ڈونلڈ ٹرمپ ملکی تاریخ کے دوسرے صدر ہیں جنھیں دو مختلف اوقات میں دو بار صدر منتخب کیا گیا ہے۔ ان سے پہلے گروور کلیولینڈ نے 1885 سے 1889 تک یہ عہدہ سنبھالا تھا جس کے بعد کلیولینڈ کی دوسری مدت 1893 سے لے کر 1897 کے درمیان تھی۔تاہم ٹرمپ کا دوسرا صدارتی دور کیسا ہو گا؟ ان کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی اور وہ کون سے ادھورے منصوبے ہیں جن کو وہ مکمل کرنا چاہیں گے؟ ساتھ ہی ساتھ اہم سوال یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کے بارے میں خدشات کیا اور کیوں ہیں؟
ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کیا ہو سکتی ہے؟
امکانات ہیں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت ان کی پہلی مدت سے مشابہت رکھے گی۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کو دنیا کے تنازعات سے دور رکھا جائے۔انھوں نے کہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ مذاکرات یا معاہدوں کے ذریعے ’گھنٹوں کے اندر‘ یوکرین جنگ ختم کر دیں گے۔ تاہم یہ اقدام ڈیموکریٹس کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوتن کی حوصلہ افزائی کرے گا۔دوسری جانب ٹرمپ نے خود کو اسرائیل کا حامی قرار دیا ہے اور انھوں نے اس بارے میں بہت کم بیانات دیے ہیں کہ وہ غزہ اور لبنان میں جاری جنگ کیسے ختم کریں گے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesتنازعات کے ایک تجربہ کار ثالث مارٹن گریفتھس کا کہنا ہے کہ میں ٹرمپ کی صدارت میں ’امریکہ فرسٹ‘ کی پالیسی دیکھ رہا ہوں جو عالمی عدم استحکام کو مزید گہرا کر دے گی۔ کچھ عرصے پہلے تک مارٹن گریفتھس اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل فار ہیومینیٹیریئن افیئرز اینڈ ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔نیٹو کے سابق اہلکار جیمی شے کے خیال میں صدر ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں خارجہ پالیسی بظاہر اتارچڑھاؤ کا شکار رہی لیکن اگر غور کیا جائے تو ان پالیسیوں میں ’کافی تسلسل موجود تھا۔‘’صدر ٹرمپ نیٹو سے دستبردار نہیں ہوئے، انھوں نے امریکی فوجیوں کو یورپ سے نہیں نکالا اور وہ یوکرین کو جدید ہتھیار دینے والے پہلے امریکی صدر تھے۔‘
ایک اور تجارتی جنگ؟
ٹرمپ تیل کے لیے مزید کھدائی بھی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ تیل کی زیادہ قیمت نے افراطِ زر میں اضافہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے توانائی کی لاگت کم ہو جائے گی جبکہ تجزیہ کاروں کے خیال میں ایسا ہونا مشکل ہے۔ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ زیادہ تر غیر ملکی اشیا پر 10 فیصد سے 20 فیصد تک ٹیرف لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ چین سے درآمدات پر ٹیرف میں 60 فیصد تک اضافہ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ بہت سے ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے ایک بڑی تعداد میں امریکی صارفین متاثر ہوں گے جنھیں مہنگی قیمتوں میں اشیا کی خریداری کرنی پڑے گی۔اپنی پہلی صدارتی مدت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر غیر منصفانہ تجارتی طریقوں اورانٹیلیکچوئل پراپرٹی کی چوری کا (intellectual property theft) کا الزام لگاتے ہوئے بیجنگ کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کر دی تھی۔
تاہم امریکی کانگریس میں رپبلکن اور ڈیموکریٹ قانون سازوں کی تعداد بلاشبہ اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا ٹرمپ اپنی پالیسیوں کو اس طریقے سے نافذ کر سکیں گے جس طرح وہ چاہتے ہیں یا نہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ 2017-2019 میں سینیٹ اور ایوان نمائندگان دونوں پر ریپبلکنز کا کنٹرول تھا۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت تجربے میں کمی کے باعث انھیں کانگریس میں ریپبلکنز کی اکثریت ہونے کے باوجود اپنی پالیسیاں منوانے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔چونکہ ریپبلکنز نے انتخابات میں سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے ایوانوں کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے، اس لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ممکنہ طور پر ایسی قانون سازی کرے گی جس میں دیگر شعبوں کے علاوہ سرحد، سکیورٹی، سرحدی دیوار کی تکمیل اور ٹیکس مراعات کے لیے فنڈنگ بھی شامل ہے۔
غیرقانونی تارکین وطن کی جلاوطنی
ان کا ایک نامکمل منصوبہ امریکہ کی جنوبی سرحد کو سیل کرنا اور یہاں ایک سرحدی دیوار تعمیر کرنا ہے۔ یہ منصوبہ ان کے منشور کا ایک اہم حصّہ تھا۔ اس دیوار کی تعمیر کی فنڈنگ کے لیے انھیں کانگریس سے منظوری حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ان سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے اس منصوبے کے لیے فنڈنگ اور کانگریس سے منظوری حاصل کرنے کے لیے اپنی مہم جاری رکھیں گے۔،تصویر کا ذریعہReuters
اسقاط حمل پر پابندیاں
اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے تین ججوں کی تقرری کی نگرانی کی تھی جنھوں نے اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کر دیا تھا۔ یہ آئینی حق 1973 میں ملک کے ایک تاریخی کیس ’رو ورسز ویڈ‘ (Roe v Wade) میں محفوظ کیا گیا تھا۔آئینی حق ختم ہونے کے بعد ریاستیں انفرادی طور پر فیصلہ کر سکتی ہیں کہ آیا انھیں اپنی ریاست میں اسقاط عمل پر پابندی لگانی ہے یا نہیں۔اس حوالے سے صدر ٹرمپ کا اپنی دوسرے صدارتی دور میں کیا لائحہ عمل ہو گا، یہ کسی کو معلوم نہیں۔تاہم ستمبر میں اپنی صدارتی مہم کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ وہ وفاقی سطح پر اسقاط حمل پر پابندی عائد نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا ’اس طرح کی پابندی پر دستخط کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوںکہ ہم نے وہ کر دیا ہے جو سب کی خواہش تھی۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.