ہمالیہ کا ’ڈیتھ زون‘: کوہ پیما کی لاش جسے 12 سال بعد پہاڑ کی چوٹی سے واپس لایا گیا،تصویر کا ذریعہTshiring Jangbu Sherpa
،تصویر کا کیپشنہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر ایک ٹیم کی مدد سے چار لاشیں واپس لائی گئی ہیں

  • مصنف, راما پاراجولی
  • عہدہ, بی بی سی نیپالی
  • 2 گھنٹے قبل

ہمالیہ کے خونی پہاڑوں سے لاشیں اٹھانے والی ٹیم نے اس سال کے آپریشن میں چار لاشیں اٹھائیں ہیں۔ گو کہ اس بات کو ایک دہائی سے زیادہ ہو گیا ہے لیکن نیپال سے تعلق رکھنے والے شرپا سیرنگ جان اپنی زندگی کا وہ دن کبھی نہیں بھول سکتے جب انھوں نے دنیا کی چوتھی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ لوتسے سے چند میٹر کے فاصلے پر پہلی مرتبہ ایک لاش دیکھی تھی۔مئی 2012 میں شرپا سیرنگ ایک جرمن کوہ پیما کے ساتھ ماؤنٹ لوتسے پر بطور گائیڈ تھے۔ اس دوران ایک لاش ان کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ انھیں لگا یہ لاش چیک کوہ پیما کی ہے جن کی کچھ دنوں قبل ایک قریبی مقام پر ہلاکت ہوئی تھی۔شرپا سیرنگ کو تجسس ہوا کہ چیک کوہ پیما چوٹی سر کرنے کے اتنے قریب تھے تو ان کی ہلاکت کیسے ہو گئی۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کا ایک دستانہ غائب ہے۔سیرنگ کہتے ہیں کہ ’شاید دستانہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ہاتھ رسی سے پھسل گیا ہو۔ انھوں نے اپنا توازن کھو دیا ہو گا اور وہ پتھر پر آ گرے ہوں گے جس سے ان کی موت واقع ہوئی ہو گی۔‘

یہ لاش وہیں پڑی رہی اور ہر گزرتے کوہ پیما نے اسے دیکھا۔شرپا سیرنگ کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ 12 سال بعد وہی اس لاش کو اٹھائیں گے۔ یہ اس وقت ممکن ہوا جب 46 سال کی عمر میں وہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے سے لاشیں اٹھانے والی اس ٹیم کا حصہ بنے جس میں 12 نیپالی فوجی اور 18 شرپا شامل ہیں۔نیپالی حکومت نے 2019 میں پہلی مرتبہ ہمالیہ سے لاشیں اٹھانے اور صفائی کی مہم کا آغاز کیا۔ اگرچہ ماضی میں بھی حکومت لاشیں اٹھاتی رہی ہے تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جب حکام نے آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے پانچ لاشوں کی واپسی کا ہدف مقرر کیا۔ پہاڑ کی بلندی پر واقع اس مقام کو ڈیتھ زون بھی کہا جاتا ہے۔اس دوران حکومت پہلی بار ڈیتھ زون سے چار لاشیں واپس لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ جبکہ کم اونچائی پر کیے گئے 54 دن طویل ایسے ہی ایک آپریشن میں ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ اور 11 ٹن کچرا ہٹایا گیا تھا۔ یہ آپریشن پانچ جون کو اپنے اختتام پر پہنچا۔ہمالیہ کی صفائی کے لیے اس سال ہونے والے آپریشن کے رہنما میجر آدتیا کرکی نے بی بی سی نیپالی کو بتایا کہ ’ہمالیہ کے پہاڑوں میں کچرا اور لاشوں کی کثیر تعداد سے ہونے والی آلودگی کی وجہ سے نیپال کا نام بدنام ہوا ہے۔‘میجر کرکی نے کہا کہ اس مہم کا ایک مقصد کوہ پیماؤں کی بہتر حفاظت بھی ہے کیونکہ لاشوں کو اچانک دیکھ کر وہ سہم جاتے ہیں۔ پچھلے سال ماؤنٹ ایورسٹ پر لاش دیکھ کر ایک کوہ پیما سکتے میں آ گئے اور اپنی جگہ سے آدھے گھنٹے تک نہیں ہلے۔سو سال قبل جب ایورسٹ کے خطے میں کوہ پیماؤں کی اموات کا ریکارڈ قلم بند کیا جانے لگا، تب سے اب تک اس پہاڑی سلسلے پر 300 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ لیکن مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔نیپال ٹورزم ڈپارٹمنٹ کے مطابق اس سال اب تک آٹھ لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں جبکہ سنہ 2023 میں 18 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔

،تصویر کا ذریعہTshiring Jangbu Sherpa

اخراجات اور مشکلات

کئی لوگ اپنے گھر والوں کی لاشیں واپس لانے کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے۔ اگر ان کے پاس اتنے مالی وسائل ہوتے بھی تو نجی کمپنیاں ڈیتھ زون سے لاشیں واپس لانے سے انکار کر دیتی ہیں کیونکہ یہ بہت خطرناک جگہ ہے۔اس سال ایک لاش واپس لانے کے لیے نیپالی فوج نے تقریباً 37 ہزار 400 امریکی ڈالر مختص کیے ہیں۔ آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے ایک لاش نیچے لانے کے لیے 12 لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر ایک کو چار آکسیجن سلنڈر درکار ہوتے ہیں۔ایک سلنڈر کی قیمت چار سو امریکی ڈالرز سے زیادہ ہے، یعنی صرف آکسیجن کی لاگت 20 ہزار ڈالر ہے۔ہر سال کوہ پیماؤں کے پاس صرف 15 دن کا دورانیہ ہوتا ہے جس میں وہ آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر پہنچ کر واپس آ سکتے ہیں کیونکہ اس دوران ہوا کا رُخ بدل رہا ہوتا ہے اور اس کی رفتار کم ہوتی ہے۔ ڈیتھ زون میں ہوا کی رفتار اکثر سو کلومیٹر فی گھنٹے سے زیادہ ہو جاتی ہے۔لاشوں کی نشاندہی کر کے ٹیم کے لوگ زیادہ تر رات کے پہر میں کام کرتے ہیں کیونکہ وہ کوہ پیماؤں کو تکلیف نہیں دینا چاہتے۔ ایورسٹ اور اس کے قریب ماؤنٹ لوتسے اور نپسی کے مقام پر صرف ایک سیڑھی اور رسی ہے جس سے لوگ اوپر چڑھ سکتے ہیں اور نیچے آ سکتے ہیں۔شرپا سیرنگ کا کہنا ہے کہ ڈیتھ زون سے لاشیں واپس لانا بہت مشکل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے کئی مرتبہ کھٹی قے آئی۔ کچھ لوگ کھانستے رہے اور کچھ کو سر درد ہوتا رہا کیونکہ ہم نے کافی بلندی پر گھنٹوں گزارے تھے۔‘ایک طاقتور شرپا آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر زیادہ سے زیادہ 25 کلوگرام ہی اٹھا سکتا ہے۔ یہ کم بلندی پر اس کی صلاحیت کا 30 فیصد سے بھی کم ہے۔ ٹیم نے تھوڑے سے پانی، چاکلیٹ اور ستّو (چنے، جو اور گندم کے آٹے کا مرکب) پر گزارا کیا کیونکہ انھیں اپنا سامان کم رکھنا تھا۔،تصویر کا ذریعہTshiring Jangbu Sherpa

،تصویر کا کیپشنلاشوں کی نشاندہی کر کے ٹیم کے لوگ زیادہ تر رات کے پہر میں کام کرتے ہیں
8516 میٹر کی بلندی پر واقع ماؤنٹ لوتسے کی چوٹی کے قریب 12 سال سے پڑی لاش کا رنگ دھوپ اور برف میں پڑے رہنے سے بدل چکا تھا۔ کچھ حصّے سیاہ اور کچھ سفید ہو گئے تھے۔ شرپا سینگ نے کہا کہ آدھی لاش برف میں دھنسی ہوئی تھی۔چاروں لاشیں اسی حال میں تھیں جس میں ان کوہ پیماؤں کی موت واقع ہوئی۔ لاش جم جانے کی وجہ سے ان کے بازو اور ٹانگیں ہل نہیں سکتی تھیں۔ اس وجہ سے ان لاشوں کو وہاں سے نکالنا اور مشکل تھا۔نیپالی قانون کے مطابق حکام کے پاس لاشیں بہتر سے بہترین حالت میں پہنچانا ہوتی ہیں۔ لاشوں کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچا تو اس پر جرمانہ ہو سکتا ہے۔میدانی علاقوں کے برعکس برف میں لاشوں کو پیچھے سے دھکا دینا یا آگے سے کھینچنا ناممکن ہے۔ اس کے لیے رسی کا ایک خاص نظام بنایا گیا جس کے ذریعے لاشیں آہستہ آہستہ نیچے لائی جا سکتی ہیں۔ کبھی کبھی لاشیں رکاوٹوں میں پھنس جاتی اور انھیں دوبارہ سے نکالنا ایک نیا محاذ بن جاتا ہے۔شرپا سیرنگ نے بتایا کہ اس لاش کو، جو غالباً ایک چیک کوہ پیما کی تھی، بیس کیمپ تک لانے کے لیے لگاتار 24 گھنٹے کام کرنا پڑا جبکہ بیس کیمپ صرف 3.5 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ ٹیم کو لاش بیس کیمپ سے نیچے کیمپ تک لانے میں مزید 13 گھنٹے لگے۔اگرچہ لاشیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے نیپالی دارالحکومت کٹھمنڈو پہنچا دی گئیں تاہم عملہ نامچی نامی علاقے میں خراب موسم کے باعث پانچ دن تک پھنسا رہا۔ عملہ چار جون کو دارالحکومت کٹھمنڈو باحفاظت پہنچا۔

لاشوں کی شناخت کیسے کی جاتی ہے؟

وہ چار لاشیں اور ہڈیوں کا ڈھانچہ کٹھمنڈو کے ایک ہسپتال میں رکھی گئی ہیں۔ ان کی شناخت کے لیے مختلف ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔شرپاؤں اور گائیڈز نے کچھ جگہوں اور لوگوں کے نام اپنے پاس درج کیے ہوئے ہوتے ہیں تو ان سے لاشوں کی شناخت کے لیے کچھ معلومات مل سکتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ یہ تمام لاشیں غیر ملکی افراد کی ہیں لیکن فی الحال حکومت ںے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔جب سے ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا تب سے ہمالیہ کے پہاڑوں پر قریب ایک سو شرپاؤں کی اموات ہوئی ہیں۔ ان کے لواحقین منتظر ہیں کہ اپنے پیاروں کے لیے بُدھ مت کے تحت آخری رسومات ادا کر سکیں۔حکام نے کہا ہے کہ شناخت کے بعد تین ماہ انتظار کیا جائے گا کہ لواحقین لاش لے جائیں۔ اگر لاش لینے کوئی نہیں آیا تو انھیں دفن کر دیا جائے گا، خواہ وہ غیر ملکی ہوں یا نیپالی۔شرپا سیرنگ پہلی بار 20 سال کی عمر میں ہمالیہ کا کوئی پہاڑ چڑھے تھے۔ انھوں نے اپنے کیریئر میں تین بار ایورسٹ اور پانچ مرتبہ لوتسے سر کیا ہے۔شرپا سیرنگ کہتے ہیں کہ ’کوہ پیماؤں نے خوب نام کمایا ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑوں نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ ان لاشوں کو واپس لا کر اب ہمیں عظیم ہمالیہ کا حق ادا کرنا ہوگا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}