جِم جونز: سنہ 1978 میں 900 سے زیادہ امریکیوں کی ’اجتماعی خودکشی‘ کا دہلا دینے والا واقعہ
- ثقلین امام
- بی بی سی اردو سروس
18 نومبر سنہ 1978 کو جنوبی امریکہ کے ملک گیانا میں 918 افراد کے قتل اور خودکشی کے المناک واقعے نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان میں سے 913 وہ تھے جنھوں نے مبینہ طور پر اپنے روحانی پیشوا جم جونز کے کہنے پر زہر ملا جوس پی کر خود کشی کی تھی یا انھیں زبردستی پلا کر ہلاک کیا گیا تھا۔
43 برس پہلے پیش آنے والے اس واقعے میں جو امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001 کو پیش آنے والے واقعے سے پہلے، کسی غیر قدرتی آفت میں شہریوں کی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد تھی۔ اس واقعے میں مبینہ طور پر 913 افراد نے خود کشی کی تھی جبکہ مبینہ طور پر ایک امریکی رکنِ کانگریس لیو ریان سمیت پانچ افراد کو جونز ٹاؤن سے واپسی پر قتل کردیا گیا تھا۔
ہلاکتیں
بی بی سی کی ایک ڈاکیومنٹری کے مطابق پانچ افراد جو قتلِ عام کے وقت وہاں موجود تھے، جونز ٹاؤن سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ قتل عام کے وقت جم جونز کے تین بیٹوں سمیت پیپلز ٹیمپل کے تقریباً 80 ارکان جونز ٹاؤن سے دور جنگل میں گئے ہوئے تھے اور وہ زندہ بچ گئے تھے۔
جم جونز کی بھی لاش مرنے والوں میں موجود تھی لیکن ان کے سر میں گولی لگی ہوئی تھی۔
جونز ٹاؤن میں ہلاک ہونے والوں میں 75 فیصد سیاہ فام افریقی نژاد امریکی تھے جبکہ 25 فیصد سفید فام امریکی تھے۔ سترہ برس سے کم عمر کے بچوں کی تعداد ایک چوتھائی یعنی تین سو سے زیادہ تھی۔
قتلِ عام کا یہ واقعہ جنوبی امریکہ کے ملک گیانا کے ایک دور دراز علاقے میں سنہ ستر کی دہائی میں آباد کردہ جونز ٹاؤن نامی گاؤں میں پیش آیا تھا۔ جونز ٹاؤن نامی یہ گاؤں یا ایک زرعی آباد کاری گیانا کے دارالحکومت جارج ٹاؤن سے تقریباً ڈیڑھ سو میل دور واقع تھا۔ اس میں ’پیپلز ٹیمپل‘ کے نام سے پہچانے جانے والے مسیحیوں کے ایک نئے فرقے کے پیروکاروں نے رہائش رکھی ہوئی تھی۔ اس فرقے کے رہنما جم جونز تھے۔
جِم جونز نے سان فرانسسکو میں پیپلز ٹیمپل نامی اس فرقے کی بنیاد رکھی تھی، جہاں سے وہ اپنے پیروکاروں کو جنوبی امریکہ کے اس دور دراز علاقے میں لے آئے تھے۔ پیپلز ٹیمپل کے پیروکاروں کی بھاری اکثریت غریب یا کم آمدن والے طبقوں سے تعلق رکھتی تھی۔
جِم جونز کا خیال تھا کہ ان کے پیروکار رضا کارانہ طور پر جونز ٹاؤن منتقل ہوئے تھے تاہم منتقل ہونے والے ان افراد کے رشتہ داروں کا دعویٰ تھا کہ انھیں وہاں زبردستی رکھا گیا تھا اور وہ وہاں سے واپس امریکہ آنا چاہتے تھے۔ اس دوران پیروکاروں کے منحرف ہونے کی خبریں سان فرانسسکو کے اخبارات میں تواتر سے شائع ہو رہی تھیں۔
ان خبروں کے پس منظر میں سان فرانسسکو کے ایک حلقے سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے ایک رکن لیو ریان سے ان کے ووٹروں نے مطالبہ کیا تھا کہ جونز ٹاؤن جا کر حالات کی تصدیق کریں۔ پیپلز ٹیمپل کے کئی پیروکاروں کا تعلق لیو ریان کے حلقے سے تھا اس لیے وہ اپنے ووٹروں کے مطالبے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتے تھے۔
جِم جونز اپنی بیگم کے ہمراہ
رکنِ کانگریس لیو ریان کا دورہ
لیو ریان پریس کی ایک ٹیم کے ساتھ 14 نومبر کو گیانا کے دارالحکومت جارج ٹاؤن پہنچے اور پھر تین دن کے بعد وہاں سے جونز ٹاؤن کے قریب ہوائی پٹی پورٹ کیٹوما پہنچے۔ 17 نومبر کو انھوں نے پیپلز ٹیمپل کے ارکان سے ملاقات کی۔
اگلے روز لیو ریان اور ان کی ٹیم جب دوبارہ جونز ٹاؤن گئی تو 14 افراد نے پیپلز ٹیمپل سے مبینہ طور پر منحرف ہو کر امریکہ واپس جانے کا اعلان کیا۔ یہ 14 افراد اور لیو ریان کی ٹیم ہوائی پٹی پورٹ کیٹوما پہنچی تاکہ اپنے ہوائی جہاز میں سوار ہو کر امریکہ روانہ ہو سکیں۔ وہیں اِن پر مسلح افراد نے گولیاں چلائیں۔
لیو ریان پر حملہ
مبینہ خودکشیوں یا قتل عام سے پہلے جونز ٹاؤن کے قریب ہوائی پٹی پورٹ کیٹوما کے حملے میں کُل ملا کر پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے، پانچ شدید زخمی ہوئے، پانچ کو نسبتاً معمولی زخم آئے اور چھ کے بارے میں خیال کیا گیا کہ انھوں نے دریائے کیٹوما کے کنارے گھنی جھاڑیوں میں چُھپ کر جان بچائی۔
انھیں بعد میں امریکی فوج نے وہاں سے بحفاظت باہر نکالا تھا۔
ہلاک ہونے والوں میں رکن کانگریس لیو ریان، سان فرانسسکو ایگزامینر کے فوٹوگرافر گریگ رابنسن، این بی سی سے تعلق رکھنے والے کیمرہ پرسن باب براؤن اور رپورٹر ڈان ہیرس، اور پیٹریشیا پارکس تھیں۔ پیٹریشیا کا تعلق پیپلز ٹیمپل سے تھا اور وہ ان 14 افراد میں شامل تھیں جو اس فرقے کو چھوڑ کر امریکہ واپس جانا چا رہے تھے۔
لیو ریان کے ساتھ ان کی سیکرٹری جیکی سپیئر اور این بی سی کے ساؤنڈ پرسن سٹیو سنگ شدید زخمیوں میں شامل تھے۔ لیو ریان کے ہمراہ آئے دیگر صحافیوں نے جنگل میں بھاگ کر جھاڑیوں میں پناہ لے کر اپنی جان بچائی تھی۔ سان فرانسسکو ایگزامینر کے رپورٹر ٹِم ریٹرمین اس حملے میں زخمی ہوئے تھے۔
ایف بی آئی کی رپورٹس کے مطابق کانگریس رکن لیو ریان پر حملہ جم جونز کے اہلکاروں نے کیا تھا جبکہ پیپلز ٹیمپل کے بچ جانے والے ارکان اور ’سازشی تھیوریاں‘ پیش کرنے والے اس الزام کو درست تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق لیو ریان اور ان کے چار ساتھیوں کی ہلاکتوں کے اس واقعے کے بعد جِم جونز نے مبینہ طور پر لوگوں کو خِودکشیاں کرنے پر مجبور کیا تھا۔
لیو ریان کا وہ طیارہ جس پر وہ جونز ٹاؤن پہنچے تھے
واقعات کی کڑیاں ملانے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ جم جونز نے اپنے پیروکاروں کو کہا تھا کہ یہ لوگ ’ہمیں عزت کی زندگی نہیں دیتے ہیں تو ہم عزت کے ساتھ مر تو سکتے ہیں۔‘ مختلف رپورٹس کے مطابق انھوں نے اپنے پیروکاروں کو کہا کہ وہ خود زہر پینے سے پہلے اسے اپنے بچوں کو جوس میں ملا کر پلائیں۔
کچھ رپورٹس میں یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس دوران چند پیروکاروں نے زہر والا جوس پینے سے انکار کیا تو انھیں یہ زہر زبردستی پلایا گیا تھا، جس کے لیے جِم جونز نے مسلح محافظ استعمال کیے تھے تاہم ان الزامات کی حتمی طور پر تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔
جو لوگ اس واقعے کے بعد سب سے پہلے جونز ٹاؤن پہنچے ان کی رپورٹس اور تصویروں کے مطابق جائے وقوعہ پر مرنے والوں کی لاشوں کو ایک ترتیب کے ساتھ لٹایا گیا تھا۔ سازشی تھیوریاں دینے والوں کے لیے لاشوں کی اس طرح ترتیب یہ اشارہ تھی کہ اِن ہلاکتوں کے پیچھے کوئی ’پراسراریت‘ تھی۔
میڈیا میں ردعمل
جونز ٹاؤن کے المیے کی خبر اگلے روز امریکہ کے اخبارات اور ٹیلی ویژن کی سب سے بڑی ہیڈلائن تھی۔ دنیا بھر کے میڈیا نے بھی اس مبینہ ’اجتماعی خودکشی‘ کے واقعے کو شائع کیا۔
اُس وقت اس واقعے کو ایک ’شخصیتی فرقے‘ (کلٹ) کے پیروکاروں کی ’اجتماعی خودکشی‘ کے طور پر بیان کیا جا رہا تھا تاہم 43 برس بعد اس المیے کو کئی اور زاویوں سے بھی دیکھا جاتا ہے۔
جونز ٹاؤن کا پس منظر
سان فرانسسکو کے پادری اور پیپلز ٹیمپل کے سربراہ، جِم جونز نے سنہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں جنوبی امریکہ کے ملک گیانا میں جونز ٹاؤن کی بنیاد رکھی تھی۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیوس کے سوشیالوجی کے پروفیسر اور ’گان فرام دی پرامِسڈ لینڈ: جونز ٹاؤن اِن امیریکن کلچرل ہِسٹری‘ کے مصنف جان آر ہال لکھتے ہیں کہ جِم جونز ایک ’سوشلسٹ جنت‘ تعمیر کرنا چاہتے تھے۔
’وہ سوشلسٹ، نسلی برابری، غریبوں کے حامی انقلابی نظریات کی وجہ سے امریکہ کی ایف بی آئی اور دائیں بازو کے طبقوں کی نظر میں آگئے تھے جو ان پر شدید تنقید کرتے تھے۔ لہٰذا جِم جونز نے امریکی حکام اور میڈیا کی پہنچ سے باہر گیانا میں اپنا مثالی معاشرہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
محققین کے مطابق جِم جونز سان فرانسسکو میں کوئی ایک عام پادری نہیں تھے۔ اس وقت کے بہت سے پادریوں کے برعکس، وہ کیلیفورنیا کی اہم شخصیات کے حلقے میں شامل ہو چکے تھے۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی اہلیہ روزیلین کارٹر بھی جِم جونز سے ملاقات کرنے گئی تھیں۔
سان فرانسسکو کے میئر جارج موسکون نے انھیں ہاؤسنگ اتھارٹی کا چیئرمین مقرر کیا تھا اور یہاں تک کہ گورنر کی طرف سے انھیں ایک عشائیے میں ایک تعریفی اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ سان فرانسسکو کے میئر موسکون کو جونز ٹاؤن کے قتلِ عام کے چند دن بعد ایک سفید فام نسل پرست نے قتل کر دیا گیا۔
کیلیفورنیا ہِسٹوریکل سوسائٹی
جِم جونز اور پیپلز ٹیمپل سے متعلقہ معلومات اور دستاویزات کیلیفورنا کی عدالت کے حکم کے تحت کیلیفورنیا ہِسٹوریکل سوسائٹی میں جمع کر کے محفوظ کی گئی ہیں۔ اس سوسائٹی کے پاس تمام دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ اس واقعے کے کئی مناظر کو وہاں موجود کیمرہ مین نے کافی حد تک ریکارڈ بھی کیا تھا۔
اب یہ ٹیپیں اور دیگر دستاویزات کیلیفورنیا ہِسٹوریکل سوسائٹی کے پاس محفوظ ہیں اور تحقیق کے لیے دستیاب ہیں۔ پیپلز ٹیمپل کے بارے میں بہت ساری دستاویزات ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر موجود ہیں اور کئی دستاویزات تاحال کلاسیفائیڈ یعنی سرکاری طور پر خفیہ ہیں۔
جم جونز کا تعارف
کیلیفورنیا ہِسٹوریکل سوسائٹی کی ویب سائٹ کے مطابق جم جونز جن کا پورا نام جیمز وارن جونز تھا، 13 مئی سنہ 1931 میں امریکی ریاست انڈیانا کے شہر کریٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ امریکی فرقے کے رہنما نے خود کو سان فرانسسکو میں اپنے گروپ پیپلز ٹیمپل کا مسیحا قرار دیا تھا۔
جم جونز اپنے بچپن میں باقاعدہ چرچ جاتے تھے۔ انڈیانا ریاست کے شہر انڈیاناپلِس کی بٹلر یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد انھوں نے پادری بننے کا فیصلہ کیا تھا۔
انڈیانا ریاست کے شہر انڈیاناپلِس میں سنہ 1950 اور سنہ 1960 کی دہائیوں میں جِم جونز نے چرچ کے ایک کرشماتی مقرر کے طور پر شہرت حاصل کی۔ ان کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ نفسیاتی اور روحانی طاقتیں رکھتے ہیں جس سے وہ پیشگوئی اور بیماروں کو شفا بخش سکتے تھے۔
سنہ 1955 میں انھوں نے انڈیاناپلِس میں ’ونگز آف ڈیلیورنس‘ قائم کیا جو کہ ایک ’پینٹی کوسٹل چرچ‘ تھا اور بالآخر یہ ’پیپلز ٹیمپل‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
تبلیغی سلسلہ
سنہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں انھوں نے انڈیاناپلِس کے انسانی حقوق کمیشن کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ جوہری جنگ کے خوف سے جونز نے اپنے چرچ کو سنہ 1965 میں شمالی کیلیفورنیا منتقل کر دیا۔ وہ پہلے یوکیہ کے قریب اور پھر 1971 میں سان فرانسسکو میں آباد ہوئے۔
کیلیفورنیا ہِسٹوریکل سوسائٹی کے مطابق سنہ 1970 میں اپنے پیروکاروں کی تعداد بڑھانے کے لیے جم جونز نے کیلیفورنیا کے بہت سے شہروں میں تبلیغی دورے کیے۔ سان فرانسسکو اور لاس اینجلس کے افریقی امریکی کمیونٹیز میں ان کے تبلیغ کی وجہ سے چند برسوں میں ان کے پیروکاروں کی تعداد 2500 سے زیادہ ہو گئی۔
جونز ٹاؤن میں ہلاک ہونے والوں کے پاسپورٹ
سنہ 1976 تک، جیسے جیسے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا، پیپلز ٹیمپل نے باضابطہ طور پر اپنا ہیڈ کوارٹر ریڈ ووڈ ویلی سے سان فرانسسکو منتقل کر دیا۔ مقامی سیاست میں جم جونز کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ ان کی سماجی سرگرمی کی حمایت میں اخبارات کو خطوط بھی لکھے گئے۔
سنہ 1976 میں ہی میئر جارج موسکون نے انھیں سان فرانسسکو ہاؤسنگ اتھارٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ پیپلز ٹیمپل نے اپنا اخبار، پیپلز فورم شائع کرنا شروع کیا اور اپنا ایک ریڈیو شو بھی شروع کیا۔ معروف سیاستدانوں اور کارکنوں سمیت ہزاروں لوگوں نے پیپلز ٹیمپل میں عبادت کے لیے شرکت کرنا شروع کر دی۔
گیانا کی جانب منتقلی
اسی دوران سنہ 1973 کے آخر تک پیپلز ٹیمپل کی قیادت نے گیانا میں ایک گاؤں آباد کرنے کے حق میں فیصلہ کیا۔ اگلے دو برسوں میں اراکین نے ایک مقام کی تلاش کے لیے گیانا کا سفر کیا اور جگہ کے انتخاب کے بعد، عمارتوں کی تعمیر اور فصلیں اگانے کے لیے زمین کو صاف کیا گیا۔
25 فروری سنہ 1976 کو گیانا کے کمشنر آف لینڈز اینڈ سروے نے پیپلز ٹیمپل کو ملک کے شمال مغربی علاقے میں 3,852 ایکڑ اراضی کے استعمال کی اجازت دیتے ہوئے ایک لیز پر دستخط کیے۔ زمین کا ابتدائی کرایہ 25 سینٹ فی ایکڑ مقرر کیا گیا تھا۔
اس گاؤں جسے جونز ٹاؤن کا نام دیا گیا، میں اس فرقے کا بڑا سا کمیونٹی کا اجتماعی باورچی خانہ، طبی سہولیات، ایک سکول، ہاسٹل کی طرز کی رہائش، ایک ڈے کیئر سینٹر اور ایک بڑا سا کھلا میدان تعمیر کیا گیا تھا جو کمیونٹی کے جلسوں کی مرکزی جگہ بن گیا۔
پیپلز ٹیمپل نے تیزی سے جونز ٹاؤن کو بیرونی دنیا میں ایک بہترین مثالی کمیونٹی کے طور پر شہرت دینے کی کوششیں کی تاکہ اس فرقے کے ارکان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کیا جا سکے اور امریکی معاشرے کے کمزور طبقات کو اس گاؤں کی طرف ہجرت کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے
پیپلز ٹیمپل کی مخالفت
لیکن سنہ 1977 میں پیپلز ٹیمپل کے ارکان بننے والوں کے رشتہ داروں اور اس کے سابق ممبران نے ’کنسرنڈ ریلیٹیوز‘ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا تاکہ ان الزامات کی طرف توجہ مبذول کرائی جا سکے کہ جونز ٹاؤن میں جِم جونز اپنے پیروکاروں کو ان کی مرضی کے خلاف زبردستی روک رہے ہیں اور انھیں اپنے خاندانوں سے جدا کر رہے ہیں۔
فریقوں نے قانونی چارہ جوئی کی، میڈیا کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کی اور حکومتی اہلکاروں سے تحفظ کی اپیل کی۔ میڈیا کوریج نے پیپلز ٹیمپل کے سابق ارکان کے خلاف مبینہ دہشت گردی اور انتقامی کارروائیوں کے ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا۔
پیپلز ٹیمپل نے اپنے ناقدین پر جوابی حملہ بھی کیا، چرچ کی حمایت کرنے والے مقامی حکام کو اور اخبارات کے ایڈیٹرز کو سینکڑوں خطوط بھیجے جن میں جِم جونز اور پیپلز ٹیمپل کی مثبت سرگرمیوں کو اجاگر کیا گیا تھا۔
جِم جونز کی جونز ٹاؤن روانگی
اگست سنہ 1977 میں جب جم جونز کو معلوم ہوا کہ نیو ویسٹ میگزین کے مارشل کِلڈف اور فل ٹریسی ’ان سائیڈ پیپلز ٹیمپل‘ کے عنوان سے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کرنے والے ہیں تو وہ بھی جونز ٹاؤن منتقل ہو گئے۔ پیروکاروں کو بتدریج گیانا منتقل کرنے کے منصوبے تیار کیے گئے تاہم اس مضمون اور دیگر اخباری رپورٹس نے جونز کو اس عمل کو تیز کرنے پر مجبور کیا۔
اُس برس موسم گرما میں سینکڑوں لوگ جونز ٹاؤن ایک ساتھ پہنچے۔ اگلے برس کے دوران مزید تحقیقاتی رپورٹنگ نے جونز اور ٹیمپل کے بارے میں مزید شکوک و شبہات کو جنم دیا۔
جونز ٹاؤن میں زیادتیوں کے الزامات
سان میٹیو کاؤنٹی کے رکنِ کانگریس لیو ریان نے ’کنسرنڈ ریلیٹوز‘ اور دیگر حلقوں کی رپورٹس کے مطالبات پر عمل کرتے ہوئے اور جونز ٹاؤن سے فرار ہونے والے ایک سابق رکن کا انٹرویو شائع ہونے کے بعد، حقائق تلاش کرنے کے لیے جونز ٹاؤن جانے کے مشن کا اہتمام کیا۔
14 نومبر سنہ 1978 کو وہ صحافیوں، نیوز فوٹو گرافروں، اپنے وکیل جیکی سپیئر اور پیپلز ٹیمپل کے ارکان کے رشتہ داروں کے گروپ ’کنسرنڈ ریلیٹوز‘ کے ساتھ گیانا پہنچے۔ 17 نومبر کو انھوں نے جونز ٹاؤن کا دورہ کیا اور بظاہر وہ وہاں کے حالات سے مطمئن تھے۔ شام کو وہ پورٹ کیٹوما کی ہوائی پٹی پر قیام کے لیے واپس آ گئے۔
اگلے دن لیو ریان اور ان کے ساتھ آئے ہوئے صحافیوں نے جونز ٹاؤن کا دوبارہ دورہ کیا اور پیپلز ٹیمپل کے کچھ ارکان کے انٹرویو کیے۔ اُس وقت چند ایسے ارکان بھی سامنے آگئے جو واپس جانا چاہتے تھے۔ ان میں سے کچھ ریان کے گروپ کے پاس آئے اور ان کے ساتھ امریکہ واپس جانے کو کہا۔
کہا جاتا ہے کہ پیپلز ٹیمپل کے ارکان کا یہ ’انحراف‘ اس وقت کے واقعات کے سلسلے کا صرف ایک حصہ تھا جس کے نتیجے میں جونز ٹاؤن، پورٹ کیٹوما ہوائی اڈے اور جارج ٹاؤن میں ہلاکتیں ہوئیں۔
جونز ٹاؤن کا اثر
ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے وی ایس نائپال کے بھائی شیوا نائپال، جو خود بھی ایک ناولسٹ تھے، نے بعد میں جونز ٹاؤن کا دورہ کیا تھا۔
وہ اس ہولناک واقعے کا تصور کرتے ہوئے اس سے بہت متاثر ہوئے اور ایک ناول ’این ان فینیشڈ جرنی‘ لکھا۔
سازشی تھیوریوں کی گنجائش کیوں پیدا ہوئی؟
جونز ٹاؤن کے بارے میں بعد میں بننے والی سازشی تھیوریوں پر سان ڈیاگو سٹیٹ یونیورسٹی کی مذہبی امور کے پروفیسر ریبیکا مُور نے کافی کام کیا، دوسروں کا کام جمع بھی کیا جسے ایک پورٹل پر شائع کیا گیا۔ ان کے کچھ اپنے رشتہ دار بھی پیپلز ٹیمپل کے ارکان تھے لیکن ان کی تحقیق کو ان کے ناقدین نے بھی قابلِ بھروسہ کہا۔
ان کے مطابق جونز ٹاؤن کا اپنا ایک تاریک اسرار ہے جو ہمیں اپنے آپ سے دور کرتا ہے اور ہماری سوچ کو الجھاتا ہے۔ اس سب کے باوجود، اس کہانی میں جنگل میں ہونے والی اجتماعی اموات کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔
بہت ساری افواہوں نے جنم لیا یا گمراہ کن نتائج اخد کیے گئے جن سے اس واقعے کے بارے میں اور بھی کئی سوالات پیدا ہوئے جن کے جواب نہیں دیے گئے۔ اس وجہ سے بہت سی ’سازشی تھیوریوں‘ کے پیدا ہونے کے لیے سازگار حالات بنے۔
پروفیسر مور کہتی ہیں کہ ’ہم بیک وقت واقعے کی وضاحت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر اُس بات کو جنونیت سمجھ کر مسترد کرتے ہیں جسے ہم سمجھ نہیں پاتے اور اس طرح ہم اس واقعے کو محفوظ طریقے سے اپنے تجربے سے باہر رکھتے ہیں تاکہ ہمارے لیے اسے نظر انداز کرنا آسان ہو۔‘
پروفیسر مور کہتی ہیں کہ ’سنہ 1979 میں ہونے والے واقعات کی خبروں نے یقیناً جونز ٹاؤن کے قتل عام کے واقعات کی خبروں کو مرکزِ توجہ نہ رہنے دیا ہو کیونکہ اسی سال پاکستان میں امریکی سفارت خانوں پر حملے کر کے انھیں جلا دیا گیا تھا اور ایران میں مکمل طور پر سفارت خانے پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔‘
ریبیکا مور کہتی ہیں کہ سرکاری کہانی میں یقیناً خامیاں، جھول اور مسائل ہیں جن کی وجہ سے جونز ٹاؤن کے واقعے کے بارے میں سازشی نظریات کامیابی کے مختلف درجات کے ساتھ مقبول ہو گئے ہیں۔
ان کے مطابق بہت سی معلومات کی درجہ بندی کی گئی اور یہ شبہ کہ اِن ہلاکتوں میں امریکی حکومت کے کسی نہ کسی طریقے سے قصور وار ہونے کا ثبوت ملتا ہے، بھی سازش کی آگ کو ہوا دیتا ہے۔
Comments are closed.