a v hookup on xbox 360 whatsapp groups for hookups is there a real hookup app hookup Middletown Delaware

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ہتھنی انسان نہیں اس لیے چڑیا گھر میں ہی رہے گی: عدالت کا فیصلہ

’متاثر کن ہے لیکن ہیپی انسان نہیں:‘ امریکی عدالت کا ہتھنی کو چڑیا گھر میں ہی رکھنے کا حکم

  • ہولی ہونڈرچ
  • بی بی سی نیوز واشنگٹن

ہیپی ہاتھی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جج نے فیصلہ سنایا کہ ہیپی برونکس کے چڑیا گھر میں ہی رہے گی

نیویارک کی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ برونکس چڑیا گھر میں طویل عرصے سے رہنے والی ہتھنی ہیپی کو وہیں رہنا چاہیے کیونکہ وہ امریکی قانون کے تحت کوئی فرد نہیں۔منگل کو ریاست کی اعلیٰ ترین عدالت کے پانچ میں سے تین ججوں نے جانوروں کے حقوق کے گروپ کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ ہیپی کو چڑیا گھر میں غیر قانونی طور پر قید کیا گیا تھا۔عدالت کا کہنا تھا کہ ہاتھی متاثر کن ہیں لیکن وہ انسانوں کی طرح آزادی کے حقوق کے حقدار نہیں۔جانوروں کے حقوق کے گروپ نے ہیپی کو ہاتھیوں کی پناہ گاہ میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔عدالت میں اس معاملے پر اس حوالے سے بحث ہوئی کہ آیا، ہیبیس کارپس نامی قانون جو غیر قانونی قید سے تحفط فراہم کرتا ہے، کا دائرہ کار ایسے جانوروں تک پھیلایا جا سکتا ہے جو ذہین اور جذباتی طور پر پیچیدہ ہوتے ہیں۔

چیف جج جینیٹ ڈیفیور نے فیصلہ میں لکھا کہ ’اگرچہ کوئی بھی ہاتھیوں کی متاثر کن صلاحیتوں پر اختلاف نہیں کرتا لیکن ہم درخواست گزار کے ان دلائل کو مسترد کرتے ہیں کہ ہیپی کے لیے ہیبیس کارپس کے تحت تلافی حاصل کی جا سکتی ہے۔‘

’ہیبیس کارپس ایک طریقہ کار ہے جس کا مقصد انسانوں کے آزادی کے حقوق کو محفوظ بنانا ہے، جنھیں غیر قانونی طور پر پابند کیا جاتا ہے نہ کہ جانوروں کو۔‘

یہ فیصلہ بھی ذیلی عدالتوں کی ان فیصلوں کی توثیق کرتا ہے، جنھوں نے نیویارک کی جانوروں کے حقوق کی تنظیم کی جانب سے دائر مقدمے میں بار بار برونکس چڑیا گھر کا ساتھ دیا تھا۔

گروپ کا اصرار ہے کہ 51 برس کی ہتھنی کو برونکس چڑیا گھر سے نکالا جائے کیونکہ اسے محض ایک ایکڑ کے احاطے میں قید کر کے رکھا گیا ہے۔

لیکن وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی، جو چڑیا گھروں کا انتظام سنبھالتی ہے، نے اس بیانیے کو مسترد کیا ہے کہ اور کہا ہے کہ ہیپی اور اس کے ساتھی ہاتھیوں کی چڑیا گھر میں اچھی دیکھ بھال ہو رہی ہے۔

منگل کو ایک بیان میں جانوروں کے حقوق کی تنظیم نے اس فیصلے میں ججوں کے اختلاف رائے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس ’طاقتور‘ قرار دیا اور کہا کہ ان کا ارادہ ہے کہ وہ اسے کیلیفورنیا میں ہاتھیوں کے حقوق کے لیے جاری ایک دوسرے مقدمے میں استعمال کریں گے۔

اپنے اختلاف میں جج ڈینی ریویرا نے لکھا کہ ’ہیپی کی قید فطری طور پر ناانصافی اور غیر انسانی ہے۔ یہ ایک مہذب معاشرے کی توہین ہے اور ہر روز وہ اسیر بنی رہتی ہے، انسانوں کے لیے ایک تماشا، ہم بھی، کمتر ہوتے جا رہے ہیں۔‘

ہیپی 1970 کی دہائی میں تھائی لینڈ کے جنگل میں پیدا ہوئی تھی، اسے اس وقت امریکہ لایا گیا جب وہ صرف ایک برس کی تھی۔ وہ سنہ 1977 سے برونکس چڑیا گھر میں مقیم ہے۔

وہ چڑیا گھر میں رہ جانے والے دو ہاتھیوں میں سے ایک ہے۔

کاون

،تصویر کا ذریعہCAMBODIAWILDIFESANCTUARY

،تصویر کا کیپشن

کاون کی خوش قسمتی تھی کے عدالت نے فیصلہ سنایا کہ اسے مناسب دیکھ بھال کے لیے کمبوڈیا وائلڈ لائف سینکچری کے حوالے کر دیا جائے

یہ بھی پڑھیے

ہاتھی کاون کو پاکستانی عدالت سے ملنے والی آزادی

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

یاد رہے کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک چڑیا گھر میں مقیم ہاتھی کی آزادی کے لیے بھی ایسا ہی ایک مقدمہ چلا تھا جس پر فیصلہ سناتے ہوئے اسے محفوظ پناہ گاہ میں بھجوانے کا حکم سنایا گیا تھا جس کے بعد کاون کو مناسب دیکھ بھال کے لیے کمبوڈیا وائلڈ لائف سینکچری کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اڑتیس سالہ کاون کو چھ سال کی عمر میں اسلام آباد چڑیا گھر میں لایا گیا تھا اور گذشتہ چند برس کے دوران اس کے بچاؤ کے لیے بین الاقوامی اور ملکی سطح پر مہم چلائی جاتی رہی ہے۔

پاکستانی نژاد امریکی شہری ثمر خان نے چڑیا گھر میں کاون کی حالت دیکھنے کے بعد ایک آن لائن پیٹیشن کا آغاز کیا جس میں انھوں نے کاون کی کیفیت کی بابت آگاہ کرتے ہوئے حکام سے درخواست کی تھی کہ اسے چڑیا گھر سے نکال کر جانوروں کی کسی محفوظ پناہ گاہ پہنچایا جائے۔

اس آن لائن پیٹیش پر دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے افراد نے دستخط کیے اور اس کے سپورٹرز کی تعداد چار لاکھ سے زائد ہو گئی۔

جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے چند اداروں اور اسلام آباد کے شہریوں نے ہفتہ وار بنیاد پر چڑیا گھر کے سامنے مظاہرے کرنے شروع کیے اور کاون کو محفوظ پناہ گاہ بھیجنے کی درخواستیں کی جاتی رہیں

کاون کی آزادی کی مہم میں امریکی گلوکارہ شیر بھی پیش پیش رہی ہیں۔ جنھوں نے سنہ 2020 میں بلآخر کاون کی منتقلی پر حکومتِ پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.