’ہاتھوں میں ہتھکڑی، آنکھوں پر پٹی اور برہنہ‘ رہنے پر مجبور: غزہ کے قیدی اسرائیلی ہسپتال میں کس حالت میں ہیں؟
- مصنف, لوسی ولیئم اور بی بی سی آئی انوسٹیگیشنز
- عہدہ, مشرق وسطی نامہ نگار
- ایک گھنٹہ قبل
اسرائیل میں کام کرنے والے طبی اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ غزہ کے فلسطینی قیدیوں کو عموما ہسپتال کے بستروں سے باندھ کر رکھا جاتا ہے، ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی ہے، کبھی کبھار ان کو برہنہ جبکہ اکثر ان کو نیپی پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے جو ایک اہلکار کے مطابق ’تشدد‘ کے زمرے میں آتا ہے۔بی بی سی کو ایک وسل بلوئر نے بتایا کہ ایک فوجی ہسپتال میں ’عموما‘ درد کی دوا دیے بغیر طبی عمل کیا جاتا ہے جس سے قیدیوں کو ’ناقابل قبول درد‘ سے گزرنا پڑتا ہے۔ایک اور وسل بلوئر نے کہا کہ ایک سرکاری ہسپتال میں فلسطینی قیدی پر طبی عمل کے دوران درد کم کرنے کی دوا بہت ’محدود طریقے‘ سے استعمال ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ عارضی عسکری حراستی مراکز میں قید شدید بیمار مریضوں کو مناسب علاج تک رسائی نہیں کیوں کہ اسرائیل میں سرکاری ہسپتال ان کا علاج کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔غزہ سے حراست میں لیے جانے والے ایک قیدی، جن کو بعد میں رہا کر دیا گیا تھا، نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی ٹانگ اس وجہ سے کاٹنا پڑی کیوں کہ ان کے ایک زخم کا علاج نہیں کیا گیا تھا۔
عسکری ہسپتال میں کام کرنے والے ایک سینئر ڈاکٹر نے ان الزامات کی تردید کی ہے تاہم انھوں نے گارڈز کی جانب سے ہتھکڑیوں کے استعمال کو ’غیر انسانی‘ قرار دیا۔اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ حراستی مراکز میں قیدیوں سے ’مناسب اور محتاط‘ سلوک کیا جاتا ہے۔جن دو افراد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی وہ قیدیوں کے طبی علاج کا جائزہ لینے کی پوزیشن میں تھے۔ انھوں نے اس معاملے پر اپنے ساتھیوں کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔ان کے بیانات فروری میں فزیشنز فار ہیومن رائٹس نامی اسرائیلی تنظیم کی جانب سے جاری رپورٹ سے مطابقت رکھتے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ ’اسرائیلی حراستی مراکز انتقام کا آلہ بن چکے ہیں‘ اور قیدیوں کے انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں بالخصوص صحت کا انسانی حق۔
ہتھکڑی لگانا اور آنکھوں پر پٹی باندھنا
سدی تیمان ہسپتال میں کام کرنے والے متعدد طبی اہلکاروں کے مطابق مریضوں کو مستقل بستر سے باندھ کر رکھا جاتا ہے اور ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہتی ہے۔ان مریضوں کو ٹائلٹ استعمال کرنے کی اجازت دینے کے بجائے نیپی پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔اسرائیلی فوج نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ سدی تیمان کے ہسپتال میں قیدیوں کو اس صورت میں ہتھکڑی پہنائی گئی جہاں ’انفرادی اور روز مرہ کے معاملات میں سکیورٹی خطرات کی وجہ سے ضرورت پیش آئی۔‘اسرائیلی فوج کے مطابق نیپی کا استعمال صرف ان قیدیوں کے لیے کیا گیا ’جن کی نقل وحرکت طبی وجوہات کی بنا پر محدود ہو چکی تھیں۔‘تاہم عینی شاہدین، جن میں سینئر انیستھیزیالوجسٹ یویل ڈونچن شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ اس ہسپتال میں ہتھکڑیوں اور نیپیوں کا استعمال عام تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ’فوج مریضوں کو 100 فیصد کسی بچے کی طرح رکھتی ہے۔ آپ کو ہتھکڑی لگی ہے، آپ ڈائپر پہنے ہوئے ہیں، آپ کو پانی کی، ہر چیز کی ضرورت ہے۔۔۔ یہ غیر انسانی ہے۔‘ڈاکٹر ڈونچن کا کہنا ہے کہ ایسے مریضوں کو بھی، جن کی ٹانگیں کٹ چکی تھی، بستر سے باندھا گیا۔ انھوں نے اس طریقے کو ’بےوقوفانہ‘ قرار دیا۔غزہ جنگ کے ابتدائی مہینوں کے دوران اس ہسپتال میں موجود دو عینی شاہدین کے مطابق مریضوں کو بستر میں کمبل کے نیچے برہنہ رکھا گیا۔ایک ڈاکٹر، جو ہسپتال کے حالات سے واقف تھے، نے کہا کہ ہتھکڑی سے زیادہ دیر بندھے رہ کر ’شدید اور ہولناک تکلیف‘ ہو سکتی ہے، انھوں نے اسے ’تشدد‘ قرار دیا اور کہا کہ مریضوں کو چند گھنٹوں کے بعد درد کا احساس شروع ہو جاتا ہے۔
- غزہ جنگ کے 6 ماہ: تباہی، ہلاکتیں اور انسانی المیہ اعداد و شمار کی روشنی میں6 اپريل 2024
- غزہ جنگ کا فیصلہ کُن مرحلہ اور حکومتوں کو درپیش بڑے سوالات: کیا ایران اور حزب اللہ اسرائیل کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کر سکتے ہیں؟4 اپريل 2024
- غزہ اور سوڈان میں غذائی بحران: قحط کیا ہوتا ہے اور اس کا فیصلہ کیسے کیا جاتا ہے22 مار چ 2024
’درد کی ناقابل قبول سطح‘
اسرائیل پر حماس کے حملوں کے فوراً بعد اکتوبر میں سدی تیمان فیلڈ ہسپتال میں کام کرنے والے ایک اہلکار نے مریضوں کو ناکافی مقدار میں درد کش دوائیں دیے جانے کے واقعات کے بارے میں بتایا۔انھوں نے کہا کہ ایک بار ایک ڈاکٹر نے ان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا کہ ایک بزرگ مریض کے خراب ہو جانے والے زخم کی صفائی سے قبل انھیں درد کُش دوا دینا ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’مریض درد کے شدت کی وجہ سے کانپنے لگا۔ میں اس وجہ سے رُک گیا اور میں نے کہا کہ اس سے زیادہ ہم تب تک کُچھ نہیں کریں گے کہ جب تک ہم انھیں درد کم کرنے کی دوا نہیں دے دیتے۔‘ڈاکٹر نے یہ سُننے کے بعد جواب دیا کہ اب اس کے لیے بہت دیر ہو چُکی ہے۔یہ سب صورتحال دیکھنے والے کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے عمل باقاعدگی سے کیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ’ناقابل برداشت حد تک درد‘ ہوتا ہے۔ایک اور موقع پر حماس کے ایک مشتبہ جنگجو نے انھیں سرجیکل ٹیم کے ساتھ مل کر بار بار سرجری کے دوران مارفین اور انستھیٹک کی سطح بڑھانے کے لیے کہا تھا۔یہ پیغام پہنچایا گیا لیکن اگلے آپریشن کے دوران مشتبہ شخص کو دوبارہ ہوش آیا اور وہ کافی تکلیف میں تھا۔ عینی شاہد نے کہا کہ انھوں نے اور دیگر ساتھی دونوں نے محسوس کیا کہ ایسا کرنا سوچی سمجھی انتقامی کارروائی تھی۔اسرائیلی فوج نے ان الزامات کے جواب میں کہا ہے کہ زیر حراست افراد کے خلاف تشدد ’بالکل ممنوع‘ ہے، اور یہ کہ وہ باقاعدگی سے اپنی فورسز کو ان کے لیے ضروری طرز عمل کے بارے میں آگاہ کرتی ہے۔ اس میں یہاں تک کہا گیا کہ تشدد یا کسی کی تذلیل کرنے سے متعلق تحقیق کی جائے گی۔ایک دوسرے وسل بلوئر نے کہا کہ 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد کے دنوں میں، جنوبی اسرائیل کے ہسپتالوں کو زخمی جنگجوؤں اور زخمی متاثرین دونوں کا علاج کرنے کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جب اکثر دونوں ایک ہی ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں ہوا کرتے تھے۔حماس کے مسلح افراد نے غزہ کے ساتھ کی جنوبی اسرائیلی آبادیوں پر حملہ کیا تھا جس میں تقریبا 1200 افراد ہلاک اور 250 کے قریب افراد کو اغوا کیا گیا تھا۔یونی نے کہا کہ ’ماحول انتہائی جذباتی تھا۔ ہسپتال مکمل طور پر بھرے ہوئے تھے۔‘انھوں نے کہا کہ ’ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں میں نے عملے کو اس بات پر بحث کرتے ہوئے سنا کہ آیا غزہ کے قیدیوں کو درد کش دوائیں ملنی چاہئیں یا نہیں۔‘انھوں نے کہا کہ اس طرح کی بات چیت غام تھی، بھلے ہی اصل واقعات بہت کم نظر آئیں۔انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے ایک ایسے معاملے کا علم ہے جس میں ایک آپریشن کے دوران درد کش دواؤں کا استعمال انتہائی محدود طریقے سے کیا گیا تھا۔‘انھوں نے کہا کہ ’مریض کو اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ملی کہ کیا ہو رہا ہے۔ لہٰذا، اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ کسی کو ایک ظالمانہ عمل سے گزرنا پڑ رہا ہے، جس میں آپریشن بھی شامل ہے، اور اسے اس کے بارے میں معلوم نہیں ہے، اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہے، تو علاج اور حملے کے درمیان کی لکیر کم ہو جاتی ہے۔‘ہم نے اسرائیلی وزارت صحت سے ان الزامات کا جواب مانگا، لیکن انھوں اس جواب کے لیے ہمیں آئی ڈی ایف سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.