بی بی سی کے فلیگ شپ کرنٹ افیئرز پروگرام میں انٹرویو کے وقت ایمازون اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑی تھی۔ 2000 کے وسط تک دھڑا دھڑ ڈاٹ کام ویب سائٹس کھل رہی تھیں جس کا اثر ایمازون سمیت درجنوں آن لائن کاروباروں پر بھی پڑنے لگا تھا۔نیوز نائٹ میں وائن نے بتایا کہ اگرچہ ایمازون نے 1999 میں 1.6 بلین ڈالر کمائے مگر اسے 720 ملین ڈالر کا خسارہ بھی اٹھانا پڑا اور کمپنی کے حصص کی قیمت غیر مستحکم تھی جو دسمبر 1999 میں فی شئیر 113 ڈالر سے گر کر جون 2000 میں 52 ڈالر تک آ گئی تھی۔انٹرویو کے شروع میں وائن نے کہا کہ لوگ کہتے تھے ’ایمازون کمال ہے‘ مگر اب وہ کہتے ہیں ’کمال ہے ایمازون اتنا پیسہ کیسے کھو رہا ہے‘۔جیف نے جواب دیا ’سب کو معلوم ہے ہم ایک غیر منافع بخش کمپنی ہیں۔ یہ حکمتِ عملی سوچ سمجھ کر بنائی گئی ہے اور یہ فیصلہ سرمایہ کاری کی غرض سے لیا گیا ہے۔‘اس انٹرویو کے 24 سال بعد اور ایمازون کے آغاز کے 30 سال بعد بھی وائن کو جیف بیزوس اور اس انٹرویو کے بہت سے حصے یاد ہیں-وائن نے بی بی سی کو بتایا ’میرے سوال تھوڑے سخت تھے لیکن وہ بہت تحمل سے ان کے جواب دیتے رہے۔‘وائن کہتی ہیں کہ ’اس وقت میں سوچ رہی تھی کہ یہ کتنا خوش مزاج ہے اور شاید میں اس وقت سے جانتی تھی کہ وہ دنیا کا سب سے امیر آدمی بننے والا ہے۔‘
گھر کے گیراج سے کمپنی کی بنیاد
جیف بیزوس نے 5 جولائی 1994 کو واشنگٹن میں گھر کے گیراج سے کمپنی کی بنیاد رکھی اور ایک سال بعد ان کی سائٹ نے کام شروع کیا۔دنیا بھر میں ویب ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھی (جسے ویب 1.0 کے نام سے جانا جاتا ہے) اور یہ وہ وقت تھا جب محض چند کمپنیوں نے ہی ویب پر مبنی کاروبار کی صلاحیت کو پہچاننا شروع کیا تھا۔ایمازون نے ایک آن لائن کتاب فروخت کرنے والی کمپنی کے طور پر کام کا آغاز کیا اور اس وقت ان کے پاس دنیا میں ای کتب کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود تھا۔آہستہ آہستہ کتابوں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے یہ ای کامرس میں سب سے اہم ویب سائٹ بن کر سامنے آئی۔سنہ 1990 کی دہائی کے آخر میں امریکہ میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس مارکیٹ میں بہت سرمایہ کاری ہوئی جس سے انٹرنیٹ پر انحصار کرنے والی نئی کمپنیوں کی ایک نسل نے جنم لیا۔ایمازون بھی ڈاٹ کام پر انحصار کرنے والی کمپنیوں میں شامل ہوئی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ویب سائٹ کے آغاز کے چار سال بعد ایمازون دنیا کا سب سے بڑا آن لائن سیلز پلیٹ فارم بن گیا جس میں کتابوں کے علاوہ الیکٹرانکس، کھلونے اور دیگر آلات تک بکنے لگے۔کمپنی کی دسویں سالگرہ تک ایمازون کے 17 ملین صارفین بن چکے تھے اور اس کی مالیت 50 گنا تک بڑھ گئی تھی۔ جیف بیزوس کو ٹائم میگزین نے 1999 کا ’پرسن آف دی ایئر‘ بھی نامزد کیا تھا۔ انھوں نے جیف کو ’سائبر کامرس کا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔تاہم آنے والے برسوں میں کمپنی کو ٹیکس اور مزدوروں سے کام کروانے کے حوالے سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔یہاں تک کہ سنہ 2000 میں ایمازون کی شاندار کامیابی کے باوجود کچھ لوگوں کو کمپنی کے بارے میں شکوک و شبہات تھے۔سنہ 2000 میں نیوز نائٹ پر ایمازون کے بانی نے اپنی کمپنی کے بارے میں تنقید کرنے والوں سے اتفاق کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ انھیں منافع کمانے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔وائن نے ریمارکس دیے کہ ’جب آپ کے پاس 20 ملین گاہک ہوں تو ایسے میں پیسے کھونے کے لیے شاندار مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔‘بیزوس نے ازراہِ مذاق جواب دیا کہ ’ہاں ٹھیک ہے ہم سب کے پاس یہ مہارت موجود ہے۔‘ اس کے بعد انھوں نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا ’لیکن جو ہم کر رہے ہیں اسے سرمایہ کاری کہتے ہیں۔‘ڈاٹ کام اور ای کامرس میں عدم استحکام کے دنوں میں بیزوس توسیع کے متعلق سوچ رہے تھے۔ 1999 میں ایمازون نے اپنے کام کو بڑھانے کی غرض سے (ڈسٹربیوشن سینٹر بنانے کے لیے) دنیا بھر میں تقریباً 40 لاکھ مربع فٹ کی سرمایہ کاری کی۔اس میں لندن سے باہر کمپنی کے سب سے بڑے ڈسٹربیوشن سینٹر میں 20 لاکھ مربع فٹ کا اضافہ بھی شامل ہے۔بیزوس نے 2000 میں کہا تھا کہ ’کم سے کم قیمت پر بکنے والی وسیع مصنوعات میں سے انتخاب کی پیشکش‘ والی حکمت عملی اپنانے سے بھی کمپنی کے نقصانات میں اضافہ ہوا۔بیزوس کے مطابق بنیادی ترجیح ایمازون کے بڑھتے ہوئے صارفین کی مانگ کو پورا کرنا تھا۔بیزوس نے مستقبل کا سوچتے ہوئےکمپنی کے نقصانات کی طرف پوری توجہ دی۔ اگرچہ کمپنی کو ڈاٹ کام کے اختتام سے شدید نقصان پہنچا لیکن ’سب سے اہم گاہگ ہے‘ کی حکمت عملی نے ایمازون کو اثرات سے بچنے میں مدد دی۔وائن کا کہنا ہے کہ مجھے یاد ہے جیسے ہی بیزوس سٹوڈیو سے نکلے تو میں انھیں جاتے ہوئے دیکھتے سوچ رہی تھی کہ ’اس آدمی کا مستقبل کیا ہے۔‘وہ بدترین صورتحال سے بال بال بچے تھے کیونکہ ڈاٹ کام کا خاتمہ بہت سے لوگوں کو سڑک پر لے آیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاس انٹرویو کے 24 سال بعد ایمازون نے ای کامرس اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ سپیس میں اپنی پوزیشن اور غلبہ مستحکم کیا ہے۔ نیوز نائٹ انٹرویو کے کئی ماہ بعد ایمازون نے ای مارکیٹ لانچ کی جس کے ذریعے انھوں نے تیسرے فریق کو اپنا سامان بیچنے کے لیے جگہ فراہم کی۔سنہ 2005 میں کمپنی نے اپنے باقاعدہ صارفین کے لیے ایمازون پرائم لانچ کیا اور 2024 میں اس کے پرائم ممبرز کی تعداد 180 ملین صارفین سے بڑھنے والی ہے۔ایمازون نے 2023 میں جہاں سیلز ریونیو میں 574.8 بلین ڈالر کمائے وہیں اس نے دیگر سرگرمیوں میں بھی حصہ ڈالا (سرمایہ کاری کی) جن میں فلم اور ٹیلی ویژن سٹوڈیو، ایک سٹریمنگ سروس، سروس گروسری سٹورز اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس اسسٹنٹ وغیرہ شامل ہیں۔اس کمپنی نے متعدد کمپنیاں خرید کر انھیں خود میں ضم بھی کیا جن میں ٹویچ انٹرایکٹو، ہول فوڈز اور آڈیبل وغیرہ شامل ہیں۔وائن کا کہنا ہے کہ ’میں نے سوچا اسی وجہ سے میں ایک کاروباری ذہن نہیں رکھتی کیونکہ اگر میں نے کتابوں کا کاروبار شروع کیا ہوتا اور وہ اچھا چلتا تو میں اس سے ریٹائر ہو جاتی۔‘’میں حیران تھی کہ بیزوس نے کتنی تیزی سے ایمازون کو 2.0 اور 3.0 اور 4.0 میں بدل دیا اور آج صورتحال یہ ہے میں سودے سے لے کر اپنی ساری خریداری یہاں سے کر رہی ہوں۔‘وائن نے مزید کہا کہ ’وہ ایک حیرت انگیز تاجر ہیں مگر سب سے حیرت انگیز چیز یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں ایمازون پر کس قدر انحصار کرتے ہیں۔‘بیزوس نے 2020 میں کووڈ کے وبائی مرض کے دوران بڑی کامیابیاں حاصل کیں اور دنیا کے سب سے امیر شخص بن گئے۔،تصویر کا ذریعہBLUE ORIGINلیکن کمپنی کو اب بھی کسی حد تک خسارے کا سامنا ہے۔ 2022 میں ایمازون دنیا کی پہلی ایسی عوامی ملکیت والی کمپنی بنی جسے مارکیٹ ویلیو میں ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا۔برطانیہ کے علاقے کوونٹری میں کمپنی کے گودام میں تنخواہ اور کام کے حالات کے حوالے سے ہڑتالیں کی گئیں۔ اس کے علاوہ یہ کمپنی امریکہ میں یونین سازی کے خلاف بھی لڑ رہی ہے۔بیزوس نے 2021 میں ایمازون کے سی ای او کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور کمپنی کو ایمازون ویب سروسز کے سابق سی ای او اینڈی جسی کے حوالے کر دیا۔تب سے انھوں نے اپنی توجہ 2013 میں خریدے گئے دوسرے منصوبوں کی طرف رکھی ہے جس میں ان کے ایرو سپیس وینچر، بلیو اوریجن اور دی واشنگٹن پوسٹ شامل ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے خیراتی منصوبوں پر بھی توجہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ وہ اپنی دولت کو موسمیاتی تبدیلی اور عدم مساوات جیسے مسائل سے لڑنے کے لیے عطیہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں -تاہم ان کی انسان دوست کوششوں کو تنقید کا سامنا ہے اور کچھ لوگوں نے ایمازون میں کام کے حالات اور ٹیکس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھیں منافق قرار دیا ہے۔وہ اپنی ویب سائٹ کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے کی اعلیٰ ترین سطحوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے بھی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔کچھ لوگ کمپنی کے پیچھے شخصیت کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اس سب سے قطعہِ نظر ہماری زندگیوں اور ہمارے معاشی حالات پر ایمازون کے کردار کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.