے برعکس سوچیں۔‘
ہما عابدین کی ایک امریکی سیاستدان اینتھونی وائنر سے شادی ہوئی تھی جن کے سیکس سکینڈل کی وجہ سے اب وہ انھیں طلاق دے چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ہلری کلنٹن کی معاون ہما عابدین کا امریکی سینیٹر پر دست درازی کا الزام ’وہ لڑکی جسے امریکہ پر اعتبار نہ رہا‘
پاکستان کے حوالے سے ایک ناخوشگوار واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ہما عابدین لکھتی ہیں کہ وائٹ ہاؤس میں دورانِ ملازمت وہ ایک بار اپنی بہن حبا کے لیے پاکستانی ویزا کے حصول کی خاطر واشنگٹن میں پاکستان سفارت خانے گئیں تو انھیں اپنے انڈین والد کے حوالے سے ایسے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا جس پر اُنھیں غصہ آیا۔
وہ لکھتی ہیں ’جب ہم نے پاکستانی اہلکار کو بتایا کہ ہمارے والد اب وفات پا چکے ہیں تب بھی پاکستان اہلکار نے کہا کہ ’اس کیس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‘ اس پر مجھے غصہ آ گیا اور ہم سفارت خانے سے واپس آ گئیں۔‘
ہما عابدین ایتھونی وائنر کے سیکس سکینڈل کی وجہ سے انھیں طلاق دے دی تھی
وہ لکھتی ہیں کہ جب میں نے پاکستانی سفارت خانے میں اپنے ایک جاننے والے سے بہن کے ویزا کے لیے مدد کی درخواست کی تو نہ صرف چند گھنٹوں میں ویزا لگ گیا بلکہ وہی اہلکار جو طرح طرح کے سوال کر رہا تھا، وہی پاسپورٹ لیے کھڑا تھا۔
ہما عابدین پاکستان کے حوالے سے صرف ایک ناخوشگوار یاد کے علاوہ پاکستان کی تعریفیں بھی کرتی ہیں۔ وہ اسلام آباد کی کشادہ سڑکیں اور کراچی کا رش یاد کرتی ہیں۔ وہ پاکستانی مشروب ’مینگو لسی‘ کے بارے میں لکھتی ہیں کہ مینگو لسی تو ایک ’جنت کا مشروب‘ ہے۔
ہما عابدین لکھتی ہیں جب وہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کے ہمراہ پاکستان میں تھیں تو انھیں تب احساس ہوا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں عوامی رائے کیا ہے۔
ہما عابدین لکھتی ہیں کہ جب وزیر خارجہ ہلری کلنٹن گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہی تھیں تو ایک خاتون نے انھیں کہا: ’آپ ایک گیارہ ستمبر کی بات کرتے ہیں ہمارے ملک میں تو ہر روز گیارہ ستمبر ہو رہے ہیں۔‘
ہما عابدین نے اپنی پاکستانی والدہ صالحہ اور انڈین والد زین العابدین کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے کہ دونوں جو امریکہ میں تعلیم کی غرض سے گئے تھے ان کی ملاقات کیسے ہوئی۔
’لاہور میں ایک تقریب میں مجھے احساس ہوا کہ پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستانیوں کے تاثرات کیا ہیں‘
ہما عابدین اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ جب وہ وزیر خارجہ کی ڈپٹی چیف آف سٹاف تھیں تو انھیں وزیر خارجہ کی تمام مصروفیات کے بارے میں آگاہ رکھا جاتا تھا لیکن القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے سلسلے میں ہونے والی میٹنگز، جن میں وزیر خارجہ ہلری کلنٹن بھی شریک تھیں، سے انھیں بے خبر رکھا گیا۔
ہما لکھتی ہیں کہ جب صدر باراک اوباما نے اسامہ بن لادن کی ایک خصوصی آپریشن میں ہلاکت کا اعلان کر دیا تب وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے وائٹ ہاؤس کے سچوئیشن روم سے نکل کر انھیں فون کیا۔
انھوں نے کتاب میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے جذبات کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ جب وہ ایک بار سب وے میں سفر کر رہی تھیں تو ایک عورت نے انھیں مخاطب کر کہا کہ اگر آپ اس ملک سے وفادار نہیں ہیں تو آپ یہاں سے چلی کیوں نہیں جاتیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس عورت کی بات سُن کر مجھے ایسا لگا کہ میری ٹانگیں جواب دے رہی ہیں اور میں یہیں گر جاؤں گی۔‘
Comments are closed.