گیٹلنگ گن: رچرڈ گیٹلنگ کا وہ شاہکار جس نے دنیا میں روایتی جنگ اور تاریخ کا دھارا پلٹ کر رکھ دیا
- عمر فاروق
- دفاعی تجزیہ کار
دنیا میں سب سے پہلے مہلک ترین خودکار ہتھیاروں میں سے ایک ’گیٹلنگ گن‘ کو اس کے موجد نے اس لیے بنایا تھا تاکہ جنگیں بند ہو جائیں اور ملکوں کو بڑی فوج رکھنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ یہ گن تیزی سے گولیاں برسانے والی ایک ایسی مشین تھی جس نے روایتی جنگ کی شکل بدل کر رکھ دی مگر اس کو بنانے والے انجینیئر رچرڈ گیٹلنگ کی نیت کچھ اور تھی۔
امریکہ میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران ایجاد ہونے والے اس ہتھیار نے جنگ کی نوعیت اور تاریخ کا دھارا ہی پلٹ کر رکھ دیا۔
مصنفہ جولیا کیلر نے رچرڈ گیٹلنگ کی سوانح حیات اور امریکی سول وار کے دوران ان کی ایجاد کردہ بندوق ’گیٹلنگ گن‘ کی کہانی لکھی ہے۔ ‘ایک منٹ میں 200 گولیاں داغنے کے ساتھ اس کا نشانہ بھی کمال درست تھا، بیرونی دنیا میں امریکی مفادات کے دفاع اور توسیع میں دنیا کی پہلی مشین گن نہایت کلیدی اہمیت اختیار کر گئی۔‘
سنہ 1971 میں ‘گیٹلنگ گن‘ نامی کتاب کے مطابق ‘رچرڈ گیٹلنگ نے مشاہدہ کیا کہ روایتی جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کی اکثریت گولیاں لگنے سے نہیں بلکہ میدان جنگ میں مختلف متعدی امراض لگنے ہلاک ہوتی ہے۔ سنہ 1877 میں گیٹلنگ نے لکھا تھا کہ مجھے یہ خیال آیا کہ اگر میں ایک مشین گن ایجاد کروں جو لگاتار گولیاں برسا سکے تو یہ میدان جنگ میں سینکڑوں فوجیوں کے کے بجائے ایک آدمی کو اس قابل کر دے کہ بڑی افواج کی ضرورت ہی باقی نہ رہے اور اس کے نتیجے میں جنگ اور امراض کا پھیلاﺅ بڑی حد تک ختم ہو جائے گا۔‘
’یہ خوش گمان موجد اصل میں زراعت کی مشینیں بنا رہا تھا‘
رچرڈ گیٹلنگ ایک امریکی انجینیئر اور موجد تھے۔ موجد کے طور پر گیٹلنگ کی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز اپنے والد کی معاونت سے شروع ہوا تھا۔ انھوں نے کپاس کے بیج بونے کی مشین بنانے میں اپنے والد کی مدد کی تھی۔
یہ مشین بیج بونے کے لیے علاوہ کپاس کے پودوں کی چھدرائی یا عرف عام میں گوڈی کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی تاکہ کپاس کے پودوں کے درمیان غیر ضروری جھاڑ جھنکار کو صاف کر دے جبکہ سنہ 1839 میں انھوں نے بھاپ سے چلنے والی کشتیوں کے پیچ دار پنکھے کو عملی طور پر کامیاب انداز میں چلا کر دکھایا۔
رچرڈ گیٹلنگ نے سنہ 1844 میں میزوری میں اپنا کام جمایا اور بنیاد کپاس کے بیج بونے والی مشین سے کیا۔ چاول، گندم اور دیگر اجناس کی بوائی کے لیے بھی اس مشین کو بروئے کار لایا گیا۔ ان مشینوں کے مارکیٹ میں آنے سے ملک میں زرعی نظام میں انقلاب برپا ہو گیا۔
چیچک کی وبا پھوٹنے پر رچرڈ گیٹلنگ ان کی دلچسپی ادویات کے مطالعے میں بڑھ گئی۔ گیٹلنگ نے اوہائو میڈیکل کالج سے سنہ 1850 میں کورس مکمل کیا اور اُسی برس انھوں نے بھنگ توڑنے والی مشین جبکہ 1857 میں بھاپ سے چلنے والا ہل (زمین جوتنے کا آلہ) ایجاد کیا۔
مگر اسی دوران امریکہ میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تو انھوں نے فوری طور پر خود کو اسلحہ بنانے کے شعبے میں طاق بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کر لی۔ سنہ 1861 میں اُنھیں ایک تیز رفتار اور لگاتار گولیاں برسانے والی بندوق کی تیاری کا خیال سوجھا۔ سنہ 1862 تک انھوں نے اپنے تصور کے مطابق گیٹلنگ گن کی تیاری میں تو کامیابی حاصل کر لی تھی لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے اس کی منظوری اور سرکاری طور پر استعمال سے قبل ہی جنگ عملاً ختم ہو چکی تھی۔
مصنفہ جولیا کیلر لکھتی ہیں کہ ‘اپنے زمانے میں رچرڈ گیٹلنگ بہت ساری صنعتی چیزوں کی تخلیق اور ان کو بہتر بنانے کے لیے مشہور تھے۔ سائیکل سے لے کر بھاپ سے چلنے والے بحری جہاز کو چلانے کے لیے پیچ دار پنکھوں اور ٹوائلٹ کے ‘فلش‘ (پانی بہانے کے طریقہ) کی ایجاد تک ان کی ایجادات کا ایک سلسلہ تھا۔
’گیٹلنگ نے دراصل یہ بندوق لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے بنائی تھی۔ اُن کا خیال تھا کہ اس ایجاد کے نتیجے میں فوج کا حجم کم ہو جائے گا۔‘
گینٹلنگ گن میں خاص کیا تھا؟
گیٹلنگ نے اپنی گن کو چار نومبر 1862 کو ’پیٹنٹ‘ (ایجاد کی سرکاری سند) کروایا۔ یہ ہتھیار اگرچہ اب معدومی کا شکار ہو چکا ہے لیکن ڈیڑھ سو (150) سال قبل کی اس مہلک ایجاد کے گزرے برسوں کے دوران دنیا میں امریکی کیپٹل ازم کی فوجی برتری کا دبدبہ بیٹھانے اور تشدد میں امریکی اجارہ داری قائم کرنے میں بڑا عمل دخل اور یا کردار ادا کیا۔
دنیا بھر کے فوجی حلقوں میں مشین گن یا گیٹلنگ گن (خودکار بڑی بندوق) کے نام سے پکارے جانے والی اس گن کو برطانوی راج نے افریقہ کے خطے میں اپنے تسلط کی کوششوں کے دوران اسے خوب استعمال کیا۔
انیسویں صدی کی آخری چوتھائی میں مزدوروں کے ہنگاموں اور ہڑتالوں کے موقع پر امریکی افواج نے صنعتی مزدوروں کے خلاف بھی اس گن کو استعمال کیا۔
گیٹلنگ گن کی چھ دھاتی نالیاں تھیں جو ایک دائرے کی ترتیب میں ہوتی تھیں۔ اِسے ایک ریڑھی پر نصب کیا جاتا۔ جیسے ہی گن چلانے والا پٹی کو گھماتا تو ایک گولی میگزین سے بندوق کی نالی میں چلی جاتی۔ پھر چلانے والا اسے نشانہ لگانے یا شست باندھنے کی کیفیت میں لے آتا۔ ہر گولی داغے جانے کے بعد نالی گھومتی اور اس طرح ایک کے بعد ایک گولی ترتیب وار بندوق کی نالیوں میں بھرتی رہتیں۔
گیٹلنگ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی بندوق کو بہتر بناتے رہے حالانکہ اس گن کا ابتدائی نمونہ بھی ایک منٹ میں 200 گولیاں داغنے کی صلاحیت کا حامل تھا۔ پہلی گیٹلنگ بندوق میں کاغذی خول سے بنے کارتوس استعمال ہوتے تھے جن میں بارود بھرا ہوتا تھا اور اعشاریہ اٹھاون دھانے کی گولیاں داغی جاتیں۔ پیتل کے خول بننے کے بعد ایک منٹ میں اس بندوق سے 400 گولیاں چلانے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔
’اس ایجاد کو صحیح سمجھا نہیں گیا‘
ثقافتی تنقید نگار جولیا کیلر نے اس ایجاد کے بارے میں اپنی یاداشتوں میں لکھا کہ اس ایجاد اور اس کے موجد کے بارے میں تصور کو درست طور پر سمجھا نہیں گیا۔
‘دنیا میں ہونے والے واقعات پر اس کے گہرے اثرات سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح قوت تخیل، تصورات اور تباہ کن طاقت کا امتزاج ہو جو دنیا میں ایک عالمی قوت کے طور پر امریکہ کے ابھرنے کے تضاد کی بہترین مثال ہے۔‘
‘یہ بندوق گیٹلنگ کی بیج بونے والی مشین کی بنیاد پر تیار ہوئی۔ اس کا عملی نمونہ سنہ 1861 میں تیار ہوا تھا۔ سنہ 1862 میں انھوں نے ریاست انڈیانا میں شہر انڈیاناپولس میں ’گیٹلنگ گن‘ کمپنی قائم کی اور اس کی مارکیٹنگ شروع کی۔ پہلے چھ بندوقیں بنائیں گئیں جو دسمبر 1862 میں فیکٹری میں آگ لگنے کے باعث ضائع ہو گئیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
’یہ تمام چھ بندوقیں گیٹلنگ نے اپنی خرچ پر تیار کروائیں۔ مگر گیٹلنگ نے اس نقصان کی پرواہ نہ کی اور 13 مزید بندوقوں کی تیاری میں لگ گئے۔ اگرچہ یہ بندوق سول وار میں تیار ہوئی لیکن اس کا استعمال کم ہی دیکھنے میں آیا۔‘
’امریکی آرمی نے یہ بندوق استعمال کرنے سے انکار کر دیا‘
سول وار پر مشہور ہسٹری ٹیلی ویژن کی ویب سائٹ پر موجود ایک مضمون کے مطابق ‘مختصر وقفے کے ساتھ لگاتار گولیاں برسانے والے ہتھیار کی ایجاد کی کوششیں صدیوں سے جاری تھیں لہٰذا گیٹلنگ کی تیزی سے اور لگاتار گولیاں برسانے والی مشین گن کی ایجاد آگے کی طرف ایک بڑا قدم ثابت ہوئی۔ ابتدائی تجرباتی مراحل کی کامیابی کے باوجود امریکی آرمی آرڈیننس ڈیپارٹمنٹ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔‘
’اس کی وجہ سول وار کے دوران اس ہتھیار کی آزمائش کا نہ ہونا تھا۔ بینجمن ایف بٹلر واحد یونین جنرل تھے جنھوں نے تنازعے کے دوران گیٹلنگ گنز خریدیں۔ کم از کم ایک درجن بندوقیں بٹلر نے 1865 کے موسمِ بہار میں ورجینیا اور پٹرزبرگ میں ظالمانہ محاصرے کے دوران کام آتے ہوئیں دیکھیں۔‘
‘آرمی نے باضابطہ یا سرکاری طور پر گیٹلنگ گنز 1866 میں استعمال کرنا شروع کیں اور وہاں سے ہی رفتہ رفتہ ان کے نظر آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔‘
رچرڈ گیٹلنگ
‘انیسویں صدی کے اختتام تک یہ ہتھیار طاقت اور غلبے کی خوفناک علامت بن چکا تھا۔ امریکی دستوں نے مقامی امریکیوں کے خلاف مہمات کے دوران گیٹلنگ گنز کا بار بار استعمال کیا جبکہ برطانوی افواج نے زولو، افریقہ (1879) کے خلاف اپنی جنگوں میں ان کی طاقت آزمائی۔ 1870 سے 1890 تک امریکہ میں مزدوروں کے فسادات جاری تھے، امریکہ بھر میں قانون نافذ کرنے والے افسران اور ریاستی ملیشیا نے محنت کشوں کے ساتھ پرتشدد تصادم اور ہڑتالوں کے دوران گیٹلنگ گنز استعمال کیں۔‘
رچرڈ گیٹلنگ نے 85 سال کی عمر میں 1903 میں وفات پائی۔ اپنی تمام زندگی میں انھوں نے کل 43 پیٹنٹ کرائے۔ ان چیزوں میں بھاپ سے چلنے والے ٹریکٹر سے لے کر ‘فلش ٹوائلٹ’ کی جدید شکل تک کی اشیا شامل تھیں۔
‘اسی اثنا میں اس کی سب سے مشہور ایجاد کا دیگر آتشیں اسلحہ کے ساتھ مقابلہ بھی بڑھتا گیا۔ اس جدید اسلحہ میں ‘ری کائل سسٹم‘ (گولی چلنے سے پیدا ہونے والے دھکے سے بندوق کی نالی کا پھر سے واپس پلٹنا) سے بندوق کی نالی کے گھومنے والا معاملہ ختم ہو گیا۔ اِس وقت تک جنگ عظیم اوّل چھڑ چکی تھی اور پہلی مکمل خودکار مشین گن کے آنے سے گیٹلنگ گن نظرانداز ہو گئی۔ یہ جدید ترین مشین گن شمالی انگلستان کی ریاست مینی میں پیدا ہونے والے ہرام سٹیونز میکسم نے 1880 میں ایجاد کی تھی۔‘
‘گیٹلنگ کی اصل خواہش و منشا بھلے ہی جنگ میں خوں ریزی اور تشدد میں کمی لانا کیوں نہ ہو لیکن ان کی ایجاد سے متاثر ہو کر حجم میں چھوٹے مگر انتہائی موثر خودکار ہتھیاروں کی تیاری سے ایسا مہلک اسلحہ تیار ہوا جس کی نظیر پہلے نہیں تھی۔ گیٹلنگ گنز کا شہرہ جنگ عظیم دوم کے بعد ایک بار پھر اُس وقت ہوا جب ‘وولکن منی گن’ کے نمونے کے طور پر اسے استعمال کیا گیا۔ یہ بندوقیں امریکی لڑاکا ہیلی کاپٹرز پر لگائی گئیں جنھیں ویتنام میں استعمال کیا گیا۔‘
Comments are closed.