ہداکا متسوری: 1250 سال سے جاری جاپان کا برہنہ تہوار جس میں پہلی بار خواتین بھی شریک،تصویر کا ذریعہReuters
،تصویر کا کیپشنایک تہوار جس میں پہلی بار خواتین شرکت کر رہی ہیں

  • مصنف, شائما خلیل
  • عہدہ, نمائندہ بی بی سی، ٹوکیو
  • 2 منٹ قبل

‘واشوئی! واشوئی!’ کے نعروں کی گونج کے درمیان تقریبا برہنہ مردوں کا ایک سیل رواں آپس میں لڑتا بھڑتا مزار کی جانب آگے برھتا ہے۔ واشوئی واشوئی کا مطلب ’چلتے رہو، بڑھتے رہو‘ ہوتا ہے۔ یہ ہداکا متسوری یا برہنہ افراد کے میلے کا منظر ہے جو گذشتہ 1,250 سالوں میں بمشکل بدلا ہے۔ یہ میلہ ہر سال وسطی جاپان میں موجود کونومیہ مزار پر لگتا ہے۔لیکن رواں سال اس میں ایک تبدیلی آئی ہے اور یہ بڑی تبدیلی ہے۔مردوں کے ہجوم سے دور خواتین کے ایک گروپ نے بھی اس میں حصہ لیا اور یہ گروپ ایسا پہلا گروپ تھا جس نے اس میں شرکت کی۔

اس تقریب میں شرکت کے لیے یہاں جمع ہونے والی خواتین کو اس بات کا علم تھا کہ وہ تاریخ رقم کر رہی ہیں۔ روایتی طور پر مردوں کی اکثریت والی جگہوں میں اپنی جگہ بنانا کہیں بھی مشکل رہا ہے لیکن جاپان میں یہ اور بھی مشکل ہے کیونکہ گذشتہ سال ورلڈ اکنامک فورم کے صنفی تفریق کے انڈیکس میں 146 ممالک میں سے جاپان کا 125 واں نمبر تھا۔ایسا نہیں ہے کہ خواتین کی ہمیشہ وہاں موجودگی نہیں تھی۔،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنہداکا متسوری کا ایک منظر

براہ راست شرکت پہلی بار

نسل در نسل کونومیا تہوار کے لیے کام کرنے والے خاندان کے فرد اتسوکو تماکوشی کا کہنا ہے کہ ’خواتین نے ہمیشہ ہی تہوار میں مردوں کا ساتھ دینے کے لیے بہت محنت کی ہے۔‘ لیکن درحقیقت تہوار میں خواتین کے حصہ لینے کا خیال پہلے کبھی نہیں آیا۔ اس تہوار میں مرد بری روحوں کو بھگانے کی کوشش کرتے ہیں اور خوشحالی کے لیے مزار پر دعا کرتے ہیں۔ناروہیتو سونودا کا کہنا ہے کہ خواتین کی شرکت پر کبھی بھی حقیقی پابندی نہیں لگائی گئی۔ بس اتنا ہے کہ کبھی کسی نے اس میں شرکت کرنے کے بارے میں نہیں پوچھا۔اور جب انھوں نے پوچھا تو جواب آسان تھا۔انھوں نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا: ’میرا ماننا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ہر ایک کے لیے ایک تفریحی تہوار ہو۔ میرے خیال میں خدا اس سے اور بھی زیادہ خوش ہوں گے۔‘ بہرحال جاپانی برادری میں ہر کوئی سب کو اس قدر شامل کرنے والا نہیں ہے۔ 56 سالہ دادی تماکوشی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’بہت سی آوازیں تھیں جنھوں نے (ہمارے اس تہوار میں حصہ لینے پر) تشویش ظاہر کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مردوں کے تہوار میں خواتین کا کیا کام ہے؟ یہ مردوں کا تہوار ہے، کوئی مذاق نہیں۔‘ ’لیکن ہم جو کچھ کرنا چاہتے تھے اس میں ہم سب ایک آواز تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ اگر ہم مخلص ہوں گے تو خدا ہماری مدد کرے گا۔‘،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنخواتین کا لباس جامنی ہے اور شارٹس سفید

خواتین کا لباس

جو خواتین اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں وہ واقعی مخلص ہیں۔ وہ شرکت تو کر رہی ہیں لیکن برہنگی کے ساتھ نہیں۔اس کے بجائے بہت سی خواتین ’ہیپی کوٹ‘ یعنی جامنی رنگ کے لباس کے ساتھ سفید شارٹس پہن رہی ہیں۔ اس تہوار میں مرد صرف لنگوٹ میں ہوتے ہیں۔ وہ نذرانے کے لیے اپنے بانس اپنے کندھوں پر ڈال کر لے جا رہی ہیں۔وہ اس بڑے ہنگامے کا حصہ نہیں ہوں گے جو مزار پر مردوں کے ہجوم کے دوران ہوتا ہے جہاں شِن اوٹوکو یا ’مرد دیوتا‘ کو چھونے کے لیے لوگ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ شن اوٹوکو ایک شخص ہوتا ہے جسے مزار چنتا ہے۔ روایت کے مطابق اسے چھونے کا مطلب بد روحوں کو بھگانا ہے۔خواتین کے معاملے میں ایسا نہ ہونا اس لمحے کی اہمیت کو ختم نہیں کرتا ہے۔یومیکو فوجی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ آخرکار وقت بدل گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ میں ذمہ داری کا احساس بھی محسوس کرتی ہوں۔‘بہرحال یہ خواتین اس میں صرف اپنی شرکت کے ساتھ صنفی رکاوٹیں ختم نہیں کر رہی ہیں بلکہ وہ روایت کو زندہ بھی رکھے ہوئے ہیں۔رواں ہفتے ایک اور برہنہ تہوار جاپان کے شمال میں کوکوسیکی مندر میں منعقد ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کا آخری میلہ ہوگا کیونکہ میلے کو جاری رکھنے کے لیے کافی نوجوان نہیں تھے۔جاپان وہ ملک ہے جہاں تیزی سے عمر رسیدہ آبادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے سال پہلی بار 10 میں سے ایک سے زیادہ افراد کی عمر 80 یا اس سے زیادہ تھی۔ دریں اثنا اس کی شرح پیدائش صرف 1.3 فی عورت ہے اور گذشتہ سال صرف 800,000 بچے پیدا ہوئے۔ایسے میں خواتین کے لیے مزار پر جانے کا وقت آ گیا ہے۔

،تصویر کا کیپشناتسیکو تماکوشی نے بی بی سی سے بات کی
وہ دو متوازی قطاروں میں کھڑی ہوتی ہیں اور لمبے لمبے بانس کو سرخ اور سفید ربن سے جوڑ کر اور لپیٹ کر نذرانہ پیش کرنے کے لیے لے جاتی ہیں۔اتسوکو تماکوشی اس کی سربراہی کر رہی ہےوہ سیٹی بجا کر اس نعرے کو آواز لگاتی ہیں جو انھوں نے کئی دہائیوں سے مردوں کو لگاتے سنا ہے۔ساری خواتین ان کے ساتھ ‘واشوئی واشوئی کا نعرہ لگاتی ہیں۔خواتین کی اپنی حرکات اور رفتار پر توجہ مرکوز ہے کیونکہ انھوں نے ہفتوں اس پر مشق کی ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ انھیں اسے ٹھیک سے یعنی درست طور پر کرنا ہے۔وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ میڈیا اور تماشائیوں کی نظریں ان پر ہیں وہ دباؤ میں ہیں لیکن اس کے ساتھ ان میں جوش بھی اور وہ اس ملی جلی کیفیت میں مسکرا رہی ہیں۔دیکھنے والے ہجوم کی طرف سے بھی نعرے لگائے جاتے ہیں۔ کچھ ‘گمباٹے’ یعنی چلتے رہو کا نعرہ لگاتے ہیں جبکہ وہاں یخ بستہ کرنے والی سردی پڑ رہی ہے۔وہ کونومیا شنتو کے مزار کے صحن میں داخل ہوتی ہیں اور مردوں کی طرح ان پر ٹھنڈے پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے جس سے ان میں اور بھی جوش بھر جاتا ہے۔ ان کی پیشکش قبول ہونے کے بعد خواتین دو بار کورنش بجا لانے، دو تالیوں اور ایک آخری کورنش یعنی جھک کر سلام کرنے کی روایت کے ساتھ تقریب کا اختتام کرتی ہیں۔
،تصویر کا کیپشنخواتین کے چہرے سے ان کی خوشی عیاں ہے
اور پھر اس لمحے کی اہمیت پر عورتیں خوشی سے جھوم اٹھتی ہیں۔ وہ ادھر اُدھر کود پڑتی ہیں اور روتے ہوئے ایک دوسرے سے گلے لگاتی ہیں۔ وہ سب کا شکریہ ادا کرتی ہیں اور وہاں موجود بھیڑ ان کی تعریف و تحسین کرتی ہے۔اس میں شرکت کرنے والی میچیکو ایکائی نے کہا کہ ’میں تو بس رو پڑی۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ میں اس میں شامل ہو سکتی ہوں، لیکن اب کامیابی کا احساس محسوس کر رہی ہوں۔‘جب یہ خواتین مزار سے باہر نکلتی ہیں تو انھیں عوام روکتے ہیں اور ان کے ساتھ تصویریں لینا چاہتے ہیں اور میڈیا والے بھی انھیں روکتے کیونکہ وہ ان کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں۔ اور انھیں بخوشی یہ موقعہ فراہم کیا جاتا ہے۔مینیکو اکاہوری بی بی سی کو بتاتی ہیں: ’میں نے یہ کر دکھایا۔ میں بہت خوش ہوں۔ میں واقعی شکرگزار ہوں کہ ایک عورت کے طور پر میں پہلی بار ہونے والے جشن میں حصہ لے سکی۔‘ ان کی دوست اور ساتھی میناکو اینڈو نے مزید کہا کہ ‘ایسا کچھ کرنے والوں میں شامل ہونا اور پہلا بننا بہت اچھا لگتا ہے۔’ہیرومو میدا کہتی ہیں کہ ’وقت بدل رہا ہے۔ ان کا خاندان ایک مقامی سرائے یا ہوٹل چلاتا ہے جو پچھلے 30 سالوں سے میلے میں شرکت کرنے والے کچھ مردوں کی میزبانی کر رہا ہے‘۔’میرے خیال میں ہماری دعائیں اور خواہشات ایک جیسی ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ مرد ہیں یا عورت۔ ہمارا جذبہ ایک ہی ہے۔‘ اتسوکو تماکوشی نے خواتین کے اس پہلے جشن میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اب ان کے پاس اس بات پر غور کرنے کا وقت ہے کہ ان سب نے مل کر کیا حاصل کیا ہے۔ وہ جذباتی اور راحت دونوں محسوس کر رہی ہیں۔ وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’میرے شوہر نے ہمیشہ اس تہوار میں حصہ لیا ہے اور میں ہمیشہ تماشائی ہوا کرتی تھی۔ اب میں شکر اور خوشی کے جذبے سے لبریز ہوں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}