گھر بار چھوڑ کر کشتیوں پر ’سست زندگی‘ اپنانے والے لوگ: ’کار میں 10 منٹ کا سفر ہم دو ہفتوں میں طے کرتے ہیں‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنان کشتیوں کو چلانے کے لیے کسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے

  • مصنف, سٹیسی لیاسکا
  • عہدہ, بی بی سی
  • 39 منٹ قبل

چار میل فی گھنٹہ۔ جو کاروانا کے لیے یہ زندگی کی بہترین رفتار ہے۔ اور ایک طرح سے یہ اچھی بات بھی ہے کیونکہ ان کی تنگ سی کشتی اتنا ہی تیز سفر کر سکتی ہے۔کاروانا برطانیہ میں دریاؤں اور نہروں کے لیے بنائی گئی 35,000 کشتیوں میں سے ایک کی مالک ہیں۔ وہ ہر سال کچھ عرصہ اس کشتی پر گزارتی ہیں۔زندگی گزارنے کا یہ طریقہ کورونا وبا کے بعد اس وقت تیزی سے مقبول ہوا جب لوگوں میں سماجی فاصلے برقرار رکھتے ہوئے گھومنے پھرنے کی خواہشات پیدا ہوئیں۔ اب سوشل میڈیا پر بھی اس طرزِ زندگی کی مقبولیت میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر ہیش ٹیگ #narrowboat ڈھائی لاکھ تک پہنچ چکا ہے جبکہ اس سے متعلق ایک دوسرے ہیش ٹیگ #narrowboatlife ایک لاکھ 34,000 سے زائد مرتبہ استعمال ہو چکا ہے۔

اپریل میں ان تنگ کشتیوں پر سفر کا مصروف سیزن شروع ہوتا ہے اور یہ ان مسافروں کے لیے بہترین وقت ہے جو اس طرزِ زندگی کو آزمانے کے شوقین ہیں۔چونکہ ان 35,000 کشتیوں میں سے نصف سے بھی کم، ان کے مالکان کے زیرِ استعمال ہوتی ہیں، اس لیے عام لوگوں کے لیے چھٹیوں کے دوران کرایے پر کافی کشتیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ کاروانا کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ان کشتیوں پر چھٹیاں گزارنے سے پہلے کچھ چیزیں سمجھنے کی ضرورت ہے جن میں سرِفہرست اس طرزِ زندگی کی سست رفتاری۔ کاروانا کہتی ہیں کہ ’ہم نے سوچا کہ کشتی ملک میں سیر کرتے ہوئے ماحول دوست زندگی گزارنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔‘ ان اصل کا مقصد ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں وہ رہنا چاہیں۔ ’ہم نے یہ 18 ماہ تک کیا۔ لیکن ہم پھر بھی وہ سب نہیں کر پائے جو ہم چاہتے تھے۔‘پھر بھی، کاروانا کے مطابق وہ برطانیہ کے ’سب سے خوبصورت گاؤں‘ پہنچ گئیں۔ گریٹ بیڈوین 1500 سے کم نفوس پر مشتمل ایک کمیونٹی ہے۔ لندن سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر واقع یہ گاؤں شہر کی ہلچل سے دور ایک الگ دنیا ہے۔’یہ زندگی گزارنے کا ایک شاندار طریقہ ہے۔‘ ان کا خیال ہے کہ وہ اس جگہ کو شاید ڈھونڈ نہ پاتیں اگر ان کے پاس ان کی کشتی نہ ہوتی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناپریل میں ان تنگ کشتیوں پر سفر کا مصروف سیزن شروع ہوتا ہے
کاروانا پانی پر گزرتی اپنی اس طرزِ زندگی سے بہت خوش ہیں اور اپنے تجربات کو شاعرانہ انداز میں بیان کرتی ہیں۔ لیکن، وہ جانتی ہیں کہ یہ طرزِ زندگی ہر کسی کے لیے نہیں۔کاروانا کہتی ہیں کہ ان کو اس بات کی عادت ڈالنی پڑی کہ یہ نقل و حمل کا ایک طریقہ نہیں ہے۔ ’ایک ایسا سفر جو آپ کار میں 10 منٹ میں طے کر سکتے ہیں اس سفر میں آپ کو اس کشتی پر دو ہفتے لگ جاتے ہیں۔ یہ ایک طرز زندگی ہے اور میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔‘کاروانا کہتی ہیں کہ کشتی پر رہنے سے ان کو سکون کا ایک نیا احساس اور استقامت کا سبق ملا ہے۔’اس [طرزِ زندگی] نے مجھے صبر کرنا سکھایا ہے۔ اس نے مجھے فطرت کے بارے میں سب کچھ سکھایا ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ کشتی پر رہنے سے ان کا قدرت پر دارومدار بہت بڑھ گیا ہے کیونکہ اس تنگ کشتی کے آلات بشمول اس کے انجن سب شمسی توانائی سے چلتے ہیں۔ ’اگر سورج نہ نکلے تو مجھے چائے کا کپ نہیں ملتا۔ اگر آپ کہیں جانا چاہتے ہیں تو یہ بہت مشکل کام ہے۔ ہر چیز کا کام کرنا ضروری ہے۔‘کاروانا کے پاس ان سیاحوں کے لیے اچھی خبر ہے جو ایسی کسی کشتی کے سفر پر نکلنا چاہتے ہیں۔ ان کا مطابق سے انھیں ان کشتیوں کو چلانے کے لیے کسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنی کشتی خریدنے سے پہلے کشتی کبھی نہیں چلائی تھی۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ اور کمپنیاں ہفتے، مہینے یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے کشتیاں کرایہ پر دیتی ہیں۔ وارکشائر میں کیٹ بوٹس بھی ایسی کمپنیوں میں سے ایک ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنتنگ کنالوں میں کشتی رانی ان لوگوں کے لیے مثالی ہے جو سادہ زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں
شیریل ہاؤز تقریباً 25 سالوں سے کیٹ بوٹس چلا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’آپ کو کشتی چلانے کے لیے سرٹیفیکیشن یا اس طرح کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔‘’لیکن کسی ایسے فرد کے لیے جو پہلے کبھی کشتی پر نہیں گئے ہیں، ہم انھیں ہر چیز دکھانے میں کافی وقت لگاتے ہیں کہ کشتی پر سب کچھ کیسے کام کرتا ہے۔‘ کشتی چلانے سے لے کر اس کو لنگر انداز کرنے تک ہر چیز سکھائی جاتی ہے تاکہ آنے والے کسی مشکلات کا شکار ن ہوں۔وہ کہتی ہیں کہ لوگ ہمیشہ اس بارے میں فکر مند رہتے ہیں کہ وہ کیسے ہر چیز سے نمٹیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی کچھ گھنٹے مشکل ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد آپ عادی ہو جاتے ہیں۔ اور پھر آپ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔بوٹنگ کے اس طریقے میں آپ خود اپنی مہم جوئی کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہاؤز کہتی ہیں کہ ان کی کمپنی عام طور پر مہمانوں کو مختلف راستوں کے بارے میں معلومات فراہم تو کرتی ہیں، لیکن یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ کس سمت میں جانا چاہتے ہیں۔ ہاؤز خود ’تھیمز رنگ‘ کا سفر مکمل کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سفر میں تقریباً چار ہفتے لگتے ہیں۔ یہ لندن کے مشہور دریائے تھیمز کو آکسفورڈ کینال اور گرینڈ یونین کینال سے 245 میل کے آبی گزرگاہوں کے ذریعے جوڑتا ہے۔اس سفر کے اہم پرکشش مقامات میں ونڈسر قلعہ، رائل بوٹینیکل گارڈنز، کیو، اور انگلینڈ کی سب سے طویل بحری سرنگوں میں سے ایک بلیس ورتھ ٹنل شامل ہے۔آپ اپنی تنگ کشتی کو اس راستے میں بلکہ پورے برطانیہ میں کہیں بھی روک سکتے ہیں۔ تاہم، اگر آپ 14 دن سے زیادہ کسی ایک جگہ پر رکنا چاہتے ہیں، تو آپ کو اس کی فیس ادا کرنی پڑے گی۔ہاؤزکا کہنا ہے کہ اپریل سے اکتوبر کے درمیان ان تنگ کنالوں میں کشتی رانی کا موسم کافی مصروف ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی مہم جوئی پر نہیں جا پاتیں کیونکہ اس دوران وہ پہلی بار آنے والے گاہکوں کی مدد کرنے میں مصروف ہوتی ہیں۔وہ سیاحوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ ان کو سیزن کے علاوہ بھی دیگر اوقات میں یہ سفر کرنا چاہئے کیونکہ ’سردیوں میں بھی یہ جگہیں بہت اچھی دکھتی ہیں۔‘ہاؤز اور کاروانا دونوں متفق ہیں کہ تنگ کنالوں میں کشتی رانی ان لوگوں کے لیے مثالی ہے جو سادہ زندگی کے خواہاں ہیں۔ آپ کو بہتے پانی میں کشتی کے اوپر بیٹھ کر فطرت کے نظاروں میں ڈوبنے کا موقع ملتا ہے۔ کاروانا کے پاس ایک اور اہم مشورہ ہے: ’اس بات کو یقینی بنائیں کہ جس کے ساتھ آپ اس سفر پر جارہے ہیں، آپ ان کو واقعی پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ بہت چھوٹی جگہ ہوتی ہے۔‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’خوش قسمتی سے میری اپنے شوہر بہت بنتی ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}