ہائبرڈ جنگ سے مقابلے کا مرکز جو حکومتوں کو خطرات کی نشاندہی اور ان سے بچنے میں مدد کرتا ہے
- مصنف, فرینک گارڈنر
- عہدہ, بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار، فن لینڈ
سمندر کے اندر پراسرار دھماکے، گمنام سائبر حملے اور مغربی جمہوریتوں کو کمزور کرنے کے لیے غیر محسوس آن لائن مہم – یہ سب ’ہائبرڈ خطرات‘ یعنی مخلوط خطرات کے زمرے میں آتا ہے۔ بی بی سی نے ایک ایسے مرکز کا دورہ کیا ہے جو نسبتاً نئی قسم کی جنگ کا، جو نیٹو اور یورپی یونین کے لیے تیزی سے تشویش کا باعث بن رہی ہے، مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
جب تیجا ٹیلیکینن سے ہائبرڈ جنگ کی وضاحت کے لیے کہا گیا تو ان کا جواب تھا: ’یہ انفارمیشن (معلومات) کی دنیا سے فائدہ اٹھانے کا نام ہے۔ یہ اہم تنصیبات پر حملے کرنے سے متعلق ہے۔‘
وہ یورپین سینٹر آف ایکسیلینس فار کاؤنٹرنگ ہائبرڈ تھریٹس (ہائبرڈ سی او ای) کی ڈائریکٹر ہیں۔ یہ سینٹر چھ سال قبل فن لینڈ کے شہر ہیلسنکی میں قائم کیا گیا تھا۔
تیجا کے مطابق یہ ایک پوشیدہ خطرہ ہے جس کا مقابلہ کرنا اور خود کو اس سے محفوظ رکھنا ملکوں کے لیے بہت مشکل ہے لیکن یہ خطرات ہیں بہت حقیقی۔
گزشتہ سال ستمبر میں بحیرہ بالٹک کے نیچے ہونے والے طاقتور دھماکوں نے ڈنمارک اور سویڈن کے ساحلوں کے درمیان نارڈ سٹریم گیس پائپ لائنوں کے سوراخ کر دیے تھے۔ یہ پائپ لائنیں روسی گیس کو شمالی جرمنی لے جانے کے لیے ڈالی گئی تھیں۔
ماسکو نے فوری طور پر کسی بھی طرح کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا، لیکن مغربی ممالک کو شبہ تھا کہ روس مغرب کو توانائی سے محروم رکھ کر یوکرین کی حمایت کرنے کی سزا دینا چاہتا کیونکہ اس نے فروری میں یوکرین کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔
گزشتہ ستمبر میں بحیرۂ بالٹک میں زیرِ آب ہونے والے زوردار دھماکوں نے ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان نارڈ سٹریم گیس پائپ لائنوں میں بڑے بڑے سوراخ کر دیے تھے
اس کے بعد انتخابی مداخلت ہے۔ اس وقت بہت کم لوگوں کو اس بات کا احساس تھا لیکن 2016 کے امریکی انتخابات کے بعد تفتیش کار اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ہیلری کلنٹن کے صدر منتخب ہونے کے امکانات کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے روس نے مداخلت کی تھی۔
یہ مبینہ طور پر آن لائن ’بوٹس‘ کا استعمال کرتے ہوئے کیا گیا تھا جس میں سوشل میڈیا پر مصنوعی آن لائن اکاؤنٹس کو ریاست کے حمایت یافتہ سائبر کارکنوں کے ذریعہ کنٹرول کیا گیا تھا۔ یہ کارکن سینٹ پیٹرزبرگ میں قائم ’ٹرول فیکٹریوں‘ میں کام کرتے تھے۔
ایک اور طریقہ گمراہ کن معلومات پھیلانا ہے جس میں ایک متبادل، جھوٹے بیانیے کی جان بوجھ کر تشہیر کی جاتی ہے اور معاشرے کے ایسے طبقوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتے ہے جو ایسی باتوں کو بغیر تحقیق کے قبول کر لیتے ہیں۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے اس رجحان میں تیزی آئی ہے۔ نہ صرف روس میں بلکہ مغربی ممالک میں بھی لاکھوں شہریوں نے کریملن کے اس موقف کو قبول کر لیا ہے کہ روس کا یہ اقدام اپنے دفاع کے لیے ضروری تھا۔
مغربی حکومتوں کو ان خطرات کی نشاندہی کرنے اور ان سے خود کو بچانے میں مدد دینے کے لیے نیٹو اور یورپی یونین نے فن لینڈ میں یہ ہائبرڈ سی او ای قائم کیا ہے۔ اس طرح کے مرکز کے لیے یہ ملک ایک دلچسپ اور شاید قدرتی انتخاب ہے۔
فن لینڈ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے غیر جانبدار رہا ہے جس میں اس نے اپنا علاقہ سویت یونین کے حوالے کردیا تھا لیکن دونوں ممالک کے درمیان 1300 کلومیٹر (807 میل) طویل سرحد ہے اور خوف کا مارا فن لینڈ مغرب کے قریب آتا جا رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال اس نے نیٹو میں شمولیت کے لیے درخواست دی تھی۔
ایک سرد اور برفانی صبح میں اس مرکز کے اندر گیا۔ یہ وزارت دفاع کے قریب ایک آفس بلاک میں واقع ہے جو سوویت دور کے روسی سفارت خانے کی عمارت سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔
تیجا ٹیلیکینن نیٹو اور یورپی یونین کے کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 40 تجزیہ کاروں اور ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم کی سربراہ ہیں۔
انھوں نے بتایا اس وقت آرکٹک کے علاقے پر توجہ دی جا رہی ہے اور بہت سارے ممکنہ ہائبرڈ خطرات کا نقشہ تیار کیا گیا ہے۔
تیجا کا کہنا تھا کہ ’توانائی کے نئے ذرائع پیدا ہو رہے ہیں۔ بڑی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے نئے امکانات موجود ہیں۔ انفارمیشن کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
’روس کہتا ہے کہ آرکٹک تنازعات سے پاک ایک مخصوص علاقہ ہے جہاں کچھ بھی برا نہیں ہو رہا مگر پھر بھی وہ وہاں اپنی فوج کھڑی کر رہا ہے۔‘
بحیرہ بالٹک میں ہائبرڈ خطرات میں زیر آب تخریب کاری سے متعلق تشویش بڑھ رہی ہے
شاید ہائبرڈ خطرات کی اہم خاصیت ہے کہ اس میں تقریباً کبھی بھی حقیقی حملہ نہیں ہوتا یعنی کوئی شخص ہتھیار سے فائرنگ نہیں کرتا۔ یہ بڑے غیر محسوس انداز میں کیا جاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ کم خطرناک بھی ہو۔ ایسے حملوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، یہ پتا چلانا بھی مشکل ہوتا ہے، جیسا کہ ایسٹونیا پر 2007 کا بڑے پیمانے پر سائبر حملہ یا پچھلے سال بالٹک میں زیر آب گیس پائپ لائن میں دھماکے۔ مجرم اپنے پیچھے کم سے کم سراغ چھوڑتے ہیں۔
ایسے بہت سے طریقے ہیں جن سے ایک ریاست دوسری ریاست کو براہ راست فوجی کارروائی کے بغیر نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اس کی وضاحت مرکز کی طرف سے تیار کردہ ایک ہینڈ بک میں کی گئی ہے۔ اس میں 10 فرضی مگر حقیقت سے قریب تر سمندری ہائبرڈ خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان میں زیر آب ہتھیاروں کے خفیہ استعمال سے لے کر جزیرے کے ارد گرد کنٹرول زون بنانے اور تنگ آبنائے کو بند کرنا تک شامل ہے۔
ایک حقیقی منظر نامہ جس کا انھوں نے تفصیل سے جائزہ لیا ہے وہ یوکرین پر حملے سے قبل بحیرۂ ازوف میں روس کی کارروائیاں تھیں۔ اکتوبر 2018 کے بعد سے یوکرین کے بحری جہازوں کو اپنی قومی بندرگاہوں ماریوپول اور بردیانسک سے بحیرۂ اسود میں جانے کے لیے آبنائے کرچ گزرتے ہوئے پہلے روسی حکام کے معائنہ کے لیے قطار میں کھڑا ہونا پڑا تھا۔ ایک ماہر جوکا سیوولینن کا کہنا ہے کہ یہ تاخیر کئی دن یا دو ہفتے تک جاری رہ سکتی تھی، جس سے یوکرین کو معاشی نقصان پہنچ سکتا تھا۔
مگر اس مرکز کو جو حیرت انگیز نتائج حاصل ہوئے ہیں وہ گمراہ کن معلومات کے شعبے میں ہیں۔ یورپ بھر میں رائے عامہ کے متعدد جائزوں کو جمع کرنے اور ان کا جائزہ لینے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نیٹو کے کئی ممالک میں روس آبادی کے ایک بڑے حصے میں معلومات کی جنگ جیت رہا ہے۔
مثال کے طور پر جرمنی میں کریملن کا یہ بیانیہ کہ یوکرین پر حملہ نیٹو کی اشتعال انگیزی کا ایک ضروری رد عمل تھا، مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ سلوواکیا میں 30 فیصد سے زائد افراد کا خیال ہے کہ یوکرین کی جنگ کو مغرب نے جان بوجھ کر اکسایا تھا۔ ہنگری میں 18 فیصد نے جنگ کے لیے ’یوکرین میں روسی بولنے والی آبادی پر جبر‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
جمہوریہ چیک سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر تجزیہ کار جیکب کالنسکی نے ماسکو کی گمراہ کن معلومات پھیلانے کی مہم کو دبانے کی ضرورت کو واضح کرنے کے لیے پانی کی تشبیہ استعمال کی ہے۔
وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’میں روسی گمراہ کن معلومات کو خاص طور پر پیچیدہ نہیں سمجھتا۔ مسئلہ پیغام کی کشش نہیں مگر بات یہ ہے کہ وہ کس طرح عددی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم تک رسائی دینے کا کوئی جواز نہیں۔ ہر کسی کو صاف پانی چاہیے لیکن ہم انھیں پانی میں زہر ملانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
تیجا کا کہنا ہے کہ ہائبرڈ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کرنا ان کے مرکز کا کام نہیں بلکہ ان کی ذمہ داری یورپ کو اس بڑھتے ہوئے رجحان سے بچانے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے اس کا جائزہ لینا، انھیں آگاہ کرنا اور پھر دوسروں کو تربیت دینا ہے۔
Comments are closed.