لاپتہ کمیشن کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال سے ہراساں کرنے کے معاملے پر تحریری جواب طلب کرلیا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی زیر صدارت لاپتہ افراد کے بارے میں پالیسی سے متعلق کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ، چیئرمین لاپتہ افراد کمیشن جاوید اقبال نے شرکت کی۔
اعظم نذیر تارڑ نے جاوید اقبال سے کہا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ سے سوال جواب کے دوران کمیشن میں ہراسانی کے واقعات کا پتہ چلا، آپ اس حوالے سے تحریری طور پر جواب دیں، اس سے متعلق بتایا جائے یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔
جاوید اقبال نے کہا کہ کمیشن اجلاس میں ہراسمنٹ ہو ہی نہیں سکتی، اجلاس میں 12 افراد ہوتے ہیں کیسے ہراسانی ہو سکتی ہے؟ 400 سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کرلی، لاپتہ افراد کی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے کو سیاسی معاملہ بنا دیا گیا ہے، دہشت گردوں اور اصل میں لاپتہ افراد میں فرق ضروری ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سول سوسائٹی نے کمیشن کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، آپ اس حوالے سے تحریری طور پر جواب دیں۔
شازیہ مری نے کہا کہ خواتین کو ہراساں کرنے پر زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے، اس معاملے کو انسانیت کی عینک لگا کر دیکھنا ضروری ہے، لاپتہ افراد ایک مسئلہ ہیں، اس میں غربت ایک بڑی وجہ ہے۔
وفاقی وزیر آغا حسن جان نے جسٹس جاوید اقبال کے اعداد و شمار مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جاوید اقبال کی طرف سے کمیٹی اجلاس میں غلط بیان دیا گیا، جاوید اقبال ایسی باتیں کررہے ہیں جو مناسب نہیں، ایک ایسا بل منظور ہونا چاہیے کوئی لاپتہ نہ ہوسکے۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ ہم بلوچستان میں گئے وہاں لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ فضل الرحمان نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی مالی معاونت ہونی چاہیے۔
Comments are closed.