بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ہاتھ سے چلنے والی واشنگ مشین: ’اپنی ہمسائی دیویا کو ہاتھ سے کپڑے دھوتا دیکھ کر افسوس ہوتا تھا‘

نوجوت سواہنی: ہاتھ سے چلنے والی واشنگ مشینوں کی پہلی کھیپ عراق میں مہاجر کیمپ کے لیے روانہ

نوجوت سواہنی
،تصویر کا کیپشن

نوجوت سواہنی نے یہ منصوبہ سنہ 2018 می شروع کیا تھا

ایک سکھ طالب علم کی ایجاد کردہ ہاتھ سے چلنے والی کپڑے دھونے کی مشینوں کی پہلی کھیپ کو شمالی عراق کے ایک مہاجر کیمپ کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے۔

باتھ یونیورسٹی کے سابق طالب علم نوجوت سواہنی نے سنہ 2018 میں سلاد بنانے والی ایک مشین سے متاثر ہو کر کپڑے دھونے کے لیے ہاتھ سے چلنے والی مشین بنانے کے کام کا آغاز کیا تھا۔

اس کے بعد سے رضا کاروں اور تاجروں نے اس مشین کو بنانے میں مدد کی تاکہ ایک کم قیمت مشین بنانے کے اس کام کو مکمل کیا جا سکے۔

نوجوت سواہنی کا کہنا ہے کہ انھیں یہ مشین کامیابی سے بنانے پر بہت فخر محسوس ہو رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ دنیا کی ستر فیصد آبادی کو بجلی سے چلنے والی واشنگ مشینوں کی سہولت حاصل نہیں ہے۔

ایک عالمی خیراتی ادارے ‘کیئر انٹرنیشل’ کے مالی تعاون سے وہ اگلے تین برس میں 75 ہزار کپڑے دھونے اور سوکھانے والی مشین تیار کر کے لبنان، کینیا اور انڈیا سمیت دنیا کے دس ملکوں کے غریب لوگوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔

سوہنی کو ہاتھ سے چلنے والی مشین بنانے کا خیال اپنے انجینئرنگ کی نوکری چھوڑنے کے بعد انڈیا میں کچھ دن گزارنے کے دوران آیا جب انھوں نے اپنے ہمسائے میں ایک خاتون دیویا کو کپڑے دھوتے دیکھا۔

مشین

،تصویر کا کیپشن

مشین کی مرمت بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے

انھوں نے کہا کہ ‘جب میں روزانہ انھیں اپنے اور گھر والوں کے کپڑے دھوتا دیکھتا اور اس کام میں جس قدر محنت لگتی ہے، یہ دیکھ کر افسوس ہوتا تھا اور تب ہی میں نے ان سے ہاتھ سے چلنے والی مشین کا وعدہ کیا۔’

اس ہاتھ سے چلنے والی مشین کا نام ‘دیویا’ رکھا گیا ہے جو بہت سادہ اور آسانی سے مرمت کی جا سکتی ہے اور اس پر دنیا بھر کے کئی ملکوں میں تجربہ کیا جا چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

نوجوت سواہنی کا کہنا ہے کہ اس پر زبردست رد عمل سامنے آیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہاتھ سے کپڑے دھونے میں بہت وقت لگتا ہے اور کوئی بھی ہاتھ سے کپڑے دھونا پسند نہیں کرتا، اور اس مسئلے کو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔’

‘ہم بہت خوش قسمت ہیں۔ ہمارے پاس یونیورسٹیاں ہیں، کمپنیاں ہیں اور ایسے لوگ ہیں جو اپنا وقت دینے کے لیے تیار ہیں اور اس احساس سے میرے اندر انکساری پیدا ہوتی ہے۔’

میتھیو میو

،تصویر کا کیپشن

میتھیو میو کا کہنا ہے کہ وہ غریب لوگوں کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرنا چاہتے تھے

ان مشینوں کی تیاری میں برسٹل ڈیزائن اور فیبریکشین فرم ہیکسلو بھی شامل ہے جو اس کے مشین میں لگنے والے لکڑی اور پی وی سی (پلاسٹک) کے پرزے تیار کرتی ہے۔

ہیکسلو کمپنی کے میتھیو میو نے کہا ‘ہم نے یہ کام سر انجام دینے کے لیے اپنا وقت دیا کیونکہ یہ واقعی بہت مفید منصوبہ ہے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس سے اصل تسکین ملتی ہے جب آپ کاغذ پر بنی تصویر کو ایک عملی شکل میں ڈھلتا دیکھتے ہیں اور جس سے لوگوں کی مدد ہوتی ہے۔’

باتھ یونیورسٹی کے ٹیکنیشن

،تصویر کا کیپشن

باتھ یونیورسٹی کے ٹیکنیشن کا کہنا تھا کہ وہ انھیں اس منصوبے میں مدد کرنے کا کہا گیا تھا

باتھ یونیورسٹی میں جہاں سواہنی نے اپنی تعلیم مکمل کی اس کی انتظامیہ نے بھی ان کے خاکے کو عملی جامعہ پہنانے میں مدد کی۔

یونیورسٹی کے ٹیکنیشن اون روٹر نے کہا کہ ‘ہم ان کو کوئی مسئلہ پیش کرتے تھے تو وہ اس کا جلدی سے حل نکال لیتے تھے۔’

سواہنی کا کہنا ہے کہ وہ اس سال ستمبر کے مہینے کے شروع میں عراق جائیں گے تاکہ یہ مشینیں تقسیم کرنے میں مدد کر سکیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.