جنرل قمر جاوید باجوہ: امریکہ اور چین دونوں سے تعلقات خراب کیے بغیر تعلقات میں وسعت چاہتے ہیں
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ بھی بہترین سٹریٹجک تعلقات ہیں اور پاکستان ان دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب کیے بغیر مزید وسعت دینا چاہتا ہے۔
سنیچر کو اسلام آباد میں منعقدہ سکیورٹی ڈائیلاگ کے دوسرے روز شرکا سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان کیمپوں کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے اپنے شراکت داروں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات دوسرے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کی قیمت پر قائم نہیں ہیں۔
اس پر مزید بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کا چین کے ساتھ قریبی سٹریٹجک تعلق ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے سے عیاں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح ہماری امریکہ کے ساتھ بہترین سٹریٹجک تعلقات کی طویل تاریخ ہے اور امریکہ ہماری سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔‘
جنرل باجوہ نے کہا کہ پاکستان کسی ایک ملک سے تعلقات خراب کیے بغیر دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے جمعرات کو قوم سے خطاب میں امریکہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ایک طاقتور غیر ملک اُنھیں اقتدار سے ہٹانا چاہتا ہے اور اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد بین الاقوامی برادری کے مبینہ ایجنڈے کا حصہ ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاؤس نے عمران خان کے اس الزام سے انکار کیا ہے تاہم عمران خان سمیت وفاقی حکومت کے زیادہ تر وزرا یہ بات دہرا رہے ہیں۔
’روسی جارحیت کی حمایت نہیں کی جا سکتی‘
جنرل باجوہ نے سکیورٹی ڈائیلاگ میں اپنے خطاب میں روس یوکرین تنازعے پر بھی بات کی۔ اُنھوں نے کہا کہ روس کے جائز سکیورٹی خدشات کے باوجود خود سے چھوٹے ملک پر اس کی جارحیت کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
واضح رہے کہ اب سے پہلے تک پاکستان تحریک انضاف کی حکومت کہتی رہی ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے تنازعے میں غیر جانبدار ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں روس کی مذمت میں پیش کی گئی قرارداد پر ووٹ دینے سے اجتناب بھی کیا تھا۔
اس کے علاوہ یوکرین پر حملے سے صرف ایک دن قبل وزیرِ اعظم عمران خان کے دورۂ روس پر سوالات اٹھائے گئے تھے تاہم حکومت نے انھیں یہ کہہ کر مسترد کیا تھا کہ یہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا اور اس کا مطلب روس کی حمایت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے سیکورٹی ڈائیلاگ میں ہی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کے دورۂ روس پر ایک طاقتور ملک ناراض بھی ہوا ہے۔
آرمی چیف جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو یوکرین کے تنازعے پر تشویش ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’یوکرین کی آزادی کے وقت سے اس کے ساتھ بہترین اقتصادی اور دفاعی تعلقات ہیں۔ روس کے ساتھ کئی وجوہات کی بنا پر ایک طویل عرصے تک سرد تعلقات رہے مگر حالیہ کچھ عرصے میں اس حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ روسی حملہ بدقسمتی ہے اور اس کے باعث ہزاروں لوگ ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ یہ بہت بڑا سانحہ ہے جسے فوراً رکنا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بار بار اس حوالے سے فوری جنگ بندی اور تنازعے کے مذاکرات سے حل پر زور دیا ہے۔ جنرل باجوہ نے اعادہ کیا کہ پاکستان یوکرین کو انسانی امداد بھیجتا رہا ہے اور آگے بھی بھیجتا رہے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ یوکرین میں تنازعے کے جاری رہنے اور پھیلنے سے کسی کو فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ یہ تنازع باآسانی ہاتھوں سے نکل سکتا ہے۔
’اس وقت عالمی سیاست میں دو کیمپ واضح ہیں، ایک ٹکراؤ اور دوسرا تعاون کو فروغ دیتا ہے، عالمی سلامتی کا مستقبل اس پر منحصر ہو گا کہ کون سا کیمپ برتری حاصل کرتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
’افغان حکومت کی مدد جاری رکھی جائے‘
پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین میں جاری انسانی بحران پر عالمی توجہ کے ساتھ ساتھ چار کروڑ افغانوں کو بھی بھلانا نہیں چاہیے۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ’اگر افغانستان کی مدد نہ کی گئی تو اس سے نہ صرف پناہ گزینوں کا مسئلہ پیدا ہو گا بلکہ دہشتگردی کو پنپنے کا موقع بھی ملے گا جو کہ ایک اور 11 ستمبر پر منتج ہو سکتا ہے۔‘
جنرل باجوہ نے کہا کہ افغان حکومت کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں ہے لیکن پھر بھی عالمی برادری کو افغان حکومت کی مدد کرتے رہنا چاہیے۔ افغانستان پر پابندیاں وہاں کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہیں۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ پاکستان میں پہلے ہی 40 لاکھ افغان مہاجرین ہیں اور پاکستان چاہتا ہے کہ عالمی برادری کے ساتھ کام کرے تاکہ وہاں مستحکم حالات پیدا ہوں اور لوگ واپس جا سکیں۔
’انڈیا دنیا کو بتائے کہ اس کے ہتھیار محفوظ ہیں‘
انڈیا کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر ایک سال سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن انڈیا کی طرف سے میزائل کا پاکستان میں گرنا گہری تشویش کا باعث ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا دنیا اور پاکستان کو بتائے کہ اس کے ہتھیار محفوظ ہیں۔ پاکستان نے انڈیا کے میزائل گرنے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات اور سفارتکاری پر یقین رکھتا ہے، پاکستان چاہتا ہے انڈیا کے ساتھ آبی تنازع بھی مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے حل ہو۔
Comments are closed.