ہاتھ کی پہلی کامیاب پیوندکاری کے 10 سال: ’نئے ہاتھ سے بیوی کی زندگی بچائی‘
دسمبر 2012 کو برطانیہ کے ایک ہسپتال میں پہلا کامیاب ہینڈ ٹرانسپلانٹ ہوا۔ اس واقعے کی ایک دہائی کے بعد بی بی سی نے اس مریض اور ان کے ڈاکٹر سے بات کی ہے۔
پلاسٹک سرجن پروفیسر سمن کے کا کہنا ہے کہ بہت سے مریضوں کے مطابق سرجری کے بعد بہت سی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں جو ان کے لیے بہت اہمیت کی حامل بن جاتی ہیں۔
ایسی ہی ایک کہانی انھوں نے اپنے پہلے مریض کی سنائی ہے، جن کو نیا ہاتھ ملنے سے ان کی زندگی بدل گئی۔ اور یہی نہیں بلکہ وہ اب دوسروں کو جینے میں مدد دے رہے ہیں۔
یہ مارک کاہل ہیں، جو یارک شائر پب کے سابق مالک بھی ہیں۔ مارک کا علاج تو سنہ 2012 میں ہوا تھا مگر اب دس برس بعد ان کی ملاقات ان کے سرجن پروفیسر سمن سے ہوئی ہے، جنھیں انھوں نے نیا ہاتھ ملنے کے بعد اپنی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بتایا ہے۔ بی بی سی نے بھی ان سے تفصیل سے بات کی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’اپنی بیٹی کے سر پر کنگھا کرنا ہو، اپنے بٹوے سے پیسے نکالنے ہوں یا نلکے سے اپنے لیے پینے کے پانی کا گلاس بھرنا ہو، میں اب دوبارہ ان تمام کاموں کے کرنے کے قابل ہو گیا ہوں اور اب مجھے اپنی شخصیت میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی ہے۔
انھوں نے ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا ہے۔ ان کے مطابق ’جب میری اہلیہ کو دل کا دورہ پڑا تو پھر ایسے میں ان کی جان بچانے میں بھی میرے ہاتھوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا ہے۔‘
واضح رہے کہ لیڈز جو اس وقت برطانیہ میں ’ہینڈ ٹرانسپلانٹ یونٹ‘ کا گڑھ بن چکا ہے، جو واحد ایسا یونٹ ہے جو اس قسم کی سرجری کی سہولت بہم پہنچا رہا ہے۔
اب یہ دنیا میں بھی ہینڈ ٹرانسپلانٹ سروسز کا بہترین ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس کا چند دہائیاں قبل طب کی دنیا میں اس قسم کے علاج کا تصور بھی نہیں پایا جاتا تھا۔
مارک کاہل اس یونٹ کی خاص پہچان بن چکے ہیں۔ سنہ 2012 میں ان کا دایاں ہاتھ برس ہا برس گاؤٹ یعنی جوڑوں کے درد اور سوجن کے باعث اتنا بری طرح متاثر ہوا کہ اسے پھر کاٹنا پڑا۔
وہ برس ہا برس کی جان پہچان اور بے تکلفی کی وجہ سے اب پروفیسر سمن کو ’پروف‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ جب ان کے ڈاکٹر ان کا ہاتھ پکڑ کا اپنے کام کا معائنہ کرتے ہیں تو اس دوران ان کا تعلق اور فخر قابل دید ہوتا ہے۔
گذشتہ ایک دہائی کے دوران جن مریضوں نے یہاں کا رخ کیا ان میں سے کچھ مریض حادثات کی وجہ سے اپنے ہاتھ یا اعضا سے محروم ہو گئے۔ باقی رہ جانے والے مریض طبی حالات جیسے ’سیپسز‘ یا ’سکلیروڈرما‘ کا شکار ہو جاتے ہیں یعنی ایک ایسی طبعی حالت جس میں کسی انفیکشن کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے اور اس سے اعضا ناکارہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
مارک کاہل نے بتایا کہ ’میری ماں نے پروفیسر سمن کے کو ٹی وی پر یہ کہتے ہوئے دیکھا تھا کہ وہ ہاتھ کا ٹرانسپلانٹ کرنے کا تجربہ کرنے جا رہے تھے۔‘ ان کے مطابق میں ان کے پاس چلا گیا تو انھوں نے میرا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ وہ اس ہاتھ کے ٹرانسپلانٹ کے لیے ایک بہترین امیدوار ہیں۔
میں نے اس بارے میں اپنے خاندان والوں سے بات کی اور میں نے بھی یہی سوچا کہ مجھے اس عمل کا حصہ بن جانا چاہیے۔ یہ اس سے تو بہتر ہے جس حالت میں اب میں ہوں۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ شدید نفسیاتی انٹرویوز کے بعد ہی انھوں نے اپنے آپ کو سرجن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ان کے مطابق اس علاج کے دوران ڈاکٹر آپ کے نفسیاتی پہلو کا بھی معائنہ کرتے ہیں کہ آیا آپ اس عمل کے لیے موزوں بھی ہیں؟
باکسنگ ڈے پر وہ اور ان کے اہل خانہ جس کال کا انتظار کر رہے تھے وہ آخرکار وہ موصول ہو ہی گئی۔ ’انھوں نے کہا، ’کیا تم آسکتے ہو؟’ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کو ہسپتال میں کچھ دیر گزارنی پڑ سکتی ہے اور اس عرصے میں ہم آپ کے ٹیسٹ کر کے اس بات کا تعین کریں گے کہ آپ اس عمل کے لیے موزوں بھی ہیں یا نہیں۔
آپ کے کے دماغ میں ہر طرح کے خیالات چل رہے ہوتے ہیں کہ کیا یہ کامیاب ہو گا، کیا مجھے یہ پسند آئے گا؟ آپریشن کے بعد تک آپ کو یہ چیزیں معلوم نہیں ہوں گی۔
ان کے لیے ٹرانسپلانٹ کرنے کا فیصلہ کوئی دماغی کام نہیں تھا۔ سرجری کرنے والی ٹیم نے فرانس میں ماہر سرجن کی ٹیم سے رابطہ کیا جنھوں نے سنہ 1998 میں پہلا ہاتھ ٹرانسپلانٹ کیا۔
مارک کاہل جن کا اگلے دن ہاتھ کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے مجھے بے ہوش کیا اور پھر میں ایک نئے ہاتھ کے ساتھ جاگا۔‘
ان کے مطابق ’مجھے یاد ہے کہ بعد میں ’ہائی ڈیپینڈنسی یونٹ‘ میں جب میری آنکھ کھلی تو ’پروف‘ اندر آئے اور کہا، ‘آئیے ایک نظر (ہاتھ پر) ڈالتے ہیں’۔
مارک کے مطابق ’میں اپنی انگلیوں کو تھوڑا سا ہلا سکتا تھا اور ’پروف‘ نے کہا، ‘ابھی ایسا نہ کریں’۔ تو میں نے سوچا، یہ پہلے سے ہی کام کر رہا ہے۔ یہ ناقابل یقین ہے کہ یہ (ہاتھ) اتنی جلدی حرکت کر رہا ہے۔
اس ٹرانسپلانٹ کے بعد کئی ماہ تک ’فزیوتھراپی‘ کا عمل چلتا رہا۔ ان کے مطابق ’شروع میں یہ مشکل تھا۔ آپ کے اعصاب کو دوبارہ اپنی جگہ پر آنے میں کافی وقت لگتا ہے اور ان کے بغیر آپ کی حرکت اور احساس بالکل نہیں ہوتا۔‘
آپریشن نے مارک کی زندگی بدل دی ہے اور انھیں جیسے آزادی واپس دلا دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے لوگوں کو کچھ میرے کاموں سے متعلق درخواست کرنا پڑتی تھی۔ ان کے مطابق اب تو میں اپنے دائیں ہاتھ سے بآسانی گاڑی چلا سکتا ہوں۔‘
یہ جان بچانے والا بھی ثابت ہوا جب سنہ 2016 میں مارک کاہل کی اہلیہ سلویا کو دل کا دورہ پڑا تو وہ 19 منٹ تک ہوش میں نہیں آئیں اور ان میں سے کم از کم دس منٹ تک تو میں نے انھیں اپنے دائیں ہاتھ سے دبا کر زندگی میں واپس لایا۔ مارک کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سرجن کی اس ٹیم کے مشکور رہیں گے۔
ان کے مطابق وہ بہت ہی بہترین سرجن ثابت ہوئے ہیں۔ ’زندگی اب ٹھیک ہے، یہ بہت اچھا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیے
اعضا کی پیوند کاری: جس شخص کو سؤر کا جینیاتی طور پر تبدیل شدہ دل لگایا گیا تھا ان کی موت واقع ہو گئی
غیرمعمولی مہارت
پروفیسر سمن کے اب بڑے فخریہ انداز سے دس برس قبل کی پیشرفت پر نظر دوڑاتے ہیں۔
ان کے مطابق ایک دہائی کے عرصے کے اندر ہم ابتدائی سرجری کے بعد اب اس سہولت کو ہر مریض کے لیے عام بنا دیا ہے۔
یہی نہیں بلکہ یہ عمل اب انتہائی مہارت سے سرانجام پاتا ہے اور اس وقت ان کے پاس ہسپتال میں دنیا کے اس حوالے سے خدمات بہم پہنچانے والے دو بہترین یونٹس کام کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق اس ہسپتال کی ان کی اس سرجن کی ٹیم میں مہارت اور دیکھ بھال کا معیار غیر معمولی ہے اور یقیناً ہماری سرجری عطیہ دہندگان اور ان کے اہل خانہ کی ہمت اور سخاوت کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔ پروفیسر سمن کے کے مطابق ’ان کے تعاون نے ہمیں زندگی بدلنے کے قابل بنایا ہے اور اس شعبے میں کام کرنا ایک اعزاز ہے۔‘ لیکن، اس پہلے آپریشن کے دس برس بعد، ہاتھ کا عطیہ اب بھی ایسا آپشن نہیں ہے، جسے ڈونر کے رجسٹر کا حصہ بنایا جا سکے۔ ان کے مطابق ’ہمیں ڈونرز کی ضرورت ہے۔ نرسوں کے لیے لوگوں سے اس بارے میں استفسار کرنا بہت مشکل سوال ہے یعنی آپ کی زندگی کے بعد آپ کے اعضا کسے عطیہ کیے جائیں۔‘
ہاتھ کے ٹرانسپلانٹ سے متلعق چھ اہم حقائق
- بہت کم عطیہ دہندگان یا ان کے خاندان اپنے ہاتھ عطیہ کرنے پر راضی ہیں
- ہاتھ کا عطیہ کوئی ایسا آپشن نہیں ہے جسے ڈونر رجسٹر سے بآسانی منتخب کیا جا سکتا ہے
- دوسرے اعضا کے مقابلے میں ہاتھ کا ’میچ‘ تلاش کرنا زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ جسمانی شکل اور نفسیاتی قبولیت ٹرانسپلانٹ کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے
- مریض کا ایک سال کا جائزہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں نفسیاتی اور مدافعتی تشخیص بھی شامل ہے
- نئے ٹرانسپلانٹس کی بحالی اور مکمل استعمال میں ایک سے تین سال لگ سکتے ہیں
- بچوں کے لیے یہ ہینڈ ٹرانسپلانٹ کی سہولت ابھی تک دستیاب نہیں ہے، لیکن اس حوالے سے ماہرین کی ٹیم کوشاں ہے
ذرائع: لیڈز ٹیچنگ پاسپٹلز این ایچ ایس ٹرسٹ
Comments are closed.