یوکرین، روس کشیدگی: امریکہ اور روس کا جنوری کے آغاز میں بات چیت کا اشارہ، پوتن کے نیٹو سے مطالبات
امریکی حکام نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کی سرحد پر فوجی تعیناتیوں میں اضافے پر آئندہ ماہ جنوری میں روس سے بات چیت ہو سکتی ہے۔
یہ بیان روسی صدر ولادیمیر پوتن کے اُس حالیہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ وہ جنیوا میں ملاقات کے لیے پُراُمید ہیں۔
روسی صدر نے بحران کے حل کے لیے نیٹو کے مستقبل کے حوالے سے فوری یقین دہانیوں کا مطالبہ کیا ہے۔
اپنی سالانہ نیوز کانفرنس میں اُن کا کہنا تھا کہ ‘گیند اب اُن کے کورٹ میں ہے، اُنھیں ہمیں کچھ جواب دینا ہو گا۔’ اُنھوں نے فوجی اقدامات کی دھمکی بھی دی ہے تاہم اُنھوں نے یوکرین پر حملے کی منصوبہ بندی کی تردید کی ہے۔
یوکرین کے سکیورٹی حکام نے کہا ہے کہ ایک لاکھ سے زائد روسی فوجی اس کی سرحدوں کے قریب بھیج دیے گئے ہیں جبکہ امریکہ نے یوکرین پر حملے کی صورت میں پوتن کو ایسی پابندیوں کی دھمکی دی ہے جو ‘اُنھوں (روس) نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوں گی۔’
وائٹ ہاؤس کے سینیئر حکام نے صدر پوتن کے بنیادی مطالبات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے جن میں مشرقی یورپ میں نیٹو کی تمام فوجی سرگرمیوں کا خاتمہ اور یوکرین کو نیٹو رکنیت نہ دینا شامل ہیں۔ تاہم یہ دونوں مطالبات پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔
صدر پوتن نے جمعرات کو کہا ہے کہ ‘یہ آپ ہیں جنھیں ہمیں یقین دہانی کروانی ہو گی، اور فوری طور پر، ابھی۔‘ اُنھوں نے اصرار کیا کہ فوجی اقدامات اُن کی ترجیح نہیں ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا کہ ویسے تو سفارتی بات چیت پر فی الحال کوئی حتمی اتفاق نہیں ہوا ہے مگر امریکہ ایسا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ان کے لیے پُراُمید ہے۔
برطانیہ کی وزیرِ خارجہ لِز ٹروس نے کہا کہ وہ ماسکو کی جانب سے جنوری میں بات چیت پر رضامندی کا خیر مقدم کرتی ہیں مگر اُنھوں نے خبردار کیا کہ روسی حملے کا جواب روسی معیشت پر پابندیوں کی صورت میں دیا جائے گا۔
یوکرین کی سرحد کے گرد تناؤ میں اضافے کے باوجود ملک کے مشرقی حصے کے حوالے سے اُمید کی کرن موجود ہے جہاں روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند گذشتہ سات برس سے یوکرین کی فوج کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یوکرین، روس اور باغیوں نے سنہ 2020 میں طے پانے والے ایک کمزور سے جنگ بندی معاہدے کی تجدید کی ہے اور یوکرین کے صدارتی چیف آف سٹاف نے اسے تناؤ میں کمی کی جانب قدم قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
فرانس اور جرمنی نے جنگ بندی کے احترام اور قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
نیٹو کے لیے مطالبات
صدر پوتن نے کئی دن قبل یوکرین کے معاملے میں ‘ریڈ لائنز’ کی نشاندہی کی تھی اور جب اُن سے جمعرات کو سالانہ پریس کانفرنس کے دوران پوچھا گیا کہ کیا وہ یقین دہانی کروا سکتے ہیں کہ (یوکرین پر) کوئی حملہ نہیں ہو گا، تو وہ اس حوالے سے جوشیلے انداز میں بات کرتے نظر آئے۔
اُنھوں نے کہا، ’ہم برطانیہ یا امریکہ کی سرحدوں پر نہیں گئے، بالکل نہیں، بلکہ وہ ہماری سرحدوں پر آئے۔‘ چار گھنٹے طویل اس سیشن میں اُنھوں نے نیٹو پر الزام لگایا کہ وہ نوّے کی دہائی سے (نیٹو میں) توسیع پسندی کی پانچ لہروں کے ذریعے روس سے دھوکہ کر چکے ہیں۔
جین ساکی نے نشاندہی کی کہ یوکرین اور روس کی سرحد پر واحد جارحیت روسی فوجوں اور صدر پوتن کے ‘جارحانہ بیانیے’ کی ہے۔
ایک یوکرینی فوجی روسی حمایت یافتہ باغیوں کو یوکرینی فوجوں سے علیحدہ کرنے والی لکیر کے پاس کھڑا ہے
تجزیہ: سٹیو روزنبرگ، نامہ نگار ماسکو
دنیا میں ایسے عالمی رہنما بہت کم ہیں جو چار گھنٹے طویل پریس کانفرنس کر سکتے ہیں لیکن ان چار گھنٹوں میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین کے حوالے سے اپنے ارادوں کے حوالے سے کچھ اشارے دیے ہیں۔
انھوں نے اس پریس کانفرنس میں سوویت دور کے بعد نیٹو کی توسیع پر اپنی دیرینہ ناراضگی کو دہرایا۔
انھوں نے سنہ 2014 کے یوکرین کے انقلاب پر اپنی مذمت اور یوکرین کے صدر زیلنسکی پر اپنی تنقید کو بھی دہرایا۔
ولادیمیر پوتن نے روس کی سکیورٹی ضمانتوں پر امریکہ کے ’فوری‘ ردعمل کا مطالبہ بھی کیا لیکن انھوں نے اس بات کا دعویٰ بھی کیا کہ امریکہ نے روس کی تجاویز پر ‘مثبت’ اشارے دے ہیں اور وہ آئندہ ماہ شروع ہونے والے مذاکرات کے بارے میں پر امید ہیں۔
مگر مذاکرات کے لیے رضا مندی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مذاکرات میں اتفاق بھی ہو گا۔
روس مشرق کی طرف نیٹو کی توسیع کے لیے ویٹو کا مطالبہ کر رہا ہے اور اس بات کا امکان نہیں کہ امریکہ اس پر رضامند ہو گا۔
اور مذاکرات کا مطلب یہ نہیں کہ ماسکو فوجی آپشن کو خارج از امکان قرار دے گا۔
روس چاہتا ہے کہ نیٹو اپنے سنہ 1997 والے حجم پر واپس چلی جائے مگر پولینڈ، بلقان ممالک، اور دیگر مشرقی یورپ کے ممالک اس کے مخالفت کریں گے جنھوں نے مغرب کے دفاعی فوجی اتحاد میں شرکت اختیار کر رکھی ہے۔
روس کا ایک اور مطالبہ ہے کہ یوکرین اور جارجیا کو نیٹو میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ روس نے سنہ 2008 میں جارجیا پر حملہ کیا تھا اور پھر سنہ 2014 میں کریمیا کو یوکرین سے چھین لیا تھا۔
کریمیا میں اضافی روسی فوجی بھیج دیے گئے ہیں اور وہاں فوجی مشقیں ہونی ہیں۔ جرمنی نے روسی فوجیوں کی نقل و حرکت پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ‘شدید بحران میں نرمی کی کوشش کے لیے اب ضروری ہے‘ کہ بات چیت کی جائے۔
خطہ بلقان کے ممالک لتھوینیا، لیٹویا اور ایسٹونیا کو بھی روسی فوجیوں کی تعیناتی سے خدشات ہیں اور لیتھوینیا کے صدر گیتاناس نوسیدا نے حالیہ صورتحال کو ممکنہ طور پر ’30 برس میں سب سے خطرناک صورتحال’ قرار دیا ہے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس سٹولٹنبرگ نے رواں ہفتے کہا کہ وہ بھی اگلے سال کے اوائل میں روس کے ساتھ بات چیت کے لیے پراُمد ہیں مگر اصرار کیا کہ اس اتحاد میں یوکرین کی شمولیت نیٹو اور یوکرین پر منحصر ہے۔
اُنھوں نے کہا: ‘روس کے ساتھ کوئی بھی مذاکرات اُن بنیادی اصولوں کے احترام کے بعد ہی ہوں گے جن پر یورپی سلامتی قائم ہے۔’
برسلز میں نیٹو کا ہیڈ کوارٹر۔ روس کو نیٹو کی توسیع پر خدشات ہیں
باغیوں کے قبضے میں موجود یوکرین کے مشرقی حصے میں سالہا سال سے جاری تنازع میں اب تک 14 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ویسے تو باضابطہ لڑائی سنہ 2015 میں ختم ہو گئی تھی مگر تصادم اکثر ہوتے رہے ہیں۔ جولائی 2020 میں ہونے والی جنگ بندی کا مقصد تشدد میں کمی لانا تھا مگر حالیہ عرصے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
بدھ کو دونوں ممالک اور روسی حمایت یافتہ باغیوں نے تنظیم برائے یورپی سلامتی و تعاون (او ایس سی ای) کی جانب سے جنگ بندی پر عملدرآمد پر اتفاق کیا۔ اس تنظیم کا مقصد تنازعات کو روکنا اور بحرانوں سے نمٹنا ہے، جبکہ اس کا مشرقی یوکرین میں ایک مانیٹرنگ مشن بھی ہے۔
تنظیم کے سفیر میکو کینونین نے اس معاہدے کو خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا کیونکہ اُن کی تنظیم رواں سال دسمبر میں گذشتہ سال دسمبر کے مقابلے میں جنگ بندی کی پانچ گنا زیادہ خلاف ورزیاں ریکارڈ کر چکی ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کے سٹاف کے سربراہ آندری یرمیک نے کہا کہ ‘آنے والی کرسمس اور سالِ نو کی چھٹیاں پُرامن ہونی چاہییں۔’
Comments are closed.