وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے گیس اور بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 4 ہزار ارب روپے ہونے کا انکشاف کیا ہے۔
وزیر مملکت برائے خزانہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کہا کہ بات اگر کھل کر کرنی ہے تو میں کھل کر کروں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم توانائی کی اصل قیمت وصول نہیں کر رہے، آئی ایم ایف کا یہ اعتراض ہے، ہم جس ریٹ پر توانائی خرید رہے ہیں، اس سے کم پر فروخت کریں گے تو آئی ایم ایف بات نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کا آئی ایم ایف معطل پروگرام ہم نے شروع کیا، آئی ایم ایف نے جو کہا اس پر عمل کیا جس کی سیاسی قیمت ہم نے ادا کی۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ گیس اور توانائی کا گردشی قرضہ 4 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، گزشتہ حکومت نے تیل اور بجلی پر سبسڈی دے کر زیادتی کی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس محصولات بڑھانے کا مطالبہ آئی ایم ایف کا ہے، 3 ہزار روپے ٹیکس تاجروں نے نہیں دیا اور سڑکوں پر نکل آئے۔
عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ پراپرٹی پر لوگ ٹیکس نہیں دیتے تو حکومت ریونیو کہاں سے اکٹھا کرے؟
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا سبسڈیز پر اعتراض ہے جب ختم کی جاتی ہیں تو احتجاج ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت کا مسئلہ ہے، ہم کمائی کم کرتے ہیں اور خرچ زیادہ کر رہے ہیں، ہماری برآمدات نہیں بڑھ رہیں، درآمدات بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب درآمدات 70 ارب ڈالر اور برآمدات اور ترسیلات زر 60 ارب ڈالر ہوں تو کیا کریں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ خام مال کی قیمت مارکیٹ میں 10 سے 15 فیصد بڑھ گئی ہے، کئی بینک ایل سیز نہیں کھول رہے اور لوگوں کو مسائل ہیں، چھوٹی چھوٹی ایل سیز نہیں کھل رہیں۔
اس موقع پر گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ اس وقت کاروباری افراد کو مسائل کا سامنا ہے، جب تک باہر سے پیسہ نہیں آئے گا ہم پیسے ریلیز نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی سے میٹنگز رکھی ہیں اور ان کی تجاویز سامنے آئیں گی۔
علی پرویز ملک نے کہا کہ یہی بات حکومت کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک نے درست کہا کہ پیسے آئیں گے نہیں تو کیسے دیں گے۔
Comments are closed.