گولڈن ویزا سکیم پر تنازع کیا ہے اور آسٹریلیا نے گولڈن ویزا بند کر کے ’سکلڈ ورکر ویزا‘ کا اجرا کیوں کیا؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, تنیشا چوہان
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

بہت سے ممالک جب اپنے گولڈن ویزے کے حصول کے لیے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں آسٹریلیا کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ گولڈن ویزے کا اجرا بند کر رہی ہے۔آسٹریلین حکومت کا کہنا ہے کہ گولڈن ویزا جو کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے جاری کیا گیا تھا اس سے ملک کو کوئی اقتصادی فائدہ نہیں پہنچایا۔سنہ2021 میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے بالی وڈ اداکار سنجے دت کو جب گولڈن ویزا جاری کیا گيا تھا تو وہ متنازع ہو گيا تھا لیکن گذشتہ سال پاکستانی اداکارہ صبا قمر نے انسٹاگرام پر یو اے ای کا اس وقت شکریہ ادا کیا جب انھیں گولڈن ویزا ملا۔بہر حال یہ گولڈن ویزا کیا ہے جس کی چاہت دنیا بھر کے ترقی پزیر ممالک میں زیادہ پائی جاتی ہے اور اس ویزے کے لیے لوگ دوسرے ممالک میں کروڑوں کی سرمایہ کاری کیوں کرنے کو تیار ہیں۔

لیکن اب اس قسم کے ویزے ختم کیے جا رہے ہیں اور اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ہم یہاں یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہSABA QAMAR/INSTAGRAM

،تصویر کا کیپشنپاکستانی اداکارہ صبا قمر

آسٹریلیا کا گولڈن ویزا کی جگہ ’سکلڈ (ہنرمند) ورکر ویزا‘

سڈنی میں مقیم بی بی سی کی صحافی حنا رچی کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کی جانب سے غیر ملکی تاجروں کے لیے ویزا پالیسی کا آغاز کیا گیا تھا۔ لیکن چونکہ فوائد اچھے نہیں آئے اس لیے امیگریشن پالیسی میں ترامیم کے بعد اسے منسوخ کر دیا گیا۔پہلے ہی گولڈن ویزا کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا استعمال بدعنوان اور سود پر رقم دینے والے لوگ کر رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق اس منسوخی کے ساتھ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اس کی جگہ ’سکلڈ ورکر ویزا‘ (ہنرمند افراد کے لیے ویزا) حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آسٹریلیا کے گولڈن ویزے کے حصول کے لیے کسی غیر ملکی سرمایہ کار کو کم از کم 3.3 ملین ڈالر جو کہ تقریباً 27 کروڑ 44 لاکھ انڈین اور 50 کروڑ سے زیادہ پاکستانی روپے کے برابر ہے کی سرمایہ کاری درکار تھی۔کئی تحقیقات کے بعد آسٹریلین حکومت نے محسوس کیا کہ یہ پالیسی اپنا مقصد حاصل نہیں کر پا رہی ہے۔حکومت نے کہا کہ ان ویزوں کو ختم کرنے سے وہ ایسے باصلاحیت افراد کے لیے ویزے لائیں گے جو ان کے ملک میں آکر آسٹریلیا کی معیشت میں بہتر کردار ادا کریں گے۔آسٹریلیا کے وزیر داخلہ کلیئر اونیل کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ واضح ہے کہ یہ ویزا ہماری اقتصادی توقعات اور ضروریات کو پورا نہیں کر رہا تھا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

گولڈن ویزا کیا ہے؟

یہ ویزے متعلقہ ملک کی حکومت جاری کرتی ہے اور اس کے تحت کسی دوسرے ملک کے سرمایہ کار ویزا جاری کرنے والے ملک کی شہریت حاصل کرنے کے لیے وہاں بڑی رقم لگاتے ہیں۔اس کا مقصد ملکی معیشت کو مضبوط کرنا ہے۔ یہ ویزا جاری کرنے کے لیے ہر ملک کے اپنے اپنے قوانین ہیں۔ویب سائٹ ’انوسٹوپیڈیا‘ کے مطابق گولڈن ویزا ایک قسم کی سرمایہ کاری کی سکیم ہے جو ایک سرمایہ کار کو کسی ملک میں بڑی سرمایہ کاری کرنے اور اپنے خاندان کے ساتھ شہریت یا مستقل رہائش حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے۔گولڈن ویزا کے تحت شہریوں کو مختلف فوائد دیے جاتے ہیں۔ انھیں ایک خاص مدت کے لیے ٹیکس میں زبردست چھوٹ دی جاتی ہے۔ تاہم ہر ملک میں سرمایہ کاری کے خصوصی اصول و ضوابط اور سہولیات ہیں۔گولڈن ویزا کے تحت مختلف ’سرمایہ کاری سکیمیں‘ آتی ہیں جن کے لیے کسی کو مخصوص رقم لگانی پڑتی ہے۔ہینلے اینڈ پارٹنرز کے مطابق گولڈن ویزا سکیم کے تحت ویزا حاصل کرنے میں عام طور پر کم از کم 12 ماہ لگتے ہیں۔یو اے ای کے قواعد کے مطابق درحقیقت گولڈن ویزا ایک دس سالہ رہائشی کارڈ ہے اور اس کے اجرا کے موقع پر نائب صدر نے کہا تھا کہ ’ہم نے سرمایہ کاروں، انتہائی قابل ڈاکٹروں، انجینیئروں، سائنسدانوں اور فنکاروں کو مستقل رہائش دینے کے لیے گولڈن کارڈ سکیم لانچ کی ہے۔‘،تصویر کا ذریعہSANJAY DUTT/TWITTER

،تصویر کا کیپشنانڈین ادکار سنجے دت

گولڈن ویزا رکھنے والوں کو کیا سہولیات میسر ہیں؟

گولڈن ویزہ کے حامل افراد کو شہریت یا مستقل رہائش کے ساتھ اپنے خاندان کے ساتھ اس ملک میں رہنے اور کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔بعض حالات میں، کوئی شخص اس ملک کی مستقل شہریت بھی حاصل کر سکتا ہے۔ پہلے اس کے لیے سپانسر کی ضرورت ہوتی تھی۔ گولڈن ویزا کے حامل افراد کچھ شرائط کے ساتھ اپنے بچوں کو سپانسر بھی کر سکتے ہیں۔کسی ملک کا گولڈن ویزا حاصل کرنے کے بعد وہ فرد اس ملک کے کسی بھی حصے میں آزادانہ طور پر سفر کر سکتا ہے۔ کچھ یورپی ممالک گولڈن ویزا رکھنے والوں کو یورپی یونین کے اندر کہیں بھی سفر کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔گولڈن ویزا والوں کے لیے ملک کے تعلیمی ادارے اور صحت کی دیکھ بھال کے مراکز کے دروازے بھی کھلے ہیں۔ بہت سے ممالک میں کوئی بھی اس ملک کے مقامی تعلیمی نظام اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔اس کے علاوہ ٹیکس میں مراعت ملتی ہے۔ بہت سے ممالک گولڈن ویزا ہولڈرز کو ٹیکس میں جزوی طور پر یا مکمل چھوٹ کی پیشکش کرتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

گولڈن ویزے پر تنازع؟

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی ملک نے گولڈن ویزا پالیسی کو ختم کیا ہو۔ اس سے قبل برطانیہ نے بھی سنہ 2022 میں اس پالیسی کو ختم کیا تھا۔یورپی ملک مالٹا میں بھی اس ویزے کے حوالے سے خدشات اس وقت پیدا ہوئے جب بہت امیر ’غیر یورپی‘ وہاں کی شہریت لینے لگے۔یورپی یونین نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس سے منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور کرپشن کے کیسز بڑھیں گے۔بی بی سی نیوز کی ایک رپورٹ کہا گيا ہے کہ سنہ 2019 میں یورپی یونین کمیشن نے یورپی ممالک کو ان سرمایہ کاروں سے ہوشیار رہنے کو کہا جو ’گولڈن ویزا‘ کے ذریعے وہاں کے شہری بنتے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بالی وڈ اداکاروں سمیت انڈیا اور پاکستان کی کئی مشہور شخصیات نے دبئی کے گولڈن ویزے حاصل کر لیے ہیں۔ اس کے ذریعے وہ وہاں رہ کر بہت سی سہولیات حاصل کر سکتے ہیں۔ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ان شہریوں کو ان لوگوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جنھیں 2022 میں پرتگال نے گولڈن ویزا دیا۔انڈیا کے شہری اس وقت گولڈن ویزا چاہنے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ یعنی انڈیا میں دوسرے ممالک میں جا کر کاروبار کرنے یا جا بسنے کی بہت خواہش پائی جاتی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنویزا حاصل کرنے والوں میں انڈیا چوتھے نمبر پر

دوسرے ممالک میں گولڈن ویزا حاصل کرنے میں کتنا خرچ آتا ہے؟

امریکہ کے لیے گولڈن ویزا 50 لاکھ امریکی ڈالر میں دستیاب ہے۔ شرائط میں کرمنل ریکارڈ نہ ہونا اور آمدنی کا ذریعہ واضح ہونا ضروری ہے۔انٹیگوا اور بارباڈوس کا ویزا ایک لاکھ امریکی ڈالر میں مل سکتا ہے۔قبرص کا ویزا 20 لاکھ یورو میں مل جائے گا۔ جمہوریہ آئرلینڈ کا ویزا دس لاکھ یورو میں جبکہ سینٹ کٹس کا ویزا 1,50,000 ڈالر میں مل سکتا ہے۔یورپی یونین میں ایک لاکھ یورو سے لے کر 25 لاکھ یورو تک میں شہریت مل سکتی ہے جبکہ ریزیڈنسی کے لیے ڈھائی لاکھ سے چھ لاکھ یورو کے درمیان رقم درکار ہوگی۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}