’ہر دس منٹ میں ایک بچہ ہلاک۔۔۔‘ اسرائیل غزہ جنگ اعداد و شمار کے حوالے سے کتنی ہولناک ہے؟
،تصویر کا ذریعہEPA
- مصنف, آمیرہ مہاظہبی
- عہدہ, بی بی سی عریبک
اسرائیلی حکام کے مطابق سات اکتوبر کو سنیچر کی علی الصبح عسکریت پسند گروپ حماس نے اسرائیل پر ایک غیر معمولی حملہ کیا جس میں تقریباً 1,400 افراد ہلاک ہوئے اور 200 سے زائد کو یرغمال بنا لیا گیا۔
اس دن سے لے کر اب تک ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر مسلسل فضائی حملوں اور حالیہ زمینی حملے سے وہاں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے جبکہ علاقے کو تباہ کن نقصان پہنچا ہے۔
اسرائیل اور غزہ میں ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوئے ہیں
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں حماس کے حملے کے نتیجے میں 1,400 سے زیادہ اسرائیلی اور غیر ملکی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین نے حماس کو ایک کالعدم دہشت گرد گروپ قرار دیا ہے۔
اسرائیلی حکام کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر کے دن ہلاک ہونے والوں میں سے 1159 کی شناخت کی گئی ہے، ان میں 828 عام شہری اور 31 بچے تھے۔
ادھر فلسطین میں غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں ہلاکتوں کی تعداد ایک غیر معمولی تعداد تک پہنچ گئی ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے چھ نومبر کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک اسرائیلی حملوں میں دس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 4100 بچے بھی شامل ہیں یعنی اوسط ہر دس منٹ میں ایک بچے کی ہلاکت ہو رہی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن سمیت بعض عالمی رہنماوں نے فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار کے مصدقہ ہونے پر سوال اٹھائے ہیں لیکن عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ اس کا خیال ہے کہ اعداد و شمار قابل اعتماد ہیں۔
اسرائیلی حکام اور فلسطینی وزارت صحت کے مطابق بالترتیب اسرائیل میں 5,400 زخمی اور غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں 25,400 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
غزہ میں تقریباً 2,260 افراد لاپتہ ہیں جن میں 1,270 بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
پناہ گزینوں کا سنگین بحران
سات اکتوبر کو حماس کے اچانک حملے کے بعد بڑی تعداد میں اسرائیلی و غیر ملکی شہریوں کو یرغمال بنایا گیا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق تقریباً 242 اسرائیلی اور غیر ملکی شہری حماس کی قید میں ہیں جن میں 30 سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں میں یرغمالیوں میں سے 57 افراد مارے گئے ہیں۔
20 اکتوبر سے حماس نے 17 سالہ نوجوان سمیت چار یرغمالیوں کو رہا کیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے 29 اکتوبر کو زمینی کارروائی کے دوران سات اکتوبر سے قید ایک خاتون اسرائیلی فوجی کو بازیاب کرایا۔
غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی نقل مکانی پر مجبور
،تصویر کا ذریعہGetty Images
غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی مقامی طور پر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ غزہ کی پٹی میں 22 لاکھ سے زیادہ افراد آباد ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ بچے ہیں۔
13 اکتوبر کو اسرائیل نے غزہ کے شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ شمالی غزہ کو خالی کر کے جنوبی علاقے میں چلے جائیں۔
اسرائیلی فضائی حملوں کے ایک ماہ کے بعد کہا جاتا ہے کہ غزہ میں 200,000 سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچا یا تباہ ہو گئے ہیں۔ فلسطینی حکام کے مطابق یہ تعداد غزہ میں تقریباً نصف ہاؤسنگ یونٹس کے برابر ہے۔
اقوام متحدہ اور فلسطینی حکام کے اعداد و شمار کے مطابق پانچ نومبر تک غزہ میں تقریباً 15 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں جو سکولوں، گرجا گھروں، ہسپتالوں، اقوام متحدہ اور عوامی عمارتوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں یا جنھیں دیگر افراد نے پناہ دی ہے۔
غزہ سے باہر نکلنا مقامی افراد کے لیے کوئی آپشن نہیں کیونکہ اسرائیل میں ایریز سرحد بند ہے اور مصر میں رفح بارڈر کراسنگ صرف غیر ملکی شہریوں اور کچھ زخمیوں کو غزہ سے نکالنے کے لیے کھلتی ہے۔
امدادی کارکنوں کی ہلاکت
فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ پانچ نومبر تک غزہ کی پٹی کے 35 میں سے 16 ہسپتال (46 فیصد) اور 76 میں سے 51 طبی مراکز اسرائیلی حملوں یا ایندھن کی کمی کی وجہ سے بند ہیں۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق تقریباً 50 ایمبولینسز کو اسرائیلی حملوں سے نقصان پہنچا، ان میں سے 31 خراب ہیں اور کم از کم 175 ہیلتھ ورکرز ہلاک ہو چکے ہیں۔
بین الاقوامی قانون کے تحت امدادی کارکنوں اور صحت کے عملے اور ان کی سہولیات کا تحفظ ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس کی امدادی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے لیے کام کرنے والے عملے کے کم از کم 88 ارکان اور سول ڈیفنس کے 18 امدادی کارکن مارے گئے ہیں۔
جہاں تک صحافیوں کا تعلق ہے تو اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کے مطابق ان میں سے 46 صحافی بھی پانچ نومبر تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنیوا کنونشن 1949 کے تحت ان کی حفاظت اور کام کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق حالیہ اسرائیل غزہ جنگ گذشتہ تین دہائیوں کے تنازعات کے مقابلے میں صحافیوں کے لیے سب سے مہلک رہی ہے۔
پانی کی شدید قلت
وہ لوگ، جو اب تک اس حالیہ جنگ میں زندہ بچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، ان کے لیے غزہ میں زندگی انتہائی مشکل ہے کیونکہ وہاں خوراک کی کمی، پانی کی شدید قلت اور صحت کو بہت سے خطرات لاحق ہیں۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے صحت نے اکتوبر کے وسط میں کہا تھا کہ غزہ میں خاندان اور بچے کھانا پکانے، پینے اور حفظان صحت کے لیے فی شخص صرف تین لیٹر پانی پر انحصار کر رہے ہیں جبکہ کسی بھی شخص کے لیے یومیہ کم از کم 15 لیٹر فی شخص ہے۔
حال ہی میں رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں بہت کم پانی کی سپلائی مہیا کی گئی اور اس کے بعد سے پانی کی فراہمی کے زیادہ تر انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔
پانچ نومبر کو اقوام متحدہ کے ادارے او سی ایچ اے نے رپورٹ کیا کہ غزہ میں پانی کی کھپت میں جنگ سے پہلے کی سطح کے مقابلے اوسطاً 92 فیصد کمی آئی اور 65 سیوریج پمپنگ سٹیشنوں میں سے زیادہ تر کام نہیں کر رہے۔
31 اکتوبر کو ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی، زیادہ بھیڑ اور پانی اور صفائی کے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان سے غزہ میں ’صحت عامہ کی تباہی‘ کا سبب بن سکتا ہے۔
UNOCHA کا کہنا ہے کہ اس نے فلسطینی اور اسرائیلی حکام کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی۔
Comments are closed.